مودی نہیں ہوں میں ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-22

مودی نہیں ہوں میں ۔۔۔

عرصہ پہلے میں نے ایک کہانی لکھی تھی --مودی نہیں ہوں میں ---مختصر کہانی ہے ۔ آج کےدور میں مودی ظلم اور خوف کی علامت بن چکا ہے ۔ کیسا المیہ ہے کہ مودی کی ذات نے ایک بار پھر ہندو اور مسلمانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔۔۔ مودی کو ہیرو ضرور بنایا جا رہا ہے لیکن سمجھدار ہندو بھی مودی سے نفرت کرتے ہیں ۔۔یہی اس کہانی میں دکھایا گیا ہے۔
- مشرّف عالم ذوقی

یہ انہیں دنوں کا واقعہ ہے، جب ’گودھرا‘ کی آگ نے یکایک ’بابری مسجد‘ کے دنوں کی یاد تازہ کردی تھی۔
اذان ہوچکی تھی۔ مرغ نے ’دربے‘ سے منہ نکال کر دو ایک دفعہ ’بانگ‘ کا سر بلند کیا۔ پھر چپی اوڑھ لی۔
مرتضیٰ وضو سے فارغ ہوئے تو بٹیا سامنے تھی۔
آنکھوں نے اشارے میں فرمان جاری کردیا___ ’کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
بٹیا اُداس سی ان کی طرف دیکھتی رہی۔ کچھ بولی نہیں۔
’بازو‘ میں پنڈت جی کا گھر تھا۔ پنڈت جی گھڑی نہیں باندھتے تھے۔ وقت آنکھوں کی پلکوں میں رکھا ہوتا تھا۔ آنکھیں بند کیں، اور پتہ لگا لیا۔ پانچ بج کر دس منٹ۔ نہ ایک منٹ کم، نہ ایک منٹ زیادہ۔ یہ سب تو وقت کے لمبے کارخانے کا تجربہ ہے۔نگاہ اٹھائی، تو آسمان پر اندھیری بدلیاں جمع ہو کر کسی انجان ’دیوتا‘ میں بدل گئی تھیں۔
جھکے، نمستے کا انداز اختیار کیا۔ غسل سے فارغ ہوگئے تھے۔ مگر کچھ چھوٹ رہا تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے چل رہے اصولوں میں تبدیلی آگئی تھی۔
رام نام جپتے رہے___ مگر جیسے آج پوجا کا ’ذائقہ‘ہی چلا گیا تھا۔ ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں کا کاررواں جیسے کسی لاش کو لئے جارہا تھا۔ وہ ایک دم سے سہم گئے۔
اچانک جیسے مندر کی گھنٹیاں ٹن ٹنا اُٹھیں۔
وہی، پانی کی لہروں جیسی آواز___
’میں گن رہی تھی۔ پورے 273بار۔۔۔‘
’کیا گن رہی تھی___؟‘
معصوم ہونٹ مسکرائے___’وہی رام جی کا نام۔۔۔‘
’اچھا!‘
’یہ ہر دفعہ اتنی ہی گنتی کیوں ہوتی ہے۔‘
’کیونکہ تمہاری گنتی کمزور ہے۔‘
’میری گنتی کمزور کیوں ہوگی۔ مجھے تو بیس تک کے پہاڑے بھی یاد ہیں۔‘
’میں کیا جانوں۔ روز ہی درختوں کے اردگرد رام نام کا ورد کرتے کرتے اچانک پاؤں اپنے وقت پر رُک جاتے ہیں۔‘
’نہیں، تم دل ہی دل گنتی گنتے ہوگے۔‘
’ارے نہیں رے۔‘
’نہیں، کیسے نہیں۔‘
پھر بٹیا کے ساتھ پنڈت جی کی جنگ شروع ہو جاتی۔ کبھی کبھی اس ’جنگ‘ میں بھگوان اور اﷲ دونوں شامل ہو جاتے۔
بٹیا مسکراکر پوچھتی___ ’تم ہندو کیوں ہو؟‘
پنڈت جی غصّہ ہو کر پوچھتے___ ’مرتضیٰ مسلمان کیوں ہے؟‘
بٹیا مسکراکر پوچھتی___ ’تم لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہونا۔۔۔؟‘
’پنڈت جی تاؤ کھا جاتے___ ’ہاں،جیسے مرتضیٰ ہندوؤں سے کرتا ہے۔‘
بٹیا مسکراتی تو پنڈت جی بھی مسکرا اُٹھتے___ ’سب بھگوان کا کرشمہ ہے بٹیا۔ کسی کو وہاں پیدا کیا، کسی کو یہاں۔‘
بٹیا پھر شرارت سے ہنسی___ ’مجھے تو اچھے گھر پیدا کیا، مسلمانوں کے گھر۔ تمہیں تو ڈھنگ کا کپڑا بھی پہننا نہیں آتا۔‘
پنڈت جی غصّے میں پیچھے دوڑتے___ ’تیرے باپ کو آتا ہے؟مرتضیٰ کو آتا ہے؟ ٹھہر! ابھی بتاتا ہوں۔۔۔‘
وہ یکبارگی تیزی سے لپکے۔ لیکن کہاں، کون تھا؟ صبح نور کا تڑکا تھا۔ آسمان پر چھٹتی بدلیاں تھیں۔ باہر آئے تو مرتضیٰ کھڑے تھے۔ ہمیشہ کی طرح مذاق کے انداز میں نہیں، پُرسکون لہروں کی طرح۔
’چلو!‘
کوئی کچھ نہیں بولا۔صبح ابھی پوری طرح جھلملائی نہیں تھی۔ سڑک سنسان تھی۔ وہ کچھ دور تک ساتھ چلے۔ پنڈت جی نے کچھ بولنے کی حالت میں کئی بار مرتضیٰ کا چہرہ دیکھا۔ پھر رُک گئے۔ کیا بولیں؟
یہی حال مرتضیٰ کا تھا۔
آگے سڑک دائیں طرف مڑ گئی تھی۔ پھر اگلا موڑ ’رمنہ میدان‘ تھا۔ یہاں ٹھہرتے___ بنچ پر بیٹھتے۔ دو قدم آگے تالاب تھا۔ وہاں کچھ وقت گزارتے، گفت وشنید ہوتی۔ پھر واپس چلے آتے۔
رمنہ میدان آگیا تھا۔
پنڈت جی نے خاموشی کا خاتمہ کیا۔
’بٹیا نہیں آئی!‘
’ہاں‘۔
’کیوں۔‘
’میں نے منع کردیا تھا۔‘
’کیوں منع کردیا تھا۔۔۔؟‘
’بس، منع کردیا تھا۔‘
کوئی دلیل نہیں۔ پنڈت جی نے لمحے بھر کو، جذباتی ہو کر، مرتضیٰ کو دیکھا۔ پھر رُک گئے۔ یہاں ایک غیر جذباتی سپاٹ چہرہ تھا۔ ایک دم سپاٹ۔ کچھ بھی لکھا ہوا نہیں۔ کیا کہتے۔ یہی حال مرتضیٰ کا تھا۔ بٹیا کو منع کیوں کیا؟ کیا ضرورت تھی۔ بغیر ماں کی بچی___ ذرا دیر کو بہل جاتی تھی۔

میدان میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ بینچ خالی پڑی تھی لیکن دونوں میں سے کوئی بیٹھا نہیں۔ وہ تھوڑی دور تک چلے۔ تالاب کے قریب رُک گئے۔ کنارے بیٹھ گئے۔
’پہلے یہاں کاپانی کتنا صاف تھا!‘
’ہاں۔‘
’کم بختوں نے۔۔۔‘ پنڈ جی کہتے کہتے ٹھہر گئے۔
’گالی کیوں دیتے ہو۔ گنگا، جمنا، سرسوتی اور وہ کاویری۔۔۔‘
مولوی نے پانی میں ایک کنکری پھینکی۔

’کا۔۔۔وے۔۔۔ری۔۔۔‘ پنڈت جی نے دہرایا___ ’پانی میں آلودگی کافی بڑھ گئی ہے!‘
’ہاں‘
’پہلے اتنی نہیں تھی۔‘
’ہاں۔‘
’اب کافی بڑھ گئی ہے۔‘ پنڈت جی اس بار خود کو روک نہیں سکے___ ’بٹیاکیوں نہیں آئی؟‘
مرتضیٰ نے ایک لمحہ کو اپنی آنکھیں پنڈت جی کی آنکھوں میں ’پیوست‘ کردیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں، ’کیوں نہیں بھیجی، اس کا فسانہ پڑھ لو پنڈت۔‘
پنڈت جی آنکھوں کے اس حملے سے ایک دم گھبرا گئے۔ بات ہی کتنی سی تھی۔ گودھرا کی آگ یہاں بھی آگئی تھی۔ تھوڑے سے لوگ تھے۔ مٹھی بھر۔ شہر بند کرایا۔ تب مرتضیٰ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تھے۔ ’عصر‘ کی نماز پڑھ کر۔ ایک بدمعاش نے مرتضیٰ کی داڑھی پکڑلی۔ کسی نے دو ایک ہاتھ بھی جڑدیا۔
وہ مندر میں تھے۔ بس اتنی ہی خبر تھی۔ اتنا ہی ردّعمل۔ ’ہر ایک عمل کا اس کے برابر اور برعکس ایک ردّعمل ہوتا ہے۔‘ بس۔ اتنا ہی ردّعمل لیکن ردّعمل کی زد میں آئے تھے، مرتضیٰ۔ مرتضیٰ کی جگہ کوئی بھی آسکتا تھا۔ وہ تو محلے والوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ پولیس آئی۔ محلے میں ’چوکی‘ بیٹھ گئی۔
لیکن___ پنڈت جی کے دماغ میں آندھیاں چلتی رہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ کیا منہ دکھائیں گے بٹیا کو۔ کافی دیر تک مندر میں پڑے رہے۔ پوچھنے والا ہی کون ہے۔ آگے، نہ پیچھے۔ ہمت نہ ہوئی بٹیا کو منہ دکھانے کی۔ رات کے نوبجے ذرا سی ہمت جٹائی۔ مرتضیٰ کے ’چوکھٹ‘ کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ دروازہ کھلا۔ لاش جیسا سرد چہرہ۔ قریب ہی چٹائی پر بٹیا بیٹھی تھی۔ پژمردہ چہرہ۔
پنڈت جی آگے بڑھے۔ وہیں چٹائی پر بیٹھ گئے۔ مرتضیٰ دوبارہ لیٹ گئے۔
پنڈت جی کافی دیر بٹیا سے بات کرنے کی ہمت جٹاتے رہے۔ننھی ننھی آنکھوں میں آنسو بھی تو نہیں تھے۔ کمبخت اِسی بہانے باتیں کرنے کو دو الفاظ مل جاتے۔
بدن بے حس ہورہا تھا۔۔۔بیٹھا نہیں جارہا تھا۔
’کچھ بولوگی نہیں۔‘
بٹیا چپ تھی۔
’میری کیا غلطی ہے؟‘
بٹیا اس بار بھی چپ تھی۔
’چل۔ میں ہی مجرم۔ میں ہندو ہوں۔ برا ہوں۔ اگلی بار مسلمانوں میں جنم لوں گا۔۔۔‘
جذبات بادلوں کی طرح پھر گھر گھر آئے تھے۔ رکے نہیں پنڈت جی۔ واپس آگئے۔

تالاب میں ایک کے بعد ایک کنکریاں پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کافی دیر بعد مرتضیٰ بولے___ ’کافی سمجھایا۔ کل ساری رات صدمہ جیسی حالت رہی۔ رات میں تیز بخار بھی تھا۔
’پھر۔۔۔‘پنڈت جی چیخے___ ’مجھے بلایا کیوں نہیں؟‘
’نہیں بلایا۔ بٹیا ڈری ڈری تھی۔‘
’کس سے ڈری تھی؟‘
مرتضیٰ چپ تھے۔
پنڈت جی نے ایک موٹا سا پتھر پانی کی طرف اُچھال دیا تھا۔
’چلو۔ بٹیا سے ملنا ہے۔‘

آناً فاناً گھر تک کے فاصلے مٹ گئے۔ پنڈت جی بے حد غصّے میں تھے۔ بٹیا کی پیشانی چھو کر دیکھا۔ ایک ہاتھ مارا۔
’بول میری کیا غلطی ہے؟‘
بٹیا چپ۔ ایک ٹک پنڈت جی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’بخار ہے۔ مجھے بلایا کیوں نہیں؟‘ لیپ لگا دیتا۔ مولوی کی پھونک اثر کھوچکی ہے۔ شلوک پڑھ کر تجھے پھونکتا۔ پھر دیکھتی۔‘
بٹیا کی آنکھوں میں اب بھی کوئی چمک نہیں ہے۔
’بولے گی نہیں۔۔۔ نہیں بولے گی___! نہیں بولے گی تو یہ شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ میرا جرم تو بتا دے بٹیا۔۔۔‘
اس بار پنڈت جی رونے رونے کو ہوگئے۔ ایک دم سے چیخ پڑے___ ’سن ہندو ہوں۔ مودی نہیں ہوں میں‘۔
بٹیا اور مرتضیٰ، حیران سے، ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
دوسرے ہی لمحہ بٹیا پنڈت جی کے گلے سے لگ کر زور زور سے رو پڑی تھی!

***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی

I am not Modi. Short Story: Musharraf Alam Zauqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں