رخصت پذیر آئی پی ایل - وہ کیا بلا تھی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-04

رخصت پذیر آئی پی ایل - وہ کیا بلا تھی

پہلے دولت مشتر کہ کھیل او راب آئی پی ایل میں حکومت ہند کی سر پرستی اور میڈیا کی نگرانی میں شہوانیت ،عریانیت دوسر ے الفاظ میں حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہوا اس سے یقیناًیہ ثابت ہوتا ہے کہ اب ہمارا ملک مغربی تہذیب کی دلدل میں نہ صر ف پھنس چکا ہے بلکہ تہذیب جدید کی یہ لعنت جس کو بقول ڈاکٹر علامہ اقبال "مذہب و اخلاقیات سے بیر ہے"نیز جس نے مغربی اور یوروپی دنیا کے چین وسکون اور وہاں کے معاشرے کو درہم بر ہم کر د یا ہے ! ہمارے ملک کے رگ و پے میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کے مضر اثرات سے بارہا آگاہ کیا جاچکا ہے اس کی مسلسل سرپرستی کی جارہی ہے اوراسے ہندوستان جیسے اعلی تہذیبی ملک میں فروغ دیا جارہاہے۔کون نہیں جانتا کہ مغرب تخریب کاری کا عنوان رہا ہے اوراس کا اصل ہدف مشرق کی تباہی رہا ہے ۔
جدید تہذیب کے بارے میں ایک جگہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ " اسی کے ساتھ یہ مو قف قانون تکوینی اور اس کائنات کے مزاج کے بھی سراسر خلاف ہے کہ اگر کو ئی ملک زبر دستی اس خلاف فطرت موقف کو اختیار کرنا چاہے گا تو یہ تہذیب اس کے گھروں میں اور اس کے خاندانوں میں اس طرح داخل ہو جا ئیگی جس طرح سیلاب سے گھرے ہوے کسی گاؤںیا شہر میں پانی بغیر کسی اطلاع اور آگاہی کے داخل ہوجاتا ہے اور ہر طرف سے اس کو گھیر لیتا ہے۔"

دوسری جگہ پر تحریر کرتے ہیں:
" اسی طرح اگر مغربی تہذیب اور اس کے وسائل وثمرات سے استفادہ با قاعدہ سوچی سمجھی اسکیم ،بصیرت و تدبراور خیر وشر میں تمیز کی بناپر نہ ہوا تو یہ تہذیب ملک کے رہنماؤں اور ارباب حل وعقد اور علمائے دین کی مرضی اور خواہش کے خلاف اس ملک یا سوسائٹی پر جبراً قابض ہوجائیگی ۔عوام گرمجوشی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کریں گے ادبااور اہل فکر اس کے لئے راستہ صاف کریں گے اور خیر وشر اور مفید ومضر میں تمیز کئے بغیر اس ملک کے باشندے فاقہ زدوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑیں گے ساری اخلاقی ودینی قدریں اس ساتھ فنا ہوجائیں گی ملک کے رہنما‘ ذمہ دار اورسیاست داں اس صورت حال کے سامنے بے دست وپا اور مفلوج نظر آئیں گے اور ان کے ہاتھ سے زمام قیادت ہمیشہ کیلئے نکل چکی ہو گی۔"

بغیر کسی استثناکے تقریباً سارے مشرقی ممالک اس دور آخر میں ایک ایک کر کے مغربی تہذیب کا لقمۂ تر ہو چکے ہیں اور بغیر کسی مزاحمت کے یہ سیلاب بلاخیز ان کو بہا لے گیا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی قیادت غیر معمولی اور متوازن عقل اور انتخاب و تمیز کی ضرورت صلاحیت سے محروم تھی اور تصویر کے دونوں رخ اس کی نظر کے سامنے پوری طرح نہیں آسکے تھے نظام تعلیم اور ملک کی تنظیم نوکی بنیاد حکیمانہ منصوبہ بندی اور جدید تجر بوں پر نہیں تھی ۔

اجتماعی ،ومعاشرتی اور سماجی زندگی میں مغربی طریقوں کی پیر وی اور انکے اصول زندگی اور طرز معاشرت کو قبول کر لینا اسلامی معاشرے میں بڑے دور رس نتائج رکھتا ہے اس وقت مغرب ایک اخلاقی جذام میں مبتلاہے جس سے اس کا جسم برابر کٹتا اور گلتا جارہا ہے اور اب اس کی عفونت پورے ماحول میں پھیل ہو ئی ہے اس مرض جذام کا سبب( جو تقریباًلا علاج ہے )اس کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انارکی جو حیوانیت کے حدود تک پہنچ گئی ہے لیکن اس کیفیت کا بھی اولین سبب عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی مکمل بے پردگی مرد وزن کا غیر محدود اختلاط ،اور شراب نوشی تھی کسی اسلامی ملک میں اگر عورتوں کو ایسی ہی آزادی دی گئی پردہ یکسر اٹھادیا گیادونوں صنفوں کے اختلاط کے آزادانہ مواقع فراہم کئے گئے مخلوط تعلیم جاری کی گئی تو اسکا نتیجہ اخلاقی انتشار اور جنسی انارکی سول میرج تمام اخلاقی ودینی حدودواصول سے بغاوت اور بالاختصار اس اخلاقی جذام کے سوا کچھ نہیں جو مغرب کو ٹھیک انھیں اسباب کی بنا پر لاحق ہو چکا ہے ،ان اسلامی ملکوں میں جہاں مغربی تہذیب کی پر جوش نقل کی جارہی ہے اور جہاں سے پردہ بالکل اٹھ گیا ہے اور مردو زن کے اختلاط کے آزادانہ مواقع حاصل ہیں پھر صحافت ،سنیما ،ٹیلی ویزن، لٹر یچر اور حکمراں طبقہ کی زندگی اس کی ہمت افزائی بلکہ رہنمائی کر رہی ہے۔وہاں اس جذام کے آثار وعلامات پوری طرح ظاہر ہو نے لگی ہیں اور یہ قانون قدرت ہے جس سے کہیں مفر نہیں۔"
یہ تھے وہ تمام تاریخی حقا ئق اور شواہد جن میں تہذیب جدید کے ان خدشات اور مضمرات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے جن کا مزہ دوسرے ملک اور وہاں کے لوگ چکھ چکے ہیں یا اس کی چپیٹ میں ہیں اور اب ان کے پاس اس کے نقصانات سے بچ نے کایا اپنی نئی نسل کو بچانے کا کوئی ایسا راستہ نہیں جہا ں سے آسانی کے ساتھ نکل جائیں کیوں کہ تہذیب جدید ان ملکوں میں فاتحانہ داخل ہوئی تھی اور فاتح مفتوح کے لئے تمام راستوں کو مسدود کر دیتا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ جو ملک اور ان کے سربراہان ماضی کے وقعات سے عبرت حاصل نہیں کر تے یا آگاہی کے باوجود ان خطرات کا جو معاشرے یا سوسائٹی کو در پیش ہوتے ہیں ان کے مقابلہ کے لئے کو ئی پائیدار حل یا لائحہ عمل تیا ر نہیں کرتے تو ان کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔مذکورہ اقتباس میں ہم ان ملکوں کی صورت حال کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں جن ہو نے خندہ لبی کے ساتھ تہذیب جدید کو حرزجاں بناکر اس کے استقبال میں سبقت لے جا نے کی کو ششیں کیں ۔ لیکن ہم خوش قسمت اس لئے بھی تھے کہ ہمارے ارباب فکر ونظر نے صدیوں پہلے ہی اس کے زہریلے اثرات کو نہ صرف تاڑلیا تھا بلکہ اس کے پر خطر اندیشوں سے اور نئی نسل پر پڑ نے والے اس کے زہریلے جراثیم سے ارباب اقتدار کو خبردار بھی دیا تھا ۔ لیکن افسوس ارباب حکومت برابر اہل نظر کی اس یقینی پیش گوئی سے اغماض کر تے رہے اور اس کے برعکس مردہ مغربی تہذیب کے لئے نہ صرف ر اہ ہموار کر تے رہے بلکہ اپنی نئی نسل پرا س کو زبردستی تھو پ نے کے لئے اہل نظراں کی پشت پناہی بھی کر تے رہے ۔ہمارے پاس ہزاروں مثالیں ایسی موجود ہیں جو ہمارے اس دعوے کی تصدیق کر تی ہیں۔ کہ ارباب اقتدا رکے توسط سے تہذیب جدید کو کتنی تقویت اور بڑھا وہ ملا۔2010 میں دولت مشترکہ کھیلوں میں حکومت کی زیر نگرانی اور قومی میڈیا کی دیکھ ریکھ میں جس طرح اعلانیہ عورتوں کی جسم فروشی کا کاروبار ہوااور ساتھ ساتھ کھیل گاؤں میں ٹھیرے ہو ے مہمانوں کے لئے بہت سی ایسی چیزوں کا استعمال ہواجن کی اجازت ہمارے آئین میں نہیں تھی۔ اسی طرح بگ باس اور کچھ ٹی وی ا شتہارات میں جو کچھ ہمیں منفی اثرات دیکھ نے اور سننے کو ملتے ہیں اس کامشاہد ہ معاشرے میں ہر دن کسی نہ کسی شکل میں کر تے ہی رہتے ہیں۔

آئی پی ایل میں جو کچھ ہوا اس کا اکثر سچ تو ہمارے سامنے آچکا ہے اور جو کچھ پس پردہ ہے اس کا علم اگر چہ ہمیں نہیں لیکن ارباب اقتدار کو اس کا علم ضرور ہے کیو نکہ ایسا کو ئی بھی عمل یا کام جو اتنے بڑے پیمانے پر ہوتا ہے تو اس کی اطلاعات اورسرپرستی حکومت کو ضرور حاصل ہوتی
ہے۔جہاں تک بات آئی پی ایل کی ہے اور اس میں ہونے والی تمام خرافات کی تو ہم اس کے حوالے سے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس وبا اور بلا کے پیچھے ضرور حکومت کے کچھ لوگ شامل ہیں۔ان کے اشارے اورایما کے بغیریہ بے حیائی اوربرائیوں کی آماج گاہ آئی پی ایل ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتا۔ یہ ضمناًکچھ واقعات بیان کئے گئے ہیں جن سے اندازا کیا جاسکتا ہے مغربی تہذیب کے تئیں حکومت کی رحم دلی اور ہمدردی کا۔اوراگر یہ رحم دلی اور اندیکھی اسی طرح جاری رہی اور سستی اور کاہلی کا مظاہرا ہوتا رہا تو ہمارا ملک ومعاشر ا بھی عدم توازن کا شکار ہو جائیگا۔اس لئے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ آئی پی ایل کی مکمل جانچ کی جائے اور خاص طور سے چیر گرلز کے کردار کی ۔کیونکہ ان کے کردار پر پہلے سے ہی بہت سے سوالیہ لگے ہوئے ہیں۔

***
fatehnadwi[@]gmail.com
موبائل : 9250512070
فتح محمد ندوی

Endnote of the IPL saga. Article: Fateh Mohammad Nadwi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں