27/جون حیدرآباد سیاست نیوز
آندھراپردیش ریاستی وقف بورڈ سپریم کورٹ میں درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی اوقافی اراضی کے تحفظ کیلئے مقدمات لڑنے کے بجائے لینکو ہلز و دیگر کمپنیوں کو مقدمہ میں فریق بناتے ہوئے سپریم کورٹ میں مزید کوئی رجسٹریشن یامذکورہ کمپنوں کو قرضہ جات کی عدم اجرائی کیلئے مقدمہ دائر کئے ہوئے ہے۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاع کے بموجب سپریم کورٹ میں جاری لینکو ہلز اراضی مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جو درخواست داخل کی ہے اُس میں متبادل اراضی کے حصول یا اراضی کو موقوفہ قرار دینے کی درخواست نہیں ہے بلکہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی موقوفہ اراضی پر تعمیر کمپنیوں کے دفاتر کو قرضہ جات کی عدم اجرائی کے علاوہ لینکو ہلز کو اپنی جائیداد فروخت نہ کرنے کی ہدایت جاری کے سلسلہ میں ہے۔ لینکو ہلز اوقافی اراضی کے تحفظ کے سلسلہ میں جناب محبوب عالم خان اور جناب ابراہیم بن عبداﷲ مسقطی جو سپریم کورٹ سے رجوع ہوچکے ہیں، اس مقدمہ میں جناب مشتاق احمد ایڈوکیٹ پیروی کررہے ہیں۔ فریقین مخالف کی طرف سے تاحال اس مقدمہ میں کوئی جواب داخل نہیں کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کوہدایت جاری کی ہے کہ وہ فوری جواب داخل کرے تاکہ تمام اپیلوں کی یکساں سنوائی کو یقینی بنایاجاسکے۔ اس مقدمہ کی آئندہ سماعت 26 جولائی کو ہوگی۔ وقف بورڈکی جانب سے جو درخواست داخل کی گئی ہے اُس درخواست کی ماہرین کے اعتبار سے قطعاً ضرورت نہیں ہے چونکہ جائیداد کے موقوفہ ہونے کے سلسلہ میں وقف ٹریبونل کے علاوہ آندھراپردیش ہائیکورٹ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ جائیداد موقوفہ ثابت ہوچکی ہے۔ سال گذشتہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکمنامہ بتاریخ 3مئی 2012ء کو ریاستی حکومت کے وکیل کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے جاری کیا تھا جس میں یہ کہا گیاتھا کہ حکومت وقف بورڈکو متبادل جگہ دے گی یا پھر اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ وقف بورڈ کی جانب سے اس حکمنامہ کے باوجود اس طرح کی درخواستیں داخل کرتے ہوئے لاکھوں روپئے کا خرچ کہا تک درست ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آندھراپردیش وقف ٹریبونل میں وقف درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ سے متعلق کئی مقدمات زیر دوران ہے۔ مذکورہ درگاہ کی انتظامی کمیٹی نے بھی اس سلسلہ میں مقدمہ دائر کئے ہوئے اور جناب محبوب عالم خاں اور جناب ابراہیم بن عبداﷲ مسقطی کی طرف سے مقدمہ نمبر OS NO 99/2007 دائر کیا گیاتھا اور وقف ٹریبونل سے استدعا کی گئی تھی کہ گزٹ نوٹیفکیشن اور دیگر دستاویزات کی بنیاد پر درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی جائیداد کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے اور لانکو و دیگر کمپنیوں کی وقف ہذا کی زمین پر مزید تعمیرات سے روکاجائے اور اس بابت بھی حکم امتناعی جاری کیا جائے تاکہ یہ کمپنیاں وقف ہذا جائیداد کو کسی تیسرے فریق کو فروخت نہ کریں۔ وقف ٹریبونل نے حکم امتناعی جاری کیا۔ لانکو نے وقف ٹریبونل کے حکم امتناعی کے احکامات کو آندھراپردیش ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس کے ساتھ ہی حیدرآباد کے دیگر افراد نے بھی ہائی کورٹ میں اس جائیداد کے تعلق سے مفاد عامہ میں رٹ درخواست دائر کی۔ کمیٹی ہذا نے بھی مقدمات دائر کئے۔ ان سارے مقدمات کا فیصلہ جسٹس وی وی ایس راؤ اور جسٹس آر کانتا راؤ پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے مورخہ 3اپریل 2012ء کو کیا۔ فاضل جج صاحبان نے اس جائیداد کو وقف جائیداد مانا، لانکو اور دوسری کمپنیوں کی اپیل کو خارج کردیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وقف ٹریبونل کے ذریعہ عبوری حکم امتناعی جاری رہا۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ بتاریخ 3 اپریل 2012 ء کو لانکو نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس کی سنوائی 8؍مئی 2012ء کو ہوئی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگادی اور وقف ٹریبول پر بھی روک لگادی کہ وہ مقدمات کی مزید سماعت نہ کرے۔ ابھی 10مئی 2013ء کو جو مقدمہ کی سماعت ہوئی وہ آندھراپردیش وقف بورڈ کی ایک ایسی درخواست پر ہوئی جس کا ماہرین کے مطابق کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ مقدمہ کے اہم فریقین جناب محبوب عالم خان اور جناب ابراہیم بن عبداﷲ مسقطی کی جانب سے دائر کردہ رٹ درخواست کی سماعت 26 جولائی کو مقرر ہے۔--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں