تبصرہ کتاب - عکس تحریر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-23

تبصرہ کتاب - عکس تحریر

نقش فریادی ہے کس کی شوُخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
(غالب، زمانۂ تحریر: 1816ء)

زیر تبصرہ کتاب"عکس تحریر، ، گلبرگہ کے ابھرتے ہوئے نوجوان قلم کار ڈاکٹرطیب خرادی کی تصنیف ہے۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ اردو سے فارغ التحصیل ڈاکٹر طیب خرادی اپنی تحریر اور سمیناروں میں پڑھے جانے والے مقالوں کے ذریعے اردو دنیا میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔خاص طور سے جنوبی ہنداورریاستِ کرناٹک کے ابھرتے ادیبوں اور قلمکاروں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔انکی یہ تصنیف علمی ، ادبی و تحقیقی اور تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔یہ انکا پہلا ادبی کارنامہ ہے جو کرناٹک اردو اکیڈمی ، بنگلورکے تعاون سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔
کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے جد امجد،والدین محترمین،اساتذہ اکرام ،رشتہ دار،دوستوں اور شاگردوں کے نام کیا ہے۔ اس کتاب کو جملہ چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔عکس عکس لفظ کے عنوان سے ڈاکٹرطیب خرادی نے پیش لفظ تحریر کیا ہے ا نہوں نے اس تصنیف کو رقم کرنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کیا خوب لکھا کہ:
"اردو ادب کا دائرہ وسیع تر ہے ادبیات، سماجیات ،مذہبیات،تاریخیات،جمالیات اور فلسفیات وغیرہ جیسے عناوین سے اردو ادب کا دامن بھرا ہوا ہے۔ لکھنے والوں نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے یہ سلسلہ جاری رہے گا "حرف آخر، ،کا دعویٰ کوئی بھی قلم کار پیش نہیں کرسکتا۔ میرا بھی کچھ یہی حال ہے۔ تحقیق و تنقید کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں ۔ ہر ایک نے اپنے زاویے سے لکھا ہے یہ مضامین میری طالبانہ کوشش ہے اپنی کم علمی کا احساس ہے۔ اساتذہ علم وادب کے سامنے اپنے سبق کا آموختہ پیش کرنے کی سعی ہے اصلاحِ قلم و زبان کا ہمیشہ طالب علم ہوں۔"ّ
(ڈاکٹرطیب خرادی ،عکس عکس لفظ،عکس تحریر،ص ۷،۸)
ڈاکٹرطیب خرادی کے یہ علمی و ادبی مضامین دراصل تحقیقی مقالے ہیں جو ملک بھر کے مختلف سمیناروں اور موخر اخبارات و رسائل میں وقفہ وقفہ سے شائع ہوتے رہے ہیں ۔ان میں بعض ان کے طالب علمی کے زمانہ کے مضامین بھی شامل ہیں۔پیش لفظ کے بعدعکس عکس شخص اور تاثر کے عنوان کے تحت مختلف پروفیسرس اصحاب کے تاثرات و آرا کی ترتیب و تزئین ا ور انتخاب محمد ہارون رشید خرادی نے انجام دیا ہے۔
پروفیسر محمد انور الدین شعبہ اردو یونیور سٹی آف حیدرآباد نے مقدمہ لکھاہے۔انہوں نے ڈاکٹرطیب خرادی کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ:
"ان کے مو ضوعات میں تازگی اور تنوع ہے شائستہ اچھی زبان لکھتے ہیں ۔تحریر میں عصری حسیت و جدید رحجانات کا عکس نمایاں طور پر جھلملاتاہے ساتھ ہی اس میں جامعیت و جاذبیت کا حسن بھی جلوہ افروز ہوتا ہے۔حوصلہ مندانہ اڑان اگر اسی طرح برقرار رہی تو کسی دن وہ بھی شہرت و مقبولیت کے ساتویںآسمان پر نظر آئیں گے۔ " ( پروفیسر محمد انور الدین ،عکس عکس شخص اور تاثر،عکس تحریر،ص ۹)
پروفیسر محمد انور الدین کے تاثرات کے بعد مشاہیر ادب کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے جن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمیؔ ،دردانہ قاسمیؔ ،ڈاکٹر ضیاء الرحمن صدیقی ،پروفیسر نسیم الدین فریس ، پروفیسر سید خلیل احمد ،روف خوشتر۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال شامل ہیں زیر تبصرہ تصنیف میں تاثرات کے بعد پروفیسر مجید بیدارؔ کے تہنیتی اشعار اور رحمن جامیؔ کی تہنیتی نظم شامل کی گئی ہے۔
زیر تبصرہ تصنیف کے پہلے حصہ میں شامل مضمون " میرے قلم کی حرکت تیرے حکم کی برکت(حمد و نعت کا فن) ، ، دراصل حمد کے فن کو بیان کرتا ہے فاضل مصنف نے خدائے برتر کی صفات اور خوبیوں کو بیان کیاہے ساتھ ہی حمد کی تعریف کو بیان کرتے ہوے انہوں نے سراج الحسن ادیبی ؔ کی حمد کو بطور مثال پیش کیا ہے جسکا پہلا شعر ملا حظہ ہو۔
تو رب العلمین ہے تجھ کو ہر تعریف ہے زیبا
تو ہی خالق ،توہی رازق،توہی قادر تو،ہی یکتا (سراج ادیبی) ؔ
اپنے پہلے مضمون میں ڈاکٹر طیب خرادی نے مضمون کا عنوان دیا حمد و نعت لیکن انہوں نے اس مضمون میں صرف حمد کی تعریف مثنوی ،قصیدہ، غزل، رباعی وغیرہ کے حوالے سے پیش کی ہے لیکن نہ ہی نعت کی تعریف بیان کی ہے اورنہ ہی کسی کی نعت کو یہاں پیش کیا ہے جبکہ نعت کے بارے میں واضح ہے کہ اس فن کے ذریعے حضور سرور کائنات ﷺ کی مدح سرائی کی جاتی ہے۔ اور آپ ﷺ کی ذات اقدس سے متعلق مضامین بیان کئے جاتے ہیں۔شاید مضمون کا دوسرا حصہ شائع ہونے سے رہ گیا ہو۔اس کتاب کا دوسرا مضمون" اردو کی روداد(اردوئے معریٰ کے حوالے سے) ، ،شامل تصنیف ہے جس میں انہوں نے اردو کے آغاز اور ارتقاء کی داستان کو سرسید احمد خاں سے لیکر ساحر لدھیانوی ؔ تک بیان کیا ہے اس مضمون کو پڑھنے سے نثر کے بجائے نظم کا مزا آتا ہے۔جو دراصل انہوں نے بغیر نکتوں (اردو ئے معریٰ ) کے ذریعہ اردو زبان وادب پر قلم اٹھایا ہے۔میری نظر میں یہ اردو زبان پر اس نو عیت کی پہلی تحریر ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب کا تیسرا مضمون "کلاسیکی ادب کے مطالعہ کی اہمیت (ملاوجہی کی سب رس کے حوالے سے )"شامل ہے ۔ انہوں لکھا ہے کہ ملاوجہی کی سب رس ایک نثری داستان ہے جو تمثیلی پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ا نہوں نے اس مضمون میں مختلف حوالوں کے ذریعے کلاسیکیت، رومانیت کی تعریف کو بیان کیا ہے ۔پہلے حصہ میں شامل ان تین مضامین کے علاوہ دیگر مضامین میں مختصرافسانے کا ارتقاء ، رپورتاژ نگاری کیا ہے،کتب بینی کی اہمیت وافادیت شامل ہیں ۔
زیر تبصرہ کتا ب کے دوسرے حصہ میں پہلا مضمون "نصائح حضرات خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ " کے عنوان پر ہے اس مضمون میں فاضل مصنف نے اللہ رب العزت کی اطاعت کرنے اسکی راہ میں جدوجہد کرنے اور پیارے نبی حضرت محمدؐکی سیرت کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گزارنے کا مشورہ دیا ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
ڈاکٹر طیب خرادی نے اپنے اس مضمون میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی نصیحتوں کو بیان کیا ہے انکی ایک نصیحت آموز بات کو یہاں نقل کیا جارہا ہے ۔ ملاحظہ ہو
"جان لو کہ سب سے اہم مطلب اور سب سے بڑامقصد محبت خدا عزوجل ہے۔عقلمند آدمی جس شئے میں قیام نہیں دیکھتا ا ور جس شئے میں عروج وزوال ہے یعنی بقا نہیں ہے اس پر کبھی نگاہ نہیں ڈالتا ۔مجھے نہیں معلوم میرے احباب کس کام میں لگے ہوئے اور کس فکر میں مبتلاء ہیں۔" (ڈاکٹر طیب خرادی،نصائح حضرات خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ ،ص ۵۱)

دوسرے حصہ میں شامل مضامین میں اہمیت کا حامل مضمون "اقبالؔ اور قرآن"شا مل ہیں ۔اس مضمون میں انہوں نے کلام اقبالؔ میں قرآن ،حدیث کے حوالوں کی نشاندہی کی ہے۔ اور لکھا ہے کہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قرآن کریم میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی ہے ۔ علامہ پیچیدہ مسائل کا حل بھی قرآن سے حل فرمالیتے تھے۔ ڈاکٹر طیب خرادی نے علامہ محمد اقبالؔ کے کلام میں اسلامیات کی جھلک کو منفرد انداز میں اشعار کو شامل کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔
قرآن میں ہو غو طہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

ڈاکٹر طیب خرادی نے مختلف قرآنی آیت کی تشریح کرتے اشعار کو شامل کرکے گویا ایک طرف تو انہوں نے مضمون کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کی ہے وہی دوسرع طرف اسلامیات اور علامہ اقبالؔ کے کلام پر اپنی دسترس کو ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔دوسرے حصہ میں شامل دیگر اہم مضامین میں" منٹو کی غیرافسانوی تحریروں میں بے باکی کے عناصر" ، "ڈاکٹر محی الدین قادری ؔ زورکی کتاب فن تقریر "شامل ہیں۔
زیر تبصرہ تصنیف حصہ سوم میں دوسرا مضمون عظیم مجاہد ٹیپو سلطان شہید ؒ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے ۔اس مضمون میں فاضل مصنف نے جشن آزادی کے موقع پر ہو رہے المیہ کو بیان کیا ہے کے اس موقع پر مخصوص مجاہدین کے نام لیے جاتے ہیں جبکے ٹیپو سلطان ہندوستان کی جنگ آزادی کے پہلے مجاہد اور شہید تھے وہ لکھتے ہیں
" عظیم مجاہد آزادی ٹیپو سلطان شہید ؒ ہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے انگریزاور انگریزی حکومت کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی اور کئی جنگیں لڑیں" (ڈاکٹر طیب خرادی،، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان شہیدؒ ،عکس تحریر،ص ۱ ۱۲)
زیر تبصرہ تصنیف حصہ سوم میں تیسرا مضمون " محسن قوم سرسید احمد خاں "کے عنوان سے شامل ہیں۔ انہوں نے سر سید احمد خا ں کے حالات زندگی کو بیان کیا ہے ساتھ ہی سر سید احمد خاں کے نظریات اور افکار کو کھول کھول کر پیش کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو جدید علوم کو حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور قوم کی اصلاح کیلئے تہذیب الاخلاق نامی رسالہ جاری کیا تھا۔ ڈاکٹر طیب خرادی نے" سرسیدکا سب سے بڑا کارنامہ علی گڑھ تحریک کو قرار دیا ہے۔"
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن جو کام انسان کا کردار کرے ہیں۔
تیسرے حصہ میں شامل دیگراہم مضامین میں "مولانا آزاد" ،"وہاب عندلیب" و دیگر شامل ہیں۔
زیر تبصرہ تصنیف حصہ چہارم میں تین مضامین شامل ہیں۔اس حصہ کا دوسرا مضمون"اردو ادب میں پہلی اچھوت آواز ا۔پریم چند" کے عنوان سے شامل ہے ، فاضل مصنف نے اس مضمون میں پریم چند کی اردو ادب میں پہلی اچھوت آواز کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور اچھوت ،ہریجن،دلت کی اصطلاح اور تاریخ کو بیان کیا ہے یہ مضمون کافی معلوماتی ہے اور اپنے اندر ایک کرب لیے ہوئے ہے کہ کس طرح اعلی ذات کے برہمنوں نے نچلی ذات والوں کا استحصال کیا ہے اور اپنے فائدے کیلے انہیں ابتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پریم چندنے اپنی تحریروں میں اچھوتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف آوازبلند کی اور انہیں جائز حق دلانے اور انکے مسائل کو حل کرنے کیلے شعور بیدار کیاتھا۔
بہر حال مجموعی اعتبار سے ڈاکٹر طیب خرادی، کی یہ کتا ب قابل مطالعہ ہے۔ساتھ ہی جدید مضامین کے مجموعوں میں ایک اہم اضافہ ہے مصنف نے ان مضامین کی تیاری میں بہت عرق ریزی کی ہے ، تحقیق کا حق ادا کیا اور معتبر حوالوں کے ذریعے اپنی تحریروں کو مستند بنایاہے۔ تنقیدی انداز ہے۔ اور مصنف نے اپنی رائے دینے میں کوتاہی نہیں کی۔ ان کا انداز بیان کافی سلیس اور شستہ ہے مضامین کافی معلوماتی اور جدید پہلووں کا احاطہ کرتے ہیں مضامین کا انتخاب بہت خوب ہے کتاب کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب کی خدادادصلاحیتوں کا علم ہوتا ہے ساتھ ہی اردو زبان و ادب کے فروغ کیلے ان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے بھی واقفیت ہوتی ہیں ۔بلکل سیدھا سادہ اسلوب اور منفرد انداز بیاں تحریروں میں نظرآتا ہے ۔
کتاب کی طبا عت عمدہ ہے سر ورق جاذب نظر ہے اور قیمت بھی واجبی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر طیب خرادی کی یہ تصنیف "عکس تحریر" اردو دنیا میں اپنی انفرادیت کے با عث شہرت حاصل کرے گی اور اس کتاب کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوگی۔

مرے اشعار میں جو درد کی تحریر ملتی ہے
اُسی میں زیست کے ہر پہلو کی تفسیر ملتی ہے

***
تبصرہ : عکسِ تحریر
مصنف : ڈاکٹر طیب خرادی۔ موبائل : 09141838485 اور 08088201090
صفحات: 196 ، قیمت: 200/-روپیئے
ملنے کا پتہ: کرناٹک اردو اکیڈمی ، کنڑابھون، جے سی روڈ، بنگلور ۔انڈیا560002
طیبہ بک ڈپو،جامع مسجد محبس کامپلکس،گلبرگہ ،کرناٹک ۔ 585104

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on "Aks-e-Tahreer" by Dr.Tayyib. Reviewer: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں