ماہنامہ -تحریر نو- ممبئی کاپانچ سالہ سفر - تہنیتی تقریب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-17

ماہنامہ -تحریر نو- ممبئی کاپانچ سالہ سفر - تہنیتی تقریب

ماہنامہ "تحریر نو" ممبئی کا پانچ سالہ سفر - رپورتاژ تہنیتی تقریب

اردو میں معیاری ادبی رسائل بہت کم ہیں۔ اور جو ہیں وہ مخصوص طبقہ قارئین تک محدود ہیں۔ اردو کے کئی رسائل مالیہ کی کمی کا شکار ہوکر بند ہوگئے۔ ایسے میں کسی ادبی رسالے کے پانچ سال کی تکمیل اس رسالے کی کامیابی اور مقبولیت کی سند قرار دی جاسکتی ہے۔ بمبئی سے ایسا ہی ایک اردو کا ادبی رسالہ " تحریر نو"ظہیر انصاری کی کامیاب ادارت میں اپنے اجرا کے پانچ سال تکمیل کرچکا ہے۔چنانچہ12/مئی بروزاتوار شام 6/ بجے محبوب حسین جگر ہال احاطہ روزنامہ سیاست حیدرآبادمیں "ماہنامہ تحریر نو ممبئی" کے پانچ سالہ اشاعتی سفر کے کامیاب تکمیل پر باغبان ایجوکیشنل ویلفیر اینڈ کلچرل سوسائٹی کے زیراہتمام" مدیر تحریر نو"ظہیر انصاری کی تہنیت و مشاعرہ کاکامیاب انعقاد عمل میں آیا۔اجلاس کی صدارت پروفیسر بیگ احساس نے کی۔ اور نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین مہمان خصوصی تھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ اس پروگرام کے پہلے مہمان مقرر ڈاکٹر خالد سعید سابق صدر شعبہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں "ماہنامہ تحریر نو ممبئی" کی پانچ سالہ کامیاب اشاعت پر مبارکباد پیش کی ساتھ ہی اس ر سالہ کے مدیر کی صلاحیتوں اور ان کے اداریہ نگاری کی تعریف بیان کی۔اور اس رسالہ کو معیاری اور مقبول عام بنانے کا مشورہ دیا۔ پونہ سے تشریف لائے مدیر" اسباق "نذیر فتح پوری نے تحریر نوکے 5 سال کو 50سالوں کے سفر کے مماثل قرار دیا ہے ۔رسالہ کے معیار اور پابندی سے شائع ہونے پر مبارکباد پیش کی اور ایک تعریفی نظم پڑھ کر سنائی۔جنوبی ہند کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے اپنے خطاب میں کہاکہ رسالہ وہی اچھا ہوتا ہے جو معیار اور نظم کو قائم رکھتا ہے جو لوگوں کی امیدوں پر کھڑا اترتا ہے انہوں نے سلیمان اریب کے رسالہ "صباء،’ سے "تحریر نو" کا تقابل کیا۔ تحریر نو میں مدیر اعلیٰ نے ادب کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے تحریر نو کے 5سالوں کی تکمیل پر مدیر کو مبارکباد پیش کی کیونکہ تحریر نو نے صرف 5سالوں میں اپنے معیار اور منفرد مشمولات کے ذریعہ ادبی رسالوں کی دنیا میں اپنی انفرادیت قائم کی ہے ۔ پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہاکہ دور حاضر میں ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے اور انسان دن بہ دن مصروفیت اور مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں ادبی رسالوں میں ادب کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ مسائل کی نمائندگی بھی کی جانی چاہئے۔اور تحریرنو یہ کام بخوبی انجام دے رہاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ادیب اور شعراء حضرات ادبی رسالوں سے ہی ادبی دنیا میں اپنی شناخت بناتے ہیں۔ عصر حاضر میں الکٹرانک میڈیا کاغلبہ ہے ایسے میں بہت سے ذرائع پیدا ہوچکے ہیں ساتھ ہی پرنٹ میڈیا میں تحریر نو کو بڑی مشکل سے ظہیر انصاری نے متعارف کروایا ہے وہ قابل مبارکباد ہے۔ انہوں نے اردو رسائل کے خریدار بننے اور دیگر احباب کو رسائل خریدنے پر آمادہ کرنے کا مشورہ دیا۔ نامور افسانہ نگار قمر جمالی نے اپنے خطاب میں کہاکہ یہ شام دراصل اردو رسائل کے نام معنون کرنے کی شام ہے ۔ اردو رسالہ نکالنا موجودہ دور میں کوئی معمولی بات نہیں ہے "ماہنامہ تناظر" جودہلی سے شائع ہوتاتھا میں نے حیدرآباد سے شائع کیا جو بڑی مشکل سے تین سال سے جاری رہا۔ انہوں نے کہاکہ رسالہ کیلئے اشتہارات حاصل کرنا دراصل کسی سے قرض مانگنے کے مصداق ہے۔ محبوب سہیل نے ظہیر انصاری کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ ظہیر انصاری نے اپنے خطاب میں رسالہ کو جاری کرنے کے مقصد کو بیان کیا اور تحریر نو کیلئے معاونت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہاکہ ہندی اخبارات میں 80فیصد اردو کے الفاظ ہوتے ہیں ۔جبکہ اردو کو نظر انداز کیاجارہاہے اردو ایک مقبول عام زبان ہے انہوں نے رسالہ کو جاری رکھنے کیلئے خریدار بننے کی درخواست کی ہے ۔
پروفیسر وہاب قیصر نے اپنے خطاب میں کہاکہ شمع اور بیسویں صدی رسائل ہر گھر میں آتے تھے لیکن اب رسالوں کا چلن کم ہوگیا ہے ایسے میں" تحریر نو" کو ہر گھر تک پہنچانا چاہئے اور مدیر کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے کہ انہوں نے پانچ سالوں سے تحریر نو کے ذریعہ ادب کی عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ ساتھ ہی رسالہ کے معیار کو برقرار رکھاہے۔ یٰسین احمد نے کہاکہ بچوں کو اردو زبان میں تعلیم دلوائی جانی چاہئے اردو ذریعہ تعلیم کی کیا صورتحال ہے اس پر غور وفکر کرنی چاہئے ساتھ ہی اردو کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جدوجہد کی جانی چاہئے۔انہوں نے تحریر نو کے مدیر ظہیر انصاری کی ہمت افزائی کیلئے رسالہ کے خرید ار بننے کی خواہش کی ہے ساتھ ہی انہیں مبارکبا دبھی پیش کی۔ پروفیسر بیگ احساس حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اس اجلاس میں اردو کی زبوں حالی پر گفتگو کی گئی ہے اور اردو رسائل کی کم تعداداشاعت پر سوال کئے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت کے آغاز سے ہی یہ سوال کیاجاتارہا ہے ۔پچھلے دور میں ہمایوں،ساقی،شب خون اور دیگر رسائل مقبول تھے۔ اور دیگر مشہور عام رسائل بھی ہزاروں کی تعداد میں شائع نہیں ہوتے تھے اور ادیبوں کو معاوضہ دیاجاتاتھا۔ اکیسویں صدی میں یہ سوال کیاجارہاہے کہ اردو کا رسالہ چل نہیں رہا ہے تو پھر نکالاکیوں جارہاہے۔دراصل رسالہ سے ادبی دنیا میں آپ کی ادبی شناخت ہوتی ہے ۔انہوں نے غالب کے شعر کے مصرعہ کو پڑھا "مشکلیں اتنی پڑیں کہ سب آسان ہوگئیں" ادیب و شعراء ادبی دنیا، شب خون میں چھپنا ایک اعزاز سمجھتے تھے اور رسالہ خریدتے بھی تھے۔ انہوں نے مدیر تحریر نو کو مشورہ دیا کہ وہ رسالہ وقت کی پابندی کے ساتھ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے شائع کریں۔ ساتھ ہی حکومت کی مختلف اسکیمات سے رسالہ کیلئے مالی فائدہ حاصل کرنے کے ذرائع سے واقف کروایا۔ انہوں نے ظہیر انصاری کی تحریر نو کے پانچ سالہ کامیاب سفر پر مبارکبار پیش کی۔ پروگرام کی نظامت اطیب اعجاز نے انجام دی۔ پروگرام کے اختتام کے ساتھ ہی مشاعرے کاآغاز عمل میں آیا۔ جس میں روف خیر، اطیب اعجاز، نذیر فتح پوری ، مجتبیٰ فہیم، جلال عارف، محمود شاہد، فاروق عارفی نے کلام پیش کیا۔ دوران پروگرام مجتبیٰ حسین نے "ماہنامہ تحریر نو" کے تازہ شمارے کا رسم اجراء انجام دیا۔اس پروگرام میں عابد معز،رووف خیراور شہر حیدرآباد کے باذوق خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کے۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

5th anniversary of Tahreer-e-Nav magazine mumbai. Reportaz: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں