تبصرہ کتاب - حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-24

تبصرہ کتاب - حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں

حیدرآباد ی تہذیب اور آصف جاہی حکمرانوں کی رواداری ساری دنیا میں اپنی انفرادی پہچان رکھتی ہے ۔ آصف جاہوں نے اپنے دور حکومت میں رواداری اور یکجہتی کی جو مثال قائم کی ہے وہ قابل ستائش ہے اور کبھی نہ بھولنے والی یادگار ہے۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد میں امن وامان قائم رکھا،تہذیبی و ثقافتی یادگاریں چھوڑیں، تعلیم،صحت،انتظامی امور اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں اعلیٰ معیار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اور ریاست حیدرآباد کو سماجی معاشی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ترقی کی اعلیٰ منزلوں پر لا کھڑا کیا۔ عہد آصفی خاص کر میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے دور حکمرانی میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا اور آصف سابع میر عثمان علی خان کے عہد میں اردو زبان نے ترقی کی منزلیں طئے کیں اور انہوں نے تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی ۔ ان کے عہد حکمرانی میں ہندوستان کی عظیم الشان مادر علمیہ "جامعہ عثمانیہ" کا قیام عمل میں لایاگیا۔تہذیبوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھیں۔ اور ماضی کی شاندار یادوں اور تجربات کی روشنی میں مستقبل کے سنہرے محل تیار کریں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ مادہ پرستی اپنی انتہائی حدوں کو پار کرچکی ہے۔ اور اخلاقی قدریں انتہائی پستی کا شکار ہوچکی ہیں۔ ارباب اقتدار اور فطرت کے قوانین سابقہ یادگاروں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ حیدرآباد کی گذشتہ تہذیب کی یادگاروں کو قدیم مخطوطات اور نادر نسخوں کے مطالعے سے عصر حاضر کے لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں کچھ لوگ پیش پیش رہ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی کے رشتوں کو حال میں اس لئے جوڑ رہے ہیں تاکہ لوگوں کا مستقبل سنورتا رہے۔ حیدرآباد کی قدیم تہذیبی وراثت کو نئی نسلوں تک ایک امانت کی شکل میں پہونچانے والے ایک عظیم مورخ اور قلم کار ڈاکٹر سید داؤد اشرف ہیں جن کا نام اب حیدرآبادی تہذیب اور آصف جاہی دور کے کارناموں کو ہم تک پہونچانے والوں میں شمار کیا جانے لگاہ ہے۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف اردو دنیا کیلئے قطعی محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی حکمرانوں پر لکھی ہیں۔"حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں" ان کی21ویں تصنیف ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اردو زبان میں ان کی 13کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں مخدوم ۔ایک مطالعہ، اور کچھ بیان اپنا، بیرونی مشاہیر ادب اور حیدرآباد، حاصل تحقیق، نقوش تاباں، قدر داں حیدرآباد ،اوراق مورخ، حرف اعتبار، گذشتہ حیدرآباد، بیرونی ارباب کمال اور حیدرآباد، گنجینۂ دکن، حیدرآباد کی علمی فیض رسانی، کتابوں کے قدر شناس، آصف سابع شامل ہیں اس کے علاہ7تصانیف انگریزی زبان میں شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں عہد آصفی پر ایک اتھاریٹی تسلیم کیاجاتا ہے ساتھ ہی ان کی تحقیق کو معتبر مانا جاتاہے۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی زیر نظر کتاب"حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں" تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے ۔اس کتاب کا رسم اجراء 16؍جون 2013ء کو ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد میں بدست سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی عمل میں آیا رسم اجراء کی تقریب میں بطور مہمان جناب زاہد علی خان صاحب مدیر سیاست، پروفیسر نسیم الدین فریس ، پروفیسر اشرف رفیع ، محمد فاروق علی خان صاحب، ضیاء الدین نیر صاحب نے شرکت کی۔
زیر نظر کتاب جملہ26مضامین پر مشتمل ہیں جس کو دوحصوں میں تقسیم کیاگیا ہے پہلے حصہ میں مشاہیر کی تصانیف سے اخذ کردہ اہم معلومات کو شامل کیاگیاہے اور دوسرے حصہ میں جن مشاہیر سے انٹرویوز لئے گئے اور جن شخصیات کے متعلق لئے گئے ان سے اہم مواد کو شامل کیاگیا ہے ۔ فاضل مصنف نے پہلے حصہ میں جن مضامین کو شامل کیا ہے ان میں سرورالملک سرور جنگ کی خودنوشت "کارنامہ سروری" ، مرزا فرحت اللہ بیگ کی تصنیف "میری داستان" خالدہ ادیب خانم کے کتابچے ،" اندرون حیدرآباد" ظہیر احمد کی مرتبہ انگریزی کتاب Life's Yesterdayاورنواب صاحب چھتاری کی خودنوشت"یادایام" سے اخذ کئے گئے مواد پر اپنی یہ تخلیق رقم کی ہے ۔
ڈاکٹر سید داؤد اشرف کتاب کے پیش لفظ میں ان مضامین کی اہمیت سے متعلق لکھا کہ:
"یہ تمام مضامین چھٹے آصف جاہی حکمراں میر محبوب علی خاں آصف سادس (دور حکمرانی1869ء تا1911ء) اور ساتویں اور آخری آصف جاہی حکمراں میر عثمان علی خاں(دور حکمرانی1911ء تا1948ء ) کے ادوار حکمرانی کی آٹھ دہائیوں کااحاطہ کرتے ہیں۔ مشاہیر کی معاصر تصانیف اور انٹرویوزمیں دستیاب مواد کی بنیاد پر قلمبند کئے گئے ان مضامین سے آصف سادس اور آصف سابع ہردو کی شخصیت و سیرت اور طرز حکمرانی پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس طویل مدت میں ریاست کی ترقی اور اس زمانے کی امتیازی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دور کے وزرائے اعظم اور نامور وممتاز شخصیتوں کے کارناموں اور حیدرآباد کے کلچر سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔"
ڈاکٹر سید داؤد اشرف ان مضامین میں مستند حوالوں اور آرکیوز کے ریکارڈ سے ریاست حیدرآباد اور عہد آصفی کے سنہرے دور کے متعلق مشاہیر کی قیمتی آراء اور معلوماتی واقعات کو شامل کرتے ہوئے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ ایک پختہ کار محقق اور ماہر تخلیق کار ہیں ۔ ان کا انداز بیان کافی دلچسپ ہے ۔ تاریخی واقعات کے بیان سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔ ڈاکٹر سید داؤد اشرف نے اپنی تصنیف کے 9ویں مضمون "تیسرے پائیگاہ کمیشن کی کاروائی آصف سابع کو بدنام کرنے کی ریزیڈنٹ کی کوشش ناکام" میں فرحت اللہ بیگ کے حوالے سے تیسرے پائیگاہ کمیشن کے صدر مسٹر ایچ ۔ ڈی ۔ سی ۔ ریلے(مدراس ہائی کورٹ کے حج)کے واقعہ کو بیان کیا ہے کہ آصف سابع نے مسٹر ریلے کو ایک دفعہ لنچ پر بلایا تھا جس کے بعدمسٹر ریلے نے آصف سابع کی شخصیت سے متاثر ہوکر ان کی تعریف اس طرح بیان کی ہے ۔ "ایسا شریف انسان اور باخبر رئیس میرے دیکھنے میں نہیں آیا اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی ساری رعایا مطمئن ہی نہیں بلکہ اپنے بادشاہ پرجان دیتی ہے ۔"
فاضل مصنف نے اس کتاب میں جن واقعات کو مختلف مشاہیر کے ذریعہ پیش کیا ہے وہ دراصل اہم اور تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ راز دارانہ واقعات ہیں جس سے عام قاری کم ہی واقف ہوتے ہیں اور تاریخی کتابوں میں شائد ہی ان واقعات کے متعلق تفصیل پائی جاتی ہو۔
میر محبوب علی خاں آصف سادس کی شخصیت کے متعلق ڈاکٹرسید داود اشرف میر معظم حسین سے لیے گئے انٹرویو کے حوالے سے رقمطراز ہیں۔
" محبوب علی خان کی شخصیت میں مورثی وقار تھا۔تربیت کی وجہہ سے ان کی شخصیت کو چار چاند لگ گئے تھے ۔وہ ہاتھ کے بڑے کھلے تھے۔ فیاضی اور رحم دلی ان کی شخصیت کا اہم عنصر تھا۔ موسی ندی میں طغیانی (ستمبر ۱۹۰۸ء)کے موقع پر انہوں نے رعایا کیلئے اپنے محل کھول دئیے تھے ۔ رعایا کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ان کے آنسو نکل پڑے تھے۔ رعایا کو بھی اندازہ تھا کہ ان کی پریشانی میں ان کا حکمراں پوری طرح ان کے ساتھ ہے"
ڈاکٹر سید داؤد اشرف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہایت ہی لگن و جستجو اور تحقیق کے ذریعہ ریاست حیدرآباد پر مختلف مشاہیر کے تاثرات کو اپنی اس گرانقدر تصنیف میں شامل کیا ہے ۔ انہوں نے اس تصنیف کے ذریعہ حیدرآبادیوں کیلئے ایک احسان عظیم انجام دیا ہے جس کی جتنی تعریف ستائش کی جائے کم ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر داؤد اشرف نے حیدرآبادی تاریخی ورثے کے تحفظ کی جو مہم شروع کی ہے اسے نئے دور کے مورخ،محقق اپنائیں۔ اور آج کی اس تیرہ بخت دنیا میں رعایا پرور حکمرانی،انسانی خدمت کے عظیم جذبوں اور تہذیب و تمدن کی بے مثال یادوں کے ذکر کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ دور حاضر میں برائی کے روبرو اچھائی کی مثالیں آتی رہیں اور لوگ اچھی قدروں کے سہارے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھ سکیں۔ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی عہد سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اور محقیقین کیلئے یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے ا مید کے ادبی حلقوں میں ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی اس تصنیف کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔

کتاب "حیدرآباد مشاہیر کی نظر میں" 200 صفحات پر مشتمل ہے ۔ مجلد خوبصورت ٹائٹل اور کمپوزنگ طباعت عمدہ ہے قیمت صرف200/-روپیئے ہے ۔جسے شگوفہ پبلی کیشنز حیدرآباد نے شائع کیا ہے ۔
کتاب حاصل کرنے کے پتے:
سیل کاؤنٹر روزنامہ سیاست حیدرآباد۔۔۔
ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس پرانی حویلی حیدرآباد۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on "Hyderabad - mashaheer ki nazr meiN" by Dawood Ashraf. Reviewer: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں