الیکٹرانک میڈیا کا زہر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-21

الیکٹرانک میڈیا کا زہر

ابھی چند دنوں پہلےاخبار کی شہ سُرخیوں میں شامل ایک خبر نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ مفہوم یہ تھا کہ ایک ساتھی لڑکے (طالب علم) نے اپنے ساتھ پڑھنے والی دوسری ساتھی لڑکی کی کچھ قابلِ اعتراض تصویریں اپنے جدید ترین سہولیات سے مزیّن موبائل سے کھینچ کر من مانی اور بلیک میلنگ کرنے کی کوشش کی اور بعد میں موافق جواب نہ ملنے کی صورت میں اسے ایم ایم ایس (MMS) اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عام کر دیا۔
آج ہمارا ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں سرِ فہرست ہے۔دنیا بھر میں ہونے والی نئی ایجادات اور دریافتوں کی ترسیل یہاں گھنٹوں اور منٹوں میں ہو جاتی ہے۔ مگر دوسرے مغربی ممالک کی تہذیب اور کلچر، لائف اسٹائل سے قطعی الگ ہے ہمارے جینے کا انداز۔آج بھی ہم بزرگوں کا اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح کل کرتے تھے۔ اخلاقی قدریں آج بھی قائم ہیں اور بلا تفریقِ مذہب و ملّت ہماری خواتین کسی حد تک زیورِ شرم و حیا سے آج بھی آراستہ ہیں۔
مشرقی حسن شرم و حیا کی چادر کی مرہونِ منّت ہے۔ ہماری خواتین بہ حیثیت چراغِ خانہ زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ اُن کا شمعِ محفل ہونا ہمیں نہیں بھاتا۔ ہم باپ بھائیوں کی رگوں میں آج بھی غیرت و حمیت لہو بن کر دوڑتی ہیں۔
ترقی یافتہ ہونے اور نئی ایجادات سے استفادہ کرنے سے ہمیں اعتراض نہیں ہے مگر ہم حدِ اعتدال سے آگے بڑھنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔
آج ہندوستان میں انٹر نیٹ سے مزیّن موبائل فون جس میں ڈیجیٹل اور ویڈیو کیمرے بھی موجود ہیں بہت عام ہو چکے ہیں۔ یہ موبائل فون کیا ہیں بلکہ انہیں ایک منی کمپیوٹر (Mini computer) سمجھ لیا جائے۔ان موبائل کیمروں کی وجہ سے اس وقت دنیا کی تمام فحش ویب سائٹس پر تیسری (مغربی ) دنیا کے لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی حرکات کی فلمیں موبائل کلپس (Mobile Clips) کے نام سے دستیاب ہیں۔ یہ اور ایسی دوسری فحش فلمیں سی ڈیز (CDs) کی صورت میں گلی گلی میں فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ موبائل کلپس ایم ایم ایس کے ذریعہ ایک موبائل فون سے دوسرے موبائل فون پر ، اور پھر کم و بیش ہر اُس موبائل فون پر جس میں بلو ٹوتھ (Blue Tooth) کی سہولت ہو بھیجے جا سکتے ہیں۔
آج موبائل فون وقت کی ضرورت ہے۔ ہندوستان بھر میں ہرگاؤں ، شہر اور قصبے میں موبائل فون کی سہولت موجود ہے۔ اور جب سے یہ سہولت عام اور سستی ہوئی ہے، خط و کتابت تو دور لینڈ فون کا رواج بھی اُٹھتا جا رہا ہے۔اب خطوط صرف آفیشیل (Official) ہی لکھے جاتے ہیں ۔ اور اگر ان کی ہارڈ کاپی (Hard copy) کی بہت سخت ضرورت نہ رہی تو وہ ای میل میں بھیج دئیے جاتے ہیں۔
ہم نے مانا کہ زمانہ تیزرفتار ہوگیا ہے، قیامت کی چال چل رہا ہے اور اگر ہم نے اپنی رفتار نہ بڑھائی تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔موبائل اور کمپیوٹر اس عہد کی دو جدید ترین اور روزمرّہ میں استعمال ہونے والی ایجادات ہیں اور ٹی وی تو تقریباً ہر گھر میں موجود ہے جس پر چوبیس گھنٹے سینکڑوں چینلس (Channels) آتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں فلمیں، خبریں اور سیریلوں کے چینلس موجود ہیں۔ لوگ باگ اپنی اپنی پسند کے مطابق ان چینلوں کا انتخاب کرکے دیکھتے اور الگ الگ انداز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مگر یہ کیا کہ خبریں جو ڈرائنگ روم میں رکھے ٹیلی ویژن پر تمام اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر سُنتے اور دیکھتے ہیں، ان میں بھی اشتہار کے نام پر ننگی تصویریں اور حدِ ابتزال سے آگے کی چیزیں بھی ہمیں اپنےبچے بچیوں ، بھائی بہنوں اور والدین کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔ ہم چاہ کر بھی بوس و کنار، ...بالجبر اور جنسی اختلاط کی ترغیب دلانے والی ان خبروں سے دامن نہیں بچا پاتے جو ٹی وی رپوٹر چٹخارے لے لے کر، مرچ مسالہ لگا کر گھنٹوں بیان کرتے ہیں۔
پہلے توکچھ صاف ستھرے سیریلس آتے تھے اور لوگ باگ انہیں بڑے اہتمام سے اپنے بچوں یا فیملی ممبرس کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ مگر اب تو ہر دم یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب ہیرو ہیروئن شرمناک حرکتیں کرنے لگیں یا کب ویلن ہیروئن کے ساتھ زیادتی پر آمادہ ہو جائے گا۔یہ تو ڈائرکٹر کے موڈ پر منحصر ہے کہ کب اس کا جی کیا چاہ جائے اور ناظرین کو وہی مناظر دیکھنے پر مجبور رہنا ہے جو وہ دکھانا چاہے گا۔ایسا کیوں ہے؟
کسی کا بڑا پیارا شعر ہے کہ ؂
لوگ ہمیں کو کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
اُنہیں کوئی نہیں کہتا، نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
مغربی بنگال کے مشہور شاعر اور ادیب منور رانا جن کی شہرت ملک اور بیرون ملک تک جا پہنچی ہے، کے کسی کتاب میں پڑھا ہوا ایک واقعہ اس وقت آپ کو سُناتا ہوں، مزہ دے جائے گا۔جملے من و عن نہیں ہیں مگر ان کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنے والد محترم سے ایک فلم "مغلِ اعظم" دیکھنے جانے کی اجازت چاہی تھی اور تب سے اب تک جب جب پُروائی ہوائیں چلتی ہیں انہیں مغلِ اعظم یاد آجاتا ہے (یعنی اس وقت ابّا حضور کی پٹائی سے ہونے والا درد اب بھی اُبھر آتا ہے۔)
ایک وہ زمانہ تھا کہ مغل اعظم جیسی فلموں کے لئے بھی بزرگو کی پھٹکار سننی پڑتی تھی، ایک یہ زمانہ ہے کہ جب نہ بھی چاہو تو "منی بدنام ہوئی، ڈارلنگ تیرے لئے" جھنڈو بام (Zandu Balm) کے پرچار میں سننی پڑے گی، وہ بھی نیوز چینلس (News Channels) پر!
مغرب کی طرح ہمارا میڈیا جیسا چاہتا ہے فحش اشتہارات دکھاتا اور چھاپتا ہے۔ نیشنل چینل دوردرشن پر مانع حمل اشیاء اور دواؤں کے اشتہارات بڑے اہتمام سے دکھائے جاتے ہیں۔
ہندوستانی فلمیں کسی زمانے میں بیرونِ ملک بھی مشرقی اقدار کی سربلندی اور سرفرازی کے لئے مشہور ہوا کرتی تھیں۔ مجھے یا دہے کہ ایک بار کسی فلم میں دلیپ کمار (یوسف خان) نے کمر ہلا کر ٹھمکا لگایا تھا اور مرد ایکٹر کے اس ایک ٹھمکے نے ہندوستان بھر کو ہلا دیا تھا۔
اب تو ہماری ترقی کا یہ عالم ہے کہ سلمان خان "بگ باس" (Big Boss) کی میزبانی کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ناظرین ابھی "بگ باس" کی بےہودگیاں بھولے نہیں ہو ں گے۔ انہیں کئی بار چینل بدلتے ہوئے اپنے گھر والوں سے نظریں چرانی پڑی ہوں گی۔
پولیس ریکارڈ میں اور آف دی ریکارڈ (Off the Records) میں جرائم کی شرح میں جس قدر اضافہ ہوا ہے ان میں سب سے زیادہ ہونے والے جرم کے تار کہیں نہ کہیں جا کر جنسیات سے ضرور جڑ جاتی ہیں۔
مجھے فخر ہے اپنے ہندوستانی ہونے پر، مشرقی ہونے پر اور پسماندہ ہونے پر بھی کہ ہم آج بھی اخلاقی قدروں کی پامالی سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں۔محترم مولانا محمد قاسم علوی صاحب نے ابھی پچھلے دنوں کسی کا ایک شعر سُنایا تھا کہ ؂
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا جب قدم راہ پر تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
آف دی ریکارڈس (Off the records) جیسے الفاظ کیوں استعمال کرنے پڑے؟ مشرق میں شاید سو میں سے ایک عورت بلکہ ہزار میں سے ایک عورت ہی اپنے اوپر ہونے والے جنسی ظلم کو باہر جا کر بتاتی ہے، جس کی زندہ مثال میراتھن فاتح سنیتا گودارا ہیں۔
جنسی تشدّد کرنے والےکہتے ہیں کہ ہمیں اُکسایا گیا ہے۔کس نے اُکسایا ہے انہیں؟ فحش موبائل کلپس؟ انٹر نیٹ پر فحاشی بھرے سائٹس (Porn Sites) اور جنسی جرائم کے طرف راغب کرنے والی X-ratedفلموں نے یا پرنٹ میڈیا کے ان اشتہارات نے جو جنسی اختلاط کا وقفہ بڑھانے کی دعوت دیتی ہیں؟کون ذمّہ دار ہے اس جنسی کجروی اور سیلاب کا؟
ان سب کے ذریعہ جو اخلاقی انارکی (Anarchy) کاآتش فشاں اُبل رہا ہے، اس پر روک کس طرح لگایا جائے؟
ہمارے یہاں انٹر نیٹ نظام پر کسی قسم کا کوئی فلٹر (Filter) کیوں نہیں ہے؟ فحش سائٹس کو ناقابلِ رسائی بنانے کا یا Block کرنے کا کوئی معقول نظام کیوں نہیں ہے؟
جنسی اختلاط سے بھری x-rated فلموں اور بچوں کو جنسی فلموں (Paedo-philian)پر سنسر (Censor) کی قینچی کیوں نہیں چلتی؟یہ سارے مناظر ذہن و دل کو پراگندہ کرتے ہیں اور جنسی نا آسودگی اور کج روی جب راہ نہیں پاتیں تو رستہ بدل لیتی ہیں اور یہ نوجوان نسل ، آسودگی کے متلاشی کچے اذہان غیر فطری عمل کے شکار ہوتے ہیں یا پھر سماج میں ایسے جرائم سامنے آتے ہیں کہ جن کو سُن کر اور دیکھ کر کلیجہ دہل جاتا ہے۔ کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کا قتل یہ سب میڈیا کے ذریعہ پھیلائی ہوئی ذہنی نا آسودگی کا شاخسانہ ہیں۔
ضرورت ہے ہمیں وقت رہتے قدغن لگانے کی اور حکومت ، اہلِ خرد اور اربابِ حل و عقد کی توجہ اس جانب کرانے کی کہ وہ ان کے لئے پارلیمنٹ میں کوئی بل پاس کریں، کوئی قانون بنائیں اور پہلے سے بنے ہوئے قانون کی سختی سے نافذ کریں۔
ہماری صحافت اور ہمارا میڈیا صحت مند معاشرے کی تشکیل کرے جیسا کہ وہ پہلے سے کرتا رہا ہے اور اس فحاشی کےاُمنڈتے سیلاب پر روک لگائےکیوں کہ یہ اس کا اوّلین فریضہ بھی ہے اور انسانیت کا تقاضہ بھی۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم اخلاقی زوال کی کھائی میں گر جائیں گے۔

***
موبائل : 9331854233
Q553/C , PakarhyaTalab, P.O.Garden Reach, Kolkata-24
محمد صابر رضا شمسی

The poison of electronic media

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں