تھانے اور جیلیں یا مقتل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-26

تھانے اور جیلیں یا مقتل

آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ مستقلاً ظلم ڈھانے والی مختلف قوتوں کا تختہ مشق بنے رہے ہیں۔ ہندوتوا کے علمبردار فرقہ پرستوں اور مسلم دشمن عناصر میں پولیس اور دیگر ایجنیساں سب سے آگے نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد برسراقتدار حکومتوں (کانگریسی سب سے زیادہ) کانمبر ہے۔ جنہوں نے صرف مسلمانوں کے ووٹس کی خاطر جھوٹے وعدوں سے بہلایا ہے اس کے بعد آزادی کے بعد مسلم قائدین ہیں(زیادہ کانگریسی) جنہوں نے مسلمانوں کی قیادت کی بیساکھیوں کے سہارے عہدے تو حاصل کئے لیکن مسلمانوں کے لئے قربانی دینے، مسلمانوں سے خلوص اور احساس ذمہ داری کے جذبے ان کے لئے اجنبی رہے ہیں۔ مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی اور آصف علی سے لے کر غلام نبی آزاد، سلمان خورشید اور ای احمد تک سب کا طریقہ کارایک جیسا رہا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کہاں جائے آج ہندوستانی مسلمان؟
یوپی میں خالد مجاہد کی المناک موت نے صاحب دل مسلمان کے قلب و دماغ پر یہ سوال ہتھوڑے برسارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے ہم ہماری مرکزی و ریاستی حکومتیں اور مسلم قیادت کیا کررہی ہے؟ آج خالد مجاہد کا واقعہ ہوا کچھ شورماتم ہوگا، احتجاج ہوگا زبردست بیان بازی ہوگی اور "ٹائیں ٹائیں فش" مسلمانان ہند کی آزادی کے بعد داستان یہ رہی ہے کہ ظلم سہے، نقصان اٹھائے، رویا، ماتم کیا احتجاج کیا بیان بازی کی اور کہانی ختم۔

ہندوستان میں مسلمان پہلے فسادات میں مارے جاتے تھے 9/11کے بعد جعلی پولیس مقابلوں تھانوں اور جیلوں میں اموات ہورہی ہیں پہلے عام خاص مارے جاتے تھے اب پڑھے لکھے با صلاحیت مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تھانے اور جیلیں مقتل (مسلمانوں کے لئے ) بن گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ یو پی اکھلیش کہتے ہیں خالد مجاہد کی موت فطری ہے جبکہ اخباری رپورٹس اور مستند ذرائع کچھ اور کہتے ہیں۔ یو پی کے مسلمان وزرأ خاموش ہیں۔ وہ بھی تو اکھلیش کی حکومت کا ہی حصہ ہیں۔ مسلمان، مسلم قائدین اور مسلم میڈیا ان سے کیوں نہیں بات کرتا ہے؟ مایاوتی، کانگریس اور بی جے پی والے مسلمانوں کو سماج وادی پارٹی سے برگشتہ کرنے کے لئے جھوٹے بیانات اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت سماج وادی پارٹی کی مسلم قیادت کو سامنے آنا چاہئے۔ اس لئے مسلم نوجوان پولیس مقابلوں ، محابس (جیل خانوں) پولیس تحویل میں بے دردی سے مارے جائیں۔ قتیل صدیقی اس سے قبل جاوید عالم، محمد یونس انجینئر اور اب خالد مجاہد پولیس کے ہاتھوں قتل کئے جائیں توحیرت و تعجب کی کیا بات ہے؟ 9/11کے بعد پولیس کا کسی نے کیابگاڑلیا؟ حیدرآباد کی شارع عام پر پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے گجرات پولیس کے بدنام زمانہ افسر (سہراب الدین کے قتل کا ایک ملزم) نریندر امین نے برسرعام گولی ماردی تھی لیکن اس کیس میں حیدرآباد کی پولیس کا رویہ ایسا تھا جیسا کہ نریندر امین نے کسی نوجوان کو نہیں مارا ہے بلکہ چڑیا کو ماردیا ہے ۔ وزرائے اعلیٰ آئے اور گئے لیکن نوجوان شہید کے قاتل کو سزا دینے کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا کیوں؟ آخر کیوں؟ پولیس کو حکومت کی تائید حاصل ہے۔

کسی نوجوان کی ہلاکت خواہ وہ جیل میں ہو پولیس کی تحویل میں اس کی موت پر وقتی طور پر بڑا ہنگامہ ہوتا ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ سب کچھ بھلادیا جاتا ہے۔ خاطیوں کے خلاف مقدمہ اول تو دائر نہیں کیا جاتا ہے اگر دباؤ، اصرار اور ہنگامے پر ایف آئی کا ٹی بھی جاتی ہوتو اس میں ایسے سقم رکھے جاتے ہیں کہ بات نکل کر بھی دور تک نہ جاسکے اور مقدمہ ایک دو پیشیوں میں ختم ہوجائے اور اگر مقدمہ مضبوط ہوتو تاخیری حربے اختیار کرکے "انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی ہے" کو عملاً حقیقت بنادیا جاتا ہے مثلاً ہاشم پورہ قتل عام، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا قتل عام، بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہوئے 1992ء کے خونین فسادات کے ملزموں کو قرار واقعی سزا نہ مل سکی۔ 2002ء میں گجرات کے قتل عام کے چند مجرموں کو ہلکی پھلکی سزا ملی ہے جبکہ اس سے کئی گنا زیادہ اور انتہائی خطرناک مجرم آج بھی آزاد ہیں۔ جن کو سزا ملی ہے وہ چند فلاحی اداروں اور مہیش بھٹ، تبستا ستیلواء اور ہرش مندر وغیرہ جیسی سماجی شخصیات اور سپریم کورٹ کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ کانگریس کی مسلمانوں سے بے اعتنائی کی انتہائی بدترین مثال یہ ہے کہ کانگریس کے سابق رکن پارلیمان شہید احسان جعفری کی بیوہ جو مقدمہ سماجی تنظیموں کی مدد سے لڑرہی ہے یہ تو کانگریس کو لڑنا چاہئے تھا یا کم از کم ان کی بھر پور مدد کرنی چاہئے تھی لیکن مقدمہ لڑنا تو دور کی بات ہے مسلم کش فسادات 2002ء کے بعد گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں صدر کانگریس سونیا گاندھی نے ذکیہ احسان جعفری کو ان کے شوہر کا پرستہ تک دینے نہیں گئے تھیں جب حکمراں جماعت کانگریس کے اعلیٰ قائدین کا یہ حال ہوتو پولیس مسلمانوں کی کیا پرواہ کرے گی؟

ملک بھر میں آزادی کے بعد سے ہی نا انصافی، جانبداری بلکہ مسلم دشمنی ہی پولیس کی حکمت عملی رہی ہے بلکہ 1936-37 ء میں کئی صوبوں میں قائم شدہ کانگریس کی حکومتوں کی حکمت عملی آج کی بی جے پی یا آسام کی گوگوئی وزارت سے مختلف نہ تھی۔ پولیس کے بگاڑ کا سلسلہ شروع ہوا پولیس کو کنٹرول کرنے والے محکمہ داخلہ کے حصول سے کانگریس کو ہمیشہ ہی بڑی دلچسپی رہی ہے اگر سارے کانگریسی سچے سیکولر ہوتے تو کانگریس اتنی بدنام نہ ہوتی۔ گاندھی جی کی زندگی میں ہی کانگریس میں شیاما پرشاد مکھرجی (بانی جن سنگھ آج کی بی جے پی) راجندر پرساد، ڈاکٹر شریمالی ، کے ایم منشی، پرشوتم داس ٹنڈن جیسے مائل بہ فرقہ پرستی لوگ موجود تھے۔ سردار پٹیل مسلم دشمن نہ سہی لیکن مسلمانوں کو زیادہ مراعات دینے کے قائل نہ تھے۔ آج آپ پنڈت نہرو اور آزاد کو ہم جو چاہیں سمجھ لیں لیکن یہ بھی سردار سے خائف رہے تھے۔ سردار کے بعد نہرو تو بے خوف ہوگئے لیکن مولانا آزاداور دیگر مسلم قائدین مسلمانوں سے دور رہے۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی حکمت عملی بھی پنڈت نہرو کی حکمت عملی سے مختلف تھی۔ اندرا جی نے آر ایس ایس کو اہمیت دی اس کے فروغ کو برداشت کیا۔ راجیو نے بابری مسجد کو مندر بنادیا۔

بڑے لوگوں کی مسلمانوں سے بے اعتنائی نے پولیس کو ہی نہیں انتظامیہ نے بھی مسلمانوں کو بے آسرا سمجھ لیا جس کا جو دل میں آیا کرگزرا آج بھی یہی حال ہے دہلی کے بٹلہ ہاؤس واقعہ میں چدمبرم نے بہ حیثیت وزیر داخلہ انکوائری سے انکار اس واسطے کیا کہ انکوائری سے پولیس کا حوصلہ پست ہوجائیگا۔

سوال یہ ہے کہ اس کا کیا علاج ہے اس کا واحد علاج یہ ہے کہ پولیس ہو یا تحقیقاتی ادارہ ہو یا انتظامیہ ہو یا عدلیہ اگر ان کی غلطی ثابت ہوجائے تو ان کو سخت سے سخت سزاد دی جائے تو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے مرتکب ہونے والے ہی نہیں بلکہ سازش کے سرغنہ کیلئے واحد سزا موت مقرر کی جائے ناجائز بے جواز جیل بجھوانے یا گرفتار کرنے والے پولیس آفیسر کو ان کے گرفتار شدہ بندے کو بے قصور اور مظلوم ثابت ہونے پر مظلوم کو زیادہ سے زیادہ معاوضہ ادا کیا جائے اور ساری رقم ذمہ دار پولیس آفیسر سے بہ طور جرمانہ وصول کی جائے تاکہ پولیس آفیسر وک بھاری مالی نقصان ہونے کا خوب مظلوموں کو ناحق گرفتار کرنے سے باز رکھے۔ فسادات پر قابو نہ پانے والے تمام افسران مثلاً کلکٹر، تحصیلدار، مجسٹریٹ اور پولیس افسران پر مقدمہ چلائے جائیں اور سخت سزا دینے کا قانون بنایا جائے۔ جیل میں ہلاکت کی صورت میں جیل کے اعلیٰ عہدیدار کو فوری معطلی اور مقدمہ چلاکر سخت سزا دینا لازم ہے۔ کسی وزیر کے تحت محکمہ میں متواتر اس قسم کے واقعات ہوں تو اس وزیر کو برطرف کردیا جائے۔ بدنام زمانہ مسلم دشمن وزراؤں کو اگلے انتخابات میں پارلیمان یا اسمبلی کا ٹکٹ ہر گز نہ دیا جائے۔ ہم کو مفاد عامہ کے تحت مقدمات دائر کرکے مظلوموں کو بچانا چاہئے۔ حکومت اور انتظامیہ کا رونہ بدلے تو مسلمان وزرأ ارکان پارلیمان ؍اسمبلی کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہئے ۔ یو پی میں اکھلیش کو راہِ راست پر لانے کے لئے یو پی کابینہ سے چند مسلم وزرأ خاص طور پر اعظم خان کا فوری مستعفی ہونا ضروری ہے۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 9949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

Murders in the prisons. Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں