‫خواجۂ ہند کی دینی و دعوتی فتوحات اور ان کے اسباب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-22

‫خواجۂ ہند کی دینی و دعوتی فتوحات اور ان کے اسباب

خواجہ بزرگ کی جمالیاتی دعوتی وتبلیغی تحریک پورے بر صغیر ایشیا پر سحاب رحمت و رافت بن کر چھاگئی ۔ اس سے بلا فرق مراتب سب کو اکتساب فیض کا موقع میسر ہوا ۔ زمانہ جانتا ہے کہ تب سے اب تک خواجہ بزرگ کے علاوہ بر صغیر ایشیا میں کوئی ایسی دوسری شخصیت نہ ابھر سکی، جس کی مقبولیت پر غیر منقسم ہندوستان کے عوام و خواص کا اجماع ہو۔

"میں نے اپنی زندگی میں دو ایسے بزرگ دیکھے ہیں، جو اپنی وفات کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر اس طرح حکمرانی کر رہے ہیں، جیسے بہ نفس نفیس ان کے درمیان مو جود ہوں -ان میں سے ایک تو مغلیہ حکمران اورنگ زیب عالم گیر ہے اور دوسرےحضرت خواجہ معین الدین چشتی"
ہندوستان کے عہد غلامی کے برطانوی وائسرا ئے لارڈ کرزن کے قول کا ایک حصہ زمینی حقائق سے متاثر ہو کر اور دوسرا "لڑاؤ اور حکومت کرو"کی پالیسی کے زیر اثر ادا کیا جانے والا محسوس ہوتا ہے -

حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی رحمتہ اللہ علیہ(وفات :627ھ)کے متعلق برطانوی واے سرائے کا یہ قول آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور توانا ہے ،قول کی معنویت و اہمیت واے سرائے کے الفاظ کے زیر و بم کی وجہ سے نہیں ،خواجہ بزرگ کی عملی زندگی ،جہد مسلسل ،عمل پیہم،دعاے نیم شبی،آہ سحر گاہی اور اسلام کے مقنا طیسی احکامات اور اس کی انسانیت نوازی کی مرہون منت ہے ،جنہیں خواجہ بزرگ نے اپنے اعمال و افعال اور اقوال و کردار کے ہر بن مو میں رچا اور بسا لیا تھا -
بعد کے ادوار میں یہاں مسلمانوںکی حکومتیںمستحکم ہوتی چلی گئیں ، تحریکات اٹھیں، پر شکوہ عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں ،دین و سیاست کا علم لے کر اپنے زمانے کے ماہرین علوم و سیاست تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے رہے -کتب خانوں میں کتب و تراجم کا انبار لگ گیا -علماے ظواہر کے قیل و قال ،سلاطین وقت کی جاہ و حشمت اور ان سے متأثر ہو کر ہندوانہ رنگ میں شرا بورہونے کی داستان درد انگیز دراز ہوتی چلی گئی ،شاہی خزانے راگ و رنگ پر خرچ ہوئے ،اس کے باوجود ان ادوار میں اسلام کی خاطر خواہ تبلیغ و اشاعت کا نہ اس اسپرٹ (spirit)سے کام ہوا اور نہ ہی منظر نامہ پر اپنی تمام تر دولت اور خزانے کے باوجود وہ سلاطین اور علماے ظواہر باقی رہے -وہ ریت پر گھروندا ثابت ہوئے، جسے بارش کے پانی کا ایک ریلہ بہا لے جاتا ہے -

ہندوستانی عہد غلامی سے انفرادیت کا رجحان بڑھا تو اسلام کی تقسیم در تقسیم کر دی گئی -جہاد کے نام پرفساد کیا گیا ،مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں ،اقامت دین ایجنڈا بنا، مختلف اسلامی نام کی تحریکات کے تحت اسلامی لٹریچر کی اشاعت ہوئی- مختصر یہ کہ اسلام کے نام پر جتنے بلند بانگ نعرے لگائے گئے برادران وطن کے دلوں میں اسی تیزی سے نفرت و عداوت پھیلتی گئی ،یہ تو تحریکوں کا خارجی اثر ہوا اور داخلی طور پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی گئیں ،ایک طبقہ نے کسی خاص شخصیت کی انگریزوں کے ساتھ چند ایک چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کو جہاد کا نام دے کر اس کے اور اس کی تحریک کے حسنات و اوصاف میں اپنی توانائیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں کاغذ سیاہ کیے تو دوسرے گروہ کے کسی فرد نے ان کے غبارے سے چند جملے کے ذریعہ ہوا نکال دی - مقتدی نے مقتدا کے افکار و نظریات کی دھجیاں اڑادیں اور خودی کے زعم میں مسیحیت و مہدیت کا دعویٰ کر دیا - یہ تمام کھیل اس دور میں ہوتے رہے، جو میڈیا اور گلو بلائز یشن کا دور ہے، جس میں پچھلی صدیوں کی بہ نسبت اسلام کی تشہیر کے زیادہ امکانات ہیں -نتیجہ یہ ہوا کہ نہ خودی ملی نہ خدا ملااور انفرادی و اجتماعی قوتوں کے باوجود خود سے اپنا شیرازہ منتشر ہوتے دیکھتے ہوئے دنیا سے چلے گئے اور کچھ مزید دیکھنے کے لیے اب تک باقی ہیں -
اس کے بر عکس حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خلفا و رفقا ے کار کے زمانے میں دنیا اتنی تیز رفتار نہیں تھی ،اس دور میں سائبر ،انٹر نیٹ ،شعبہ نشر و اشاعت اور ابلاغ و ترسیل بھی نہیں تھا -ان کی عدم موجودگی میں اسلام کی نشر و اشاعت کا اس قدر کام انجام پایا کہ بعد کے ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی -خواجہ بزرگ کی جمالیاتی پہلوؤں سے مملو تحریک پورے بر صغیر ایشیا پر سحاب رحمت و رافت بن کر چھاگئی اور اس سے بلا فرق مراتب سب کو اکتساب فیض کا موقع میسر ہوا اور زمانہ جانتا ہے کہ تب سے اب تک خواجہ بزرگ کے علاوہ بر صغیر ایشیا میں کوئی ایسی دوسری شخصیت نہ ابھر سکی، جس کی مقبولیت پر غیر منقسم ہندوستان کے عوام و خواص کا اجماع ہواہو - ہندو ،مسلمان، سکھ ، عیسائی، سلاطین و عوام، عصری ومذہبی طبقات سب کے سب انہیں خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں ،کسی نے شاداں و فرحاں اعتراف کیا تو کسی نے نہ چاہتے ہوئے بھی زمانے کی سر میں سر ملایا کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چارہ کار بھی نہیں تھا -خواجہ بزرگ کے علاوہ لارڈ کرزن کے دوسر ے ممدوح بھی خواجہ کے مداحوں میں تھے-

کہا جاتا ہے کہ بزرگان چشتیہ مریض دیکھ کر نسخے کی تشخیص کیا کرتے ہیں -غالباً یہ جملہ حضرت خواجہ اور ان کے رفقاے کار حضر ت خو اجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت با با فرید الدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے طریق دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر وجود میں آیا ہے اور اس کی حقانیت سے انکار نہیںکیاجاسکتا -561ھ میں ہندوستان تشریف آوری کے بعد آپ ہندوستانیوں کی اصلاح اور ان میں روح انسانیت و وحدانیت پھونکنے میں اس قدر مصروف ہوئے اور اسی کو اپنی زندگی کا سرمایہ، آخرت کی فلاح و بہبود تصور کیا اور اپنے خلفا و رفقاے کار کو بھی اس کام میں ایسا لگادیا کہ آج ہمیں حضرت خواجہ کی مکمل سوانح حیات تک نہیں ملتی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خواجہ ہندوستانیوں کے دلوں میں اپنا قیا م نہیں اسلام کا قیام چاہتے تھے ،جس کے نتیجہ میں بعد کے بزرگان چشتیہ بھی سوانح نگاری اور آپ بیتی نویسی کی طرف مائل نہیں ہوئے -یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت با اثر تھی ،جس نے ان کے رگ و ریشے میں اس فکر کو راسخ کر دیا تھا کہ اپنی زندگئ مستعار کا نصب العین خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے اسلام کی تبلیغ میں خود کو مٹا دینا ہے - جہاں کہیں تکالیف و مصائب اور آلام سے گزرنا پڑا انہوں نے اپنے آبا کی طرح اپنے پاے استقامت میںلرزش نہیں آنے دی -پانی بند کیا گیا، اوباشوں اور لفنگوں کو استہزا کے لیے پیچھے لگایا گیا ، سحر و جادو کے ہتھیار بھی آز ماے گئے ،الزام تراشیاں کی گئیں ،جادو گر کہا گیا ، اجمیر چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کیا گیا ،زیر دامن کوہ دھکا مکی بھی کی گئی -یہ واقعات خواجہ صاحب کے ساتھ پہلی مرتبہ رونما نہیں ہورہے تھے پہلے بھی ان کے آبا کے ساتھ ہوچکے تھے ،جس کے شاہد طائف کے میدان ،کوہ صفا کے سنگ ،کعبۃ المکر مہ کا ا حا طہ اورفرات کا ساحل ہے -میں اپنی ان باتوں سے خواجہ صاحبؒ کو پیغمبر انہ فریم میں فٹ نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہحضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے جاں گسل حالات میں اپنی دینی بصیرت و حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زندگی کے لیے رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی سے روشنی اور توانائی حاصل کی -صبر و ثبات کی ریتیلی اور تپتی ہوئی زمین پر کھڑے ہو کر اپنی مکی زندگی کو مدنی زندگی میں تبدیل کرنے کے لیے ہر آن کوشاں رہے -انہوں نے ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والمو عظۃ الحسنۃکو اپنا راہ نما تصور کیا -انہیں اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ وہ موسی وقت ہیں اور فرعون وقت کے پاس دین کی دعوت لے کر جانا ہے اور یہ اصول ہے من کان للّہ کان اللہ لہ تو خدا کی نصرت و مدد بھی ان کے ساتھ رہی اور وہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃحسنۃکو پتوار بنا کر اپنی کشتی کو منزل مقصود کی طرف بڑھاتے رہے -خلوت و جلوت ہر جگہ ان کے اعمال یکساں تھے، ان کی بار گاہ میں کسی کو نہ خصوصیت اور نہ عمومیت حاصل تھی، سب کے ساتھ مساویانہ بر تاؤ کرتے تھے ،چھوٹوں پر پیار ،غربا پر انس و محبت نچھاور کیا کرتے تھے -theory پر نہیں عملی زندگی (practical life) پر زور دیا کرتے تھے -مخلوق خدا کو اس کے با طن میں پوشیدہ اور ظاہر سے نما یاں ہونے والے عقائد کی بنیاد پر وہ نہیں پہچانتے تھے ،ان کا نظریہ تھا کہ قوت گویائی رکھنے والی خدا ئی مخلوق خواہ وہ کتنی ہی گندگیوں میں ملوث ہو ان کی توجہ کی طالب ہے- وہ اپنے اس نظریہ کے اظہار کے لیے الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا کا سہارا نہیں لیتے تھے بلکہ وہ خود اذہان و قلوب کی صفائی اور اس کے تزکیہ کا ذریعہ بنتے تھے -انہیں کبھی بھی حکومت کو اپنے قبضہ اختیار میں کرنے کی فکر دامن گیر نہیں ہوئی -اقامت دین کے لیے قوت کا استعمال نہیں کیا - ان کا نظریہ تھا کہ کسی سے تخت و تاج نہ چھینا جائے اسے دین کا گروید ہ بنا دیا جایے تاکہ اس کے دل میں حکومت کے چھننے کا قلق بھی نہ رہے اور اسلامی امور بھی انجام دیے جا سکیں ،جس کی مثال یہ ہے کہ راجہ پتھورا کی شکست و ریخت کے بعد وہ حکومت پر قابض نہیں ہوئے انہوں نے شہا ب الدین غوری سے راجہ پتھور ا کے بیٹے کے لیے سفارش کی اور اسے اجمیر کی حکومت دے دی گئی -

یہی وہ اسباب ہیں کہ صدیاں گزر جانے کے با وجود آج بھی خواجہ بزرگ ہندوستانیوں کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں -اور کتنے ہی مادی حکومتوں کے مالک ور اس کی خواہش میں مختلف مساعی کرنے والے ہندوستانیوں کے اذہان و قلوب سے محو ہوگئے بعض تو متشدد نظریات کی وجہ سے معتوب بھی ہو ئے-

نورین علی حق

Khaja-e-Hind Hazrat Moinuddin Chishti Rh.A -Article: Noorain Ali Haq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں