پولیس تحویل میں خالد مجاہد کی موت - سی بی آئی تحقیقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-20

پولیس تحویل میں خالد مجاہد کی موت - سی بی آئی تحقیقات

جونپور۔(ایجنسیاں)
حکومت اترپردیش نے پولیس تحویل میں خالد مجاہد کی موت کی سی بی آئی تحقیقات کی سفارش کی ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد خالد مجاہد کی لاش کو ان کے خاندان کے حوالے کردیا گیا اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ پولیس نے اس موقع پر سخت سکیورٹی انتظامات کررکھے تھے۔ پرنسپل سکریٹری داخلہ، آر ایم سریواستو نے بتایاکہ حکومت نے مرکزی وزارت داخلہ کو سفارش روانہ کردی ہے۔ عدالتی سماعت کے بعد لکھنو جیل کو منتقلی کے دوران کل خالد کا انتقال ہوگیا تھا۔ خالد کے ارکان خاندان نے بے رحمی کے ساتھ ملزم کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کی پاداش میں 6 سینئر عہدیداروں اور دیگر 42 نامعلوم افراد کے خلاف بارہ بنکی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آردرج کروایا ہے۔ اس وقت کے ڈی جی پی وکرم سنگھ اور اے ڈی جے (ایس ٹی ایف) برج لال، اے ایس پی منوج کمار جھا، ڈی ایس پیز چرنجیوی ناتھ سنہا، ایس آنند اور وائی کے لال کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے جو خالد کی گرفتاری میں ملوث تھے۔ مرحوم کے چچا ظہیر عالم نے ایف آئی آر درج کروایا ہے جو جونپور کے مردی آہو پولیس اسٹیشن کے علاقہ کے رہنے والے ہیں۔ قانون تعزیرات ہند کی دفعات 102(B) اور 302 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ دوسری جانب مجاہد کے وکیل محمد شاہد نے کہاکہ خالد مجاہد کے پوسٹ مارٹم سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ ان کی موت قلب پر حملے کے باعث نہیں ہوئی ہے بلکہ پولیس نے انہیں قتل کیا ہے۔ اگرچہ کہ ڈاکٹرس بھی خالد مجاہد کی پوسٹ مارٹم کی واضح رپورٹ پیش کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں لیکن ان کے جسم پر کئی زخم پائے گئے ہیں۔ 2007ء میں پیش آئے سلسلہ وار بم دھماکے کے سلسلے میں خالد مجاہد کے ساتھ ساتھ طارق قاسمی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی مسلم میرر سے بات چیت کرتے ہوئے خالد مجاہد کے وکیل محمد شعیب نے جو کہ مجاہد اور اس دھماکہ کے ایک اور ملزم طارق قاسمی کے مقدمے کی پیروی کررہے ہیں کہاکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالد مجاہد کے جسم پر شدید زخم کے نشانات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا چہرہ اچھا خاص سوجھا ہوا ہے، ناخن بالکل کالے ہوچکے ہیں اور گردن کی ہڈی کے ٹوٹنے کے بھی اثرات ظاہر ہونے ساتھ ساتھ ان کی ناک اور منہ سے خون بہنے کی بھی علامتیں ظاہر ہوئی ہیں۔ کل یعنی ہفتہ کو وکیل شعیب خالد مجاہد کے ساتھ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے کہاکہ اس سانحہ کے بارے میں سن کا کافی تعجب ہوا۔ کیونکہ میں کل 3:15بجے تک فیض آباد کی عدالت میں مجاہد کے ساتھ تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح کرتا پاجامہ میں ملبوس تھے، لیکن جب ہم رات میں بارہ بنکی کے ہاسپٹل پہنچے جہاں پولیس نے مجاہد کی نعش کو لایا تھا تو مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ وہ ٹی شرٹ اور نصف پاجامہ میں ملبوس ہیں۔ محمد شعیب نے مزید بتایاکہ پولیس نے متعدد مرتبہ خالد مجاہد کو انکاونٹر میں ہلاک کرنے کی دھمکی دی تھی اور اس سلسلہ میں عدالت کو تحریری طورپر واقف بھی کرایا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ خالد نے متعدد مرتبہ ان سے کہا تھا کہ پولیس ٹیم انہیں انکاونٹر میں ہلاک کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ محمد شعیب کا کہنا ہے کہ 3:15 بجے تک میں ان کے ساتھ تھا اور شام 5بجے مجھے ان کی موت کی اطلاع ملی۔ جماعت اسلامی ہند اور معروف انسانی حقوق کارکنوں نے اس اوقعہ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قصور وار پولیس ملازمین کو فوری طورپر گرفتار کریں۔ جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری انجینئر محمد سلیم نے کہاکہ عدالتی تحویل میں یہ ایک قتل کا معاملہ ہے اور خالد مجاہد کو منصوبہ بند انداز میں ہلاک کیا گیا ہے تاکہ ان ایجنسیوں کے کالے چہروں کو بچایا جاسکے جو کہ دہشت گردی کے مقدمات میں معصوم مسلم نوجوانوں پر غلط الزامات عائد کررہے ہیں۔ جیسے ہی مقدمات کی شروعات ہوتی ہے تو دھیرے دھیرے عدالت کی جانب سے ان بے قصور مسلم نوجوانوں کو رہا کرنے کی امیدیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ سب متعصب پولیس ملازم کو برداشت نہیں۔ یہ رجحان نہ صرف بہت ہی خطرناک ہے بلکہ ملک کیلئے نقصان دہ بھی ہے۔ انہوں نے خالد مجاہد کے خاندان کو 50لاکھ روپئے بطور معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بے قصور محروسین کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے تعلق سے کام کرنے والے دیگر ارکان نے بھی اس تعلق سے اپنی تشویش ظاہر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قصور وار پولیس ملازمین کو بغیر کسی تاخیر کے گرفتار کیا جانا چاہئے۔ ٹیسٹا سیتلواد، شبنم ہاشمی( انہد)، کویتا سریواستو، احمد شعیب، مہتاب عالم، اور منیشا سیٹھی کے دستخط شدہ ایک بیان میں اس واقعہ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ان ارکان کا کہنا ہے کہ پولیس نے واقعہ کا وقت بدلنے کے ساتھ غلط اطلاعات بھی دی ہیں جیسا کہ فیض آباد کے ڈی آئی جی دھرمیندر سنگھ یادو نے پہلے یہ اعلان کیا کہ خالد مجاہد کی موت لو لگنے سے ہوئی ہے اور اس کے فوری بعد اس کہانی کو قلب پر حملے کا رنگ دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان ارکان نے یہ بھی کہاکہ مجاہد کے پوسٹ مارٹم میں اتنی جلد بازی کیوں کی گئی؟ ان کے ارکان خاندان کو کیوں اس بارے میں واقف نہیں کرایاگیا؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خالد مجاہد کی موت کے واقعہ کو پولیس حراست میں موت کے کیس کی حیثیت سے تحقیقات کی جائے اور ان پولیس ملازمین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ فوری طورپر سی بی آئی تحقیقات کا بھی حکم دیاجانا چاہئے۔ اس کے علاوہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور اس کی ویڈیو گرافی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ چیف منسٹر اکھلیش یادو کو چاہئے کہ وہ طارق قاسمی اور دیگر ملزمین کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں۔ تمام مسلم تنظیموں اور مشہور سماجی شخصیتوں کی سربراہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے اس واقعہ کی سختی سے مذمت کی ہے۔ اور ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔ ماضی کی بی ایس پی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن نے ان ملزمین کو بے قصور قرار دیتے ہوئے پولیس کے دعوؤں کو بے بنیاد بتایا ہے اور یہ رپورٹ گذشتہ سال 31اگست کو ہی ریاستی حکومت کو پیش کی جاچکی ہے۔ اس رپورٹ کو فوری طورپر عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے۔ مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہاکہ مجاہد کی موت کے بارے میں پولیس کی کہانی پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک صحت مند آدمی کا قلب پر حملے کے بعد فوری انتقال ہوجائے۔ مجاہد کے وکیل کے بیانات سے بھی شکوک و شبہات کو تقویت پہنچتی ہے۔ ڈاکٹر خان نے کہاکہ مرکز اور ریاستی حکومت کیلئے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ ملک کی جیلوں میں قید ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کے مقدمات کا از سر نو جائزہ لیں۔

بارہ بنکی۔(پی ٹی آئی)
یوپی پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ریٹائرڈ اور ایک سینئر برسر خدمت آفیسر کے بشمول 42افراد کے خلاف آج ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے۔ سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزم خالد مجاہد کی موت کے سلسلہ میں مبینہ سازش کیلئے یہ مقدمہ درج کیاگیا، کیونکہ ریاستی حکومت نے اس واقعہ کی سی بی آئی تحقیقات کرانے کی سفارش کی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق خالد مجاہد کے چاچا ظہیر عالم نے آج صبح کئی پولیس ملازمین کے بشمول 42افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروایا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان لوگوں نے خالد مجاہد کی موت کے سلسلہ میں مجرمانہ سازش رچائی تھی۔ یہ مقدمہ کوتوائی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا۔ پولیس ذرائع نے بتایاکہ انہوں نے 120B (مجرمانہ سازش) اور 302(قتل) تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت کیس درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں درج کردہ الزامات میں انفرادی طورپر رول ہونے کا واضح اشارہ نہیں دیا گیا۔ خالد مجاہد سلسلہ وار بم دھماکوں کا ملزم تھا۔ یہ دھماکے نومبر 2007ء میں لکھنؤ اور فیض آباد میں کئے گئے تھے۔ وہ کل بیمار ہونے کے بعد فوت ہوگیا۔ حکومت اترپردیش کے ترجمان نے کہاکہ حکومت نے مجاہد کی موت کی سی بی آئی تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے۔ مجاہد کے ارکان خاندان کی درخواست پر حکومت نے یہ کیس سی بی آئی کے حوالے کرنے پر زور دیا ہے۔ ظہیر عالم نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا کہ ان کے بھتیجہ کو 16دسمبر 2007ء میں ضلع جونپور میں مدھیاؤں سے خصوصی ٹاسک فورس نے اغوا کرلیا تھا۔ بعدازاں جھوٹے دعوے کے ساتھ گرفتارکیا گیا اور کہا گیا کہ بارہ بنکی ریلوئے اسٹیشن کے قریب وہ دھماکو اشیاء کے ساتھ دستیاب ہوا۔ انہوں نے ان بم دھماکوں میں اسے پھانسا تھا۔ اس واقعہ میں کئی پولیس ملازمین ملوث ہیں۔ ایف آئی آر میں ظہیر عالم نے لکھا ہے کہ خالد مجاہد کی گرفتاری اور آرڈنینس کمیشن کی جانب سے جھوٹے بیان پر انہیں ماخوذ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بارہ بنکی عدالت میں مجاہد کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی تھی جس کو 10مئی کو مسترد کردیا گیاتھا۔ ظہیر عالم نے کہاکہ حکومت نے اعلیٰ عدالت میں ان احکام کو چیلنج کرنے کافیصلہ کیا ہے اور اس کیس میں خالد مجاہد کو ملزم پولیس ملازمین کے خلاف اہم گواہ تھے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں