2013 کے مسلم پدم ایوارڈ یافتگان - ایک نظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-07

2013 کے مسلم پدم ایوارڈ یافتگان - ایک نظر میں

2013ء میں پدم ایوارڈ سے نوازے جانے والے مسلمانوں کی تعداد تناسب سے کم ہونے کے باوجود گزشتہ سالوں سے زیادہ ہے۔اس سال پدم وبھوشن ،پدم بھوشن اورپدم شری ایوارڈز کے لیے منتخب کیے جانے والے مسلم دانش وروںمیں مختلف میدانوں کے ماہرین ہیں،جنہوں نے اپنی پوری زندگی تعلیم،ادب ،مصوری ،موسیقی،غزل گائیکی ،شاعری اورنغمہ نگاری میں صرف کی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے فن کو نئی نسل تک منتقل کرنے کی بھی حتی المقدورکوشش وسعی نیک کی ہے۔
پرنب مکھرجی ،صدرجمہوریہ ہند نے گزشتہ 26/جنوری کو 108/ شخصیات کے لیے پدم ایوارڈ کی منظوری دی تھی۔اس ایوارڈکوتین زمرے میں تقسیم کرتے ہوئے 4/کوپدم وبھوشن ،24/کوپدم بھوشن اور80/شخصیات کو پدم شری کے زمرے میں رکھا گیاتھا۔ پدم و بھوشن پانے والوں میں ایک مسلم،پدم بھوشن کے لیے 2/مسلمان اورپدم شری کے لیے 6/مسلمانوں کا انتخاب کیاگیاہے۔جنہیں آج راشٹریہ پتی بھون میں دیگر شخصیات کے ساتھ صدرجمہوریہ اپنے ہاتھوں اعزاز سے نوازیں گے۔

سید رضا حیدر(پیدائش:22/فروری 1922ء)
مدھیہ پردیش میں پیداہوئے اوریہیں اپنی ابتدائی وثانوی تعلیم کی تکمیل کی۔ ہندوستانی آرٹسٹ اور پینٹر ہیں ۔اس وقت ان کی عمر 91/سال ہے۔انہوں نے فرانس میںاپنی خدمات انجام دیں ،عرصہ تک وہاں قیام پذیر بھی رہے۔انہیں ہندوستانی حکومت نے 1981ء میںپدم شری،2007/میںپدم بھوشن اور 2013ء میںپدم وبھو شن پیش کرکے ان کے فن اورمہارت کو سراہا ہے ۔ حیدرنے کبھی اپنے فن اور مصوری کو خود تک محدودنہیں کیا بلکہ اسے پھیلانے اور اس کے فروغ کے لیے بھی ہمیشہ متحرک وفعال رہے۔انہوں نے ہندوستانی جوانوں کو مصوری سے منسلک کرنے کے لیےرضافاؤنڈیشن کاقیام کیا اوران کی حوصلہ افزائی کے لیے سالانہ رضافاؤنڈیشن ایوارڈبھی جوان مصوروں کو پیش کیا۔ رضاکی مصوری کو ملک وبیرون ممالک میں کافی اہمیت دی گئی ہے۔انہیں مذکورہ ایوارڈکے علاوہ بھی کئی ایک اہم ایوارڈ مل چکے ہیں ۔

شرمیلا ٹیگور (پیدائش:8/دسمبر1944ء)
ہندوستانی فلم اداکارہ ہیں ۔ حیدر آبادمیں مقیم ہندوبنگالی خاندان میں آنکھیں کھولیں،شرمیلاہندوستانی فلم کی تاریخ میںناقابل فراموش حیثیت اختیارکرنے کے علاوہ ایک معروف خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔اگروہ رابندرناتھ ٹیگور کی اولاد میں ہیںتو وہیں وہ ہندوستانی کرکٹ کے معروف کپتان منصورعلی خان پٹودی کی بیوہ اورسیف علی خان کی والدہ ہیں ۔ 27/دسمبر1969ءکوشرمیلا کا نکاح پٹودی کے ساتھ ہوااس کے بعد انہوں نے اپنا نام بیگم عائشہ سلطانہ رکھ لیاتھا ،جس سےوہ کم ہی معروف ہیں۔
شرمیلا کو کئی اہم فلمی ایوارڈ مل چکے ہیں۔شرمیلا نے کئی اہم فلموں میں یادگارکردار اداکیاہے۔جس کا جادوآج بھی ہندوستانیوں کے سر چڑھ کربولتاہے۔ 1969ءسے 2010ءتک شرمیلا نے ہندوستانی فلموں کے لیےسرگرمی کےساتھ کام کیااورسراہی جاتی رہیں۔

عبدالراشدخان (پیدائش:19/اگست1908ء)
موسیقار خان صاحب رشان پیا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔اس وقت آپ 104/سال کی عمر میں بقیدحیات ہیں۔آپ تان سین کی روایتی موسیقی سے وابستہ ہیں۔راشد ڈھامر،ٹھمری وغیرہ کے لیے معروف ہیں۔
آپ گوالیارکےروایتی موسیقی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کی تربیت میں آپ کے تایابڑے یوسف خان اور والدچھوٹے یوسف خان نے نمایاں کارنامہ انجام دیاہے۔
اترپردیش سے تعلق رکھنے والے عبدالراشد خان نے اپنے فن کی ابتدااترپردیش سے ہی کی۔آج بھی آپ آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکادمی،کولکاتہ میں 'گورو'ہیں۔اورنئی نسل کوموسیقی کے فن سے سنواررہے ہیں۔ملک کی کئی اہم یونیورسٹیزکے لیے آپ اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں۔آپ ملک میں موسیقی کے کئی اہم ایوارڈ اورخطابات سے بھی نوازے جاچکے ہیں۔ آپ آل انڈیا ریڈیو آڈیشن کمیٹی ،نئی دہلی کے رکن ہیں ۔آپ کوسنگیت مہارشی،سنگیت سرتاج،بندش سمراٹ جیسے خطابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔اس سال پدم بھوشن ایوارڈحاصل کرنے والوں میں آپ سب سے زیادہ ضعیف العمر ہیں ۔

پروفیسراخترالواسع (یکم دسمبر1951ء)
کی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر علی گڑھ میں ہوئی۔آپ کا تعلق تصوف پسند خانوادہ سے ہے ۔آپ کی پوری تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی ۔فی الوقت آپ اردواکادمی ،دہلی کے وائس چیرمین،ڈاکٹرذاکرحسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیزکے ڈائرکٹراوردرجنوں تحریکوں اور تنظیموں کے روح رواں اورسرگرم رکن ہیں ۔آپ کی تقریباً36 / کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، جن کی اہمیت مسلم ہے۔جن میں 9/ کتا بیں آپ کی تصنیف کردہ ہیں،6/ترجمے ہیںاوربقیہ آپ کی ترتیب وتالیف میں شائع کی گئی ہیں۔اسلامی موضوعات پر آپ کو ید طولی ٰحاصل ہے ۔ان میں بھی نظری تصوف پر آپ کے نظریات فی زماننافیصلہ کن ہوتے ہیں۔ان چند معتدل تصوف پسند مصنفین میں آپ کا شمار ہوتاہے ،جوکسی بھی صورت میں اتحاد باہمی اورحق کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔آپ جب مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں توطلاقت لسانی سرنگوں نظرآتی ہے،الفاظ وجملے کی ساخت اورنشیب وفراز سامعین کی توجہ کا مرکز بن کر قلب وجگرمیں اترجاتے ہیںاورمجمع پر نظرڈالنے پر ایسا محسوس ہوتاہے کہ کانہم علی روؤس الطیور۔اس سے پہلے بھی آپ کوکئی اہم ایوارڈز مل چکے ہیں۔

غلام محمد سازنواز:
کشمیری صوفیانہ کلام کے حوالہ سے پوری دنیامیں معروف ہیں۔انہوں نے روایتی موسیقی کی تعلیم کے لیےکشمیر میں ادارہ بھی قائم کیاہے۔جہاں وہ صوفیانہ موسیقی کی بقاکے لیے نئی نسل کوتیارکرتے ہیں۔غلام محمدسازنوازصوفیانہ کلام کے معروف استاذہیں۔وہ آل انڈیاریڈیو ، کشمیر کے اعلیٰ عہدہ سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ دوردرشن کے لیے ہندوستان کے اہم تہواروںکے مواقع پر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔آپ کی زندگی پر مبنی ایک ڈاکیومینٹری فلم بھی بنائی جاچکی ہے،جسے کافی سراہاگیاتھا۔صوفیانہ کلام پیش کرنے میں ان کےدیگر ساتھیوں کا بھی بڑانام ہے۔

مقتدیٰ حسن ندافاضلی(12/اکتوبر1938ء)
کشمیری خاندان میں پیدا ہونے والے اردوکے معروف شاعر اورنغمہ نگارندافاضلی کی جائے ولادت دہلی ہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گوالیار میں حاصل کی ۔ان کےوالد بھی معروف اردو شاعر تھے۔تقسیم ہند کے دوران ان کے کنبہ کے دیگر افراد پاکستان ہجرت کرگئے لیکن فاضلی نے اپنے قیام کے لیے ہندوستان کوپسندکیا۔آج ہندو ستان کے اہم نغمہ نگاروں اور شعرامیں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ نداکے لیے یوں تو شروع سے ہی اردو شاعری باعث کشش تھی لیکن ایک مندرسے آتی ہوئی بھجن کی آواز کوسن کر انہوں نے تحریک پائی اور اپنی شاعری کی ابتدا کی ۔ممبئی میں قیام کے ابتدائی زمانہ میں ان کی شاعری نےفلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کیااس پر مستزادیہ کہ کمال امروہوی کی شفقت ان کی شاعرانہ صلاحیتوں میں اضافہ کا سبب بن گئی۔انہوں نے غزل ،دوہے اور نظم پر طبع آزمائی کی۔ان کے کئی اہم مجموعے شائع ہوکرپسندیدگی کی نگاہوںسے دیکھے جاچکے ہیں۔جن میں لفظوں کے پھول،مورناچ،آنکھ اورخواب کے درمیان،سفرمیں دھوپ تو ہوگی ، کھویا ہوا سا کچھ ، دنیا ایک کھلوناہے،اہم ہیں۔ انہیں اس سے پہلے بھی کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔جن میں قابل ذکرساہتیہ اکادمی ایوارڈہے۔

پروفیسرمحمدشرف عالم
کا تعلق پٹنہ( بہار )سے ہے۔آپ 1970ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں لکچرر مقررہوئےپھرتہران یونیورسٹی سے جدید فارسی میں سند حاصل کی ۔وہ تقریبا تین دہائی تک پٹنہ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیورسٹی کےپہلے وائس چانسلر بھی رہے۔پروفیسر شرف عالم کی فارسی ،اردواورانگریزی زبانوں میں متعدد کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔اس کے علاوہ آپ کے مضامین ومقالات مختلف رسائل وجرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔پروفیسر موصوف کو اس سے پہلے بھی کئی قابل قدر ایوارڈ مل چکے ہیں۔آپ سکنڈلیفٹننٹ کے بعد کیپٹن کا بھی اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔رٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ متحرک وفعال ہیں ۔فارسی شاعری میں ہجانویسی ،منتخبات شعر و نثر فارسی ، بہا ر میںفارسی ادب کی تاریخ ،ہندومذہبیات پر ہندوستانی مسلمانوں کی فارسی کتابیںوغیرہ آپ کی اہم اورمقبول ترین کتابیں ہیں۔

سید شاکر علی:
سیّد شاکر علی جے پور میں مقیم ہیں ان کے خانوادے کا تعلق ٹونک سے ہے ۔ جے پور میں محلہ بلوچیان میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ رہے ہیں یہاں اینٹیکس کے کاروباری ہیں۔ 56/سالہ شاکر علی منی ایچر پینٹنگ کے ماہر ہیں ،مغل اور ایرانی انداز و خصوصیات کی تصویروں کو بناتے ہیں اور یہ فنکاری خود اپنے آپ میں کافی خوبصورت اور حیرت انگیز ہوتی ہے ۔بے حد باریکی اور نفاست کے ساتھ اس کو انجام دیتے ہیں ۔منی ایچر تصاویرسے مراد وہ بہترین اور کمیاب فنکاری ہے، جس میں کسی مخصوص دور ،واقعہ یا جگہ کا بیان ہو اور مختلف شخصیات ،جنگی مناظر، درباروں کی رونق اور محفلوں کے موضوع پر تصویر بنائی جائے ۔اس فنکاری کے لئے ہندوستان میں اکبر، جہاں گیر اور شاہ جہاں نے اس فن کی بقا اور اہتمام کے لئے پر زور انداز میں کام کئے اور اس دور میں اس فن کو خوب فروغ حاصل ہوا ۔ہندوستان میں اس وقت راجستھان کا شہر جے پور ہی وہ واحد علاقہ ہے، جہاں مغل و ایرانی طرز کی یہ فنکاری موجود ہے ۔ سیّد شاکر علی کو اس اعزاز سے قبل1993 ءمیں اپنی ایک بہترین فنکاری کے لئے نیشنل ایوارڈ بھی حاصل ہو چکا ہے۔
ان کے علاوہ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے شوکت ریاض کپور سالک لکھنوی کو بھی بعد از مرگ پدم شری ایوارڈ کے لیے منتخب کیاگیاہے۔

نورین علی حق

2013 Muslim Padma Awardees -Article: Noorain Ali Haq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں