حیدرآباد میں اردو وراثت کارواں کا عظیم الشان مشاعرہ - رپورتاژ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-07

حیدرآباد میں اردو وراثت کارواں کا عظیم الشان مشاعرہ - رپورتاژ


اب ہر ایک آواز اُردو کو فریادی بتاتی ہے
پھر بھی یہ پگلی خود کو شہزادی بتاتی ہے

ہندوستان ایک ایسا گلدستہ ہے کہ جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے اور کئی بولیاں بولنے والے اور کئی خطوں کے لوگ آباد ہیں۔ لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔اور نہ کوئی علاقہ ہوتا اور نہ کوئی مسلک ہوتا ہے اس کے باوجود آزادی ہند کے بعد سے مسلسل اُردو زبان کو مسلمانوں سے منسوب کرکے اسے اسکے جائز حق سے محروم کیا جاتا رہا ہے اور اُردو پر سرکاری مراعات کے دروازے بند کئے جارہے ہیں اوراُردو کے خاتمہ کوشش کے طور پر اس کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
ایسے دور میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا و چیرمن پریس کونسل آف انڈیا جسٹس مارکنڈے کاٹیجو کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد جسمیں جناب منظر بھوپالی ، اسیر برہان پوری ، ندافاضلی، منوررانا ، جناب عقیل نعمانی اور آصف اعظمی وغیر شامل ہیں اُردو وراثت کارواں کے نام سے ہندوستان کی تمام ریاستوں اور ا سکے بڑے شہروں کا دورہ کررہا ہے۔ تاکہ اُردوکی موجودہ حالت کا اندازہ کرنے ، اُردو کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لیے لائحہ عمل طئے کیا جائے۔ یہ کارواں اپنے پہلے مرحلے میں چار ریاستوں دہلی ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش ، اترپردیش کا سفر مکمل کرکے دوسرے مرحلہ کا آغاز آندھرا پردیش کی راجدھانی و موتیوں کے شہر اور اُردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کے بسائے محبت بھرے شہر حیدرآباد سے شروع کر رہا ہے۔
اس ضمن میں یہ اردو کی امیدوں کا کارواں پانچ اپریل کو حیدرآباد پہنچا ۔آندھرا پردیش میں اس کارواں کے دورے کے انتظامات اُردو اکیڈمی آندھرا پردیش ، روزنامہ سیاست، بھارت پٹرولیم کے مشترکہ تعاون سے کیے گئے تھے ۔ اُردو وراثت کے دوسرے مرحلہ کا آغاز 5/اپریل کو باغ عامہ للتھ کلاتھورنم کے وسیع اور عریض میدان میں ایک عظیم الشان کل ہند مشاعرہ کے انعقاد سے کیا گیا اس مشاعرے کی صدارت جناب زاہد علی خاں صاحب ایڈیٹر روزنامہ سیاست نے کی۔ جب کہ جناب منصور عثمانی صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔
شہر حیدرآباد میں جب بھی کسی مشاعرے کا اعلان ہوتا ہے باذوق سامعین کی ایک بڑی تعداد شعرا کو سننے پہونچ جاتی ہے۔ چنانچہ اس مشاعرے میں بھی باذوق محبان اردو کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔اس مشاعرے کے آغاز سے قبل اُردو وراثت کارواں کے کنوینر جناب آصف اعظمی نے تمہیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرہ تہذیب اور کلچر کا ایک حصہ ہے اور حیدرآباد تو اُردو کا شہر ہے چنانچہ حیدرآبادی عوام نا صرف مشاعروں میں ذوق سے شرکت کرتے ہیں بلکہ سخن سے محظوظ بھی ہوتے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی علامت اُردو زبان کے پرچم کو بلند کرنے اور اُردو زبان کے متعلق دیگر برادران وطن میں پھیلی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے اور اس کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کا تحفظ کرنے کے لئے اُردو وراثت کارواں سارے ملک کا دورہ کررہا ہے اور دوسرے مرحلہ کا آغاز حیدرآباد سے کیا جارہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ بعض لوگوں نے تلنگانہ اور غیر تلنگانہ کے نام پر جسٹس مارکنڈ ے کاٹجو کو بانٹنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ جسٹس مارکنڈ ے کاٹیجو کسی مخصوص علاقہ کے لئے نہیں ہیں بلکہ وہ سارے ہندوستان کے چیف جسٹس ہیں۔
اس کے بعدپروفیسر ایس اے شکور ڈائریکٹر اُردو اکیڈمی نے چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو کو گلہائے عقیدت اور مومنٹو پیش کیا۔ اور اس موقع پر کاروان اُردو کے فروغ میں اپنی زندگیاں وقف کرنے والے شعراء ادباء اور مصنفین کو جسٹس مارکنڈ کاٹجو کے جدامجد (دادا) کے نام پر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ چنانچہ پہلا کاٹجو ایوارڈ اُردو کے فروغ میں صحافتی اعتبار سے مشترکہ جدوجہد کرنے میں راموجی راؤ بانی ای ٹی وی اُردو چینل کو دیا گیا لیکن اس وقت راموجی راؤ ناسازی صحت کی بنا شریک نہیں ہوسکے۔ جس کی بنیاد پر ان کے فرزند کرن راموجی راؤ کو جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے ہاتھوں ایوارڈ سے نوازا گیا۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں اُردو کا سب سے معیاری و بین الاقوامی چینل کا آغاز راموجی راؤ نے ETV اُردو کے نام سے کیا تھا اور آج بھی یہ ہندوستان کا ممتاز اُردو چینل ہے اسی طرح شخصیات کے زمرے میں تمام عمر اُردو کی آبیاری کرنے اور اُردو کے فروغ کے لئے ہمیشہ متحرک رہنے والی شخصیت جناب ندا فاضلی کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔ اسی طرح اُردو غزل کے بے تاج شہنشاہ اور اُردو غزل کو کوٹھے سے نکال کر میخانوں سے اتار کر بادشاہوں کے دربار سے آزاد کراکر غزل کو ماں کے مقدس قدموں میں ڈال کر اس کی عظمت کو بڑھانے والی شخصیت جناب منور رانا کو بھی یہ ایوراڈ دیا گیا اور اُردو اکیڈمی کی جانب سے اسی طرح کاروان کے کنوینر آصف اعظمی کو بھی مومنٹو پیش کیا گیا۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس ماکنڈے کاٹجونے اس کاروان کے آغاز کا مقصد بتایا کہ ہندوستان کی ایک مشترکہ تہذیب ہے اور اس تہذیب کے دوحصے ہیں ایک حصہ اُردو تہذیب اور دوسرا حصہ سنسکرت تہذیب پر مشتمل ہے لیکن آج ہندوستانی تہذیب کے یہ دونوں حصے غلط فہمیوں کی وجہ سے اپنے جائز حقوق سے محروم ہو رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان مہاجروں کا مقام ہے پہلے کئی مقامات سے لوگ ہندوستان تجارت کی غرض سے آتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ شمال مغرب سے بہت سے لوگ ہندوستا ن آئے لیکن یہاں سے کوئی دوسری طرف ہجرت کرکے نہیں گیا جب مختلف لوگوں کی آمد میل جول اور میل ملاپ سے ایک سادہ تہذیب وجود میں آئی جسے سنسکرت اور اُردو تہذیب کہتے ہیں لیکن آج لوگوں نے سنسکرت کو ہندوؤ ںکی زبان کہہ کر اور اُردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ کر ان دونوں کی جڑیں کاٹ دیں ۔ اور 1857کی جنگ آزادی (غدر) کے بعد سے مسلسل اُردو کے ساتھ نا انصافیاں ہورہی ہیں ۔اسی لئے اس کے سد باب کے لئے کاروان کا آغاز کیا گیا ہے۔

اس کے بعد باقاعدہ مشاعرے کے آغاز کے لئے ناظم مشاعرہ جناب منصور عثمانی صاحب نے میزبان شاعرہ و دکن کی آبرو محترمہ تسنیم جوہر کو دعوت سخن دی ۔وہ اسٹیج پر تشریف لائیں۔ اور اپنے اس خوبصورت قطعہ سے اس تاریخی مشاعرہے کا آغاز کیا ؎

خود کو تجھ سے نہ کیوں رجوع کرلوں
میں تیرے نام سے شروع کرلوں
پھر جھکاؤں جبین درپر تیرے
پہلے اشکوں سے میں وضوکرلوں

انہوں نے اُردو پر ایک خوبصورت نظم کہی جس میں اُردو کے شاندار ماضی اور تاریک حال اور تابناک مستقبل کا تذکرہ کیا اس نظم کے ان اشعار پر سامعین نے انہیں خوب سراہا ۔

چکبست اور فراق کے ماتھے کا تلک ہوں
اقبال کے نغمات میں آیات کی جھلک ہوں
دوہوں میں کبیر کے محبت کی مہک ہوں
کیوں مجھ کو کہہ رہے ہو کہ میں مسلمان ہوں
ہندوستان کی شان میں اردو زبان ہوں

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے رائے بریلی سے تشریف لائے مہمان و نوجوان اور جذباتی شاعر عقیل نعمانی کو دعوت سخن دی ان کی غزل کے مندرجہ اشعار پر سامعین نے انہیں دل کھول کر داد دی ۔

کسی پہ مٹنے مٹانے سے فائدہ کیا ہے
مزہ تو جب ہے کہ کسی کے لئے جیا جائے
وہ دیکھتا ہے وضاحت طلب نگاہوں سے
میں چاہتا ہوں اشارہ سمجھ لیا جائے
محاذ جنگ پر اکثر بہت کچھ کھونا پڑتا ہے
کسی پتھر سے ٹکرانے کو پتھر ہونا پڑتا ہے

ناظم مشاعرہ نے قلی قطب شاہ کی سرزمین کی نمائندگی کرنے والے میزبان شاعر جناب رؤف خیر کو دعوت سخن دی۔ انہوں نے اپنی غزل میں معاشرتی مسائل کو بیان کرکے سامعین سے خوب داد وصول کی ان کے حسب ذیل اشعار بہت پسند کئے گئے ۔ٍ
قلم کی کاٹ تو تلوار سے بھی بڑھکر ہے
مگر یہ ہتھیار یہ سمجھ میں نہیں آتا
گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
پرندہ بھی شکاری کی سپیاری لے کے نکلا ہے

کہا جاتا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے جو کہ بالکل غلط ہے چونکہ اُردو کے چوٹی کے کئی مشہور شعرا غیر مسلم تھے جن میں قابل ذکر رگھوپتی سہائے ، فراق ، جگناتھ آزاد، کنورمہندر سنگھ ، رتن ناتھ سرشاروغیرہ قابل ذکر ہیں ۔آج کے دور کے ایسے ہی غیر مسلم شاعر جو عروس البلاد شہر ممبئی سے تشریف لائے جناب راجیش ریڈی کو دعوت سخن دی گئی انہوں نے اپنی غزل کے مختلف اشعار کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصد حیات سے آگاہ کرکے بہت داد وصول کی ان کے منتخب اشعار اس طرح ہیں۔

زمانے بھر میں ظاہر اپنی خود داری بھی کرنی ہے
مگر دربار میں جانے کی تیاری بھی کرنی ہے
ہے مہلت چار دن کی اور ہے سوکام کرنے کو
ہمیں جینا بھی ہے مرنے کی تیاری بھی کرنی ہے
جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں
اب تو بس آسمان باقی ہے

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے مشاعرے کی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور میزبان شاعر جناب اثر غوری کو دعوت سخن دی انہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے اسے جگ بیتی بنادیا ۔

ہوا کا چاروں طرف سے دباؤ ایسا تھا
سفر بھی چیخ رہا تھا پڑاؤ ایسا تھا
میں خاموشی کو پہن کر نکل گیا باہر
گزشتہ رات کو تناؤ ایسا تھا

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے مشاعرے کو سنجیدگی کے ماحول سے مزاح کی طرف لے جانے کے لئے حیدرآباد کے پڑوسی شہر نظام آباد سے تشریف لائے مزاحیہ کلام کے مخصوص شاعر جناب اقبال شانہ کو دعوت سخن دی انہوں نے اپنی نجی زندگی کی کہانی سناکر کہانی کو اشعار کے قال میں ڈھال کر محفل کو زعفران زار بنادیا ان کے مندرجہ ذیل اشعار پر سامعین نے انہیں خوب سراہا ۔

تیرا رشتہ چچا غالب سے گر طئے ہوگیا ہوتا
تو چاچی غالباً ہوتی بھتیجہ میں تیرا ہوتا
میں اُردو شاعری کرتا فراقت میں تیری جانے جاناں
خدا کے فن سے پائے کا شاعر بن گیا ہوتا
شوہر ہو اپنا فرض ادا کررہا ہوں میں
وہ سورہی ہے اور ہواکر رہاہوں میں
ہوں خدا کے فضل سے نابغہ روزگار
عورت کے روزگار پر مزہ کررہا ہوں میں

ناظم مشاعرہ نے اُردو دنیا کے محبوب شاعر جناب منظر بھوپالی کو دعوت سخن دی انہوں نے قومی یکجہتی سے لبریز غزل کہکر خوب داد وصول کی۔
اللہ وطن کو جو میرے لوٹ رہے ہیں
یہ قوم کے غدار ہیں مرکیوں نہیں جاتے
دنیا میں نفرت کی چلاتے ہیں جو ہوائیں
کیوں زندہ ہیں وہ لوگ گزرکیوں نہیں جاتے

انہوں نے ذلت کی زندگی جینے والوں مرجانے کا مشورہ دیتے ہوئے ایک بہترین قطعہ کہا ہے
عزت کے بناء جینا بھی کیا جینا ہے اے منظر
ذلت سے ہی جینا ہے تو مرکیوں نہیں جاتے
ذہن و دل میں تمہیں آباد کریگی دنیا
کچھ کرو کام تب ہی یاد کریگی دنیا

انہوں نے بیٹی کو خدا کی رحمت کہتے ہوئے لڑکیوں کی عظمت اور ان کی پرورش کی اہمیت کو ان اشعار کے ذریعے اجاگرکیا۔
بیٹیاں ہوتی ہیں پرنور چراغوں کی طرح
روشنی دیتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں
فاطمہ زہرہؒ کی تعظیم کو اٹھتے تھے رسولﷺ
محترم بیٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے جناب قاسم امام جو خوبصورت لب ولہجہ کے ممتاز شاعر اور ممبئی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں کو دعوت سخن دی انہوں نے اپنے مخصوص اور مترنم انداز میں غزل کہ کر عوام سے بے پناہ داد وصول کی ان کے منتخب اشعار اس طرح ہیں ۔

ہم تیرا پیار تیرے پیار میں لے آئے ہیں
ایک فریادی کو دربار میں لے آئے ہیں
جو سمجھتی ہے نہ سنتی ہے نہ کچھ بولتی ہے
کیسی سرکار کو سرکار میں لے آئے ہیں
منصف نے آنکھوں پر کالی پٹی باندھی ہے
قاتل نے بھی سونچ لیاہے اب شرمانا کیسا

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے اسیر برہان پوری کو دعوت دی ان کے مندرجہ ذیل اشعار پر سامعین نے بے پناہ تالیوں کی گونج میں ان کی پزیرائی کی

بھرا ہے ذہن میں جس کے نقصانات کا زہر
وہ انتشار نہ بانٹے کو اور کیا بانٹے
کس کے ہجر میں آتش کدا ہے خانہ دل
نظر شرانہ بانٹے تو اور کیا بانٹے
نظر ملاتے ہیں اور روٹھ جاتے ہیں
سلیقہ مند سلیقہ سے دل دکھاتے ہیں

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے آخری میزبان شاعر جناب رحمن جامی کو دعوت سخن دی انہوں نے مائک سنبھالا اور یوں گویا ہوئے کہ

پھول پھینکے میری راہ میں کہ پتھر پھیکے
جس کو جو پھیکنا ہے سونچ سمجھ کر پھینکے
میں گناہ گار ہی سہی مجھ پر بہ قول عیسٰی
جو گناہ گار نہیں ہے وہی پتھر پھیکے

اب ناظم مشاعرہ کی باری ہے جناب منصور عثمانی کو قاسم امام نے اس خوبصورت شعر سے دعوت دی کہ
تیری موجودگی میں تیری دنیا کون دیکھا گا
تجھے میلے میں سب دیکھیں گے میلہ کون دیکھے گا

ان اشعار کے ساتھ ناظم مشاعرہ مسند نظامت سے اٹھ کر میدان غزل گوئی میں تشریف لائے اور ان اشعار پر سامعین سے بے پناہ داد بھی وصول کیئے

ہر روز نئے طرح کے غم ٹوٹ رہے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں
وہ ظلم بھی اس دور کے انساں پہ ہوا ہے
جس ظلم کو لکھنے میں قلم ٹوٹ رہے ہیں

اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے اسی مائک سے اس ممتاز شاعر کو دعوت دی جس کو سننے کے لئے ہزار وں کا مجمع بے تاب تھا اور وہ شاعر بلا مبالغہ اُردو غزل کی آبرو ہے جس نے غزل کو درباروں کی قید سے آزاد کراکر کوٹھوں کے اتراتے بوتلوں کے نشے سے نکال کر طوائف کی داستانوں سے نکال کر ماں کے مقدس قدموں میں بٹھاکر جنت کے مقدس مقام تک پہنچانے میں اپنی شاعری صرف کردی۔ اور یہ شاعر جناب منور رانا تھے جنہیں دعوت سخن دی گئی ۔انہوں نے اپنے جذبات سے بھر پور اور مقدس رشتوں کی پاسدار شاعری کے مختلف اشعار کہہ کر مشاعرے کو لوٹ لیا ۔
منور رانا کہ چند اشعار اس طرح ہیں ۔

کسی کے زخم پر چاہت سے پٹی کون باندھے گا
اگر بہنیں نہیں ہوں تو راکھی کون باندھے گا

یہ بازار سیاست ہے یہاں خوداریاں کیسی
سبھی کے ہاتھ میں کاسہ ہے مٹھی کون باندھے گا

تمہاری محفلوں میں ہم بڑے بوڑھے ضرور ہیں
اگر ہم نہ ہوں گے تو پگڑی کون باندھے گا

مقدر دیکھے وہ بانجھ بھی ہے اور بوڑھی بھی
ہمیشہ سونچتی رہتی ہے گٹھڑی کون باندھے گا

وہ نم آنکھیں لبوں سے یوں کہانی چھین لیتی ہیں
ہوائیں جس طرح بادل سے پانی چھین لیتی ہیں

مسائل نے ہمیں بوڑھا کیا ہے وقت سے پہلے
گھریلو الجھنیں اکثر جوانی چھین لیتی ہیں

ہم کو دنیا نے بسائے رکھا ہے دل میں اپنے
ہم کسی حال میں بے گھر نہیں ہونے والے

یہ جو سورج لیے کاندھوں پر پھرا کرتے ہیں
مربھی جائے تو منور نہیں ہونے والے

مجھے اپنی وفاداری پر کوئی شک نہیں ہوتا
میں خونِ دل ملا دیتا ہوں جب جھنڈا بناتا ہوں

اس کے بعد زاہد علی خاں صاحب کی نمائندگی پر جسٹس مارکنڈ کاٹوجے نے سابق کانسٹبل عبدالقدیر کی رہائی کے ضمن میں گورنر آندھرا پردیش جناب ای ایس ایل نرسمہن کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے سابق کانسٹبل عبدالقدیر کی انسانی بنیادوں پر جلد از جلد رہائی کے لئے دباؤ ڈالا تا۔ اس موقع پر اس خط کا انگریزی متن جناب زاہد علی خاں نے سامعین کو پڑھکر سنایا ۔
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے پدم بھوشن ایوارڈ یافتہ ندا فاضلی صاحب کو دعوت سخن دی انہوں نے اپنے مخصوص اور مترم انداز میں چند اشعار کہکر مشاعرہ کا عملاً اختتام کردیا ۔

کبھی کبھی ہم نے اپنے جی کو یوں بہلایا ہے
جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے
میر و غالب کے شعروں نے کس کا ساتھ نبھایا ہے
سستے گیتوں کو لکھ لکھ کر ہم نے گھر بنوایا ہے

بہر حال اُردو وراثت کارواں کا یہ مشاعرہ تقریباً رات دس بجکر تیس منٹ پر اختتام کو پہنچا ۔
اس موقع پر ریاست و ملک کے مختلف سیاسی ، سماجی ، سرکاری ، ادبی وہ علمی شخصیات موجود تھیں جن میں قابل ذکر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان جناب فاروق حسین ایم ایل سی ، جناب ابراہیم بن عبداللہ مسقطی ایم ایل سی ، ایم اے وحید کمشنر اقلیتی بہبود حکومت آندھرا پردیش ، جناب ظہیر الدین علی خاں ، پروفیسر ایس اے شکور، جناب کرن راموجی راؤ، پریس کونسل آف انڈیا کے جنرل سکریٹری درگا بھارتی ، و اراکین پریش کونسل آف انڈیا ، جناب اکول سبھروال ڈی سی پی حیدرآباد ، جناب ڈاکٹر اقبال احمد اورخواجہ معین الدین کے علاوہ فرزندان اُردو کی اتنی کثیر تعداد موجود تھی کہ للتھ کلاتھورنم کا وسیع و عریض میدان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا ۔
***
محمد محبوب۔ ایم اے، ایم فل (یونیورسٹی آف حیدرآباد)
شانتی نگر، ظہیرآباد۔ آندھرا پردیش۔
موبائل نمبر: 9440777782
محمد محبوب

Urdu Heritage Caravan Mushaira at Hyderabad. Reportaz: Mohd. Mahboob (Zaheerabad)

1 تبصرہ:

  1. Good report. Quite a good content and presentation of content is outstanding. Keep it up Guys!!

    جواب دیںحذف کریں