مسلم سیاسی جماعتیں - اقلیتوں کی امنگوں کی عکاس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-18

مسلم سیاسی جماعتیں - اقلیتوں کی امنگوں کی عکاس

ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے کاز کیلئے سرگرم جماعتیں ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ذہن میں ایک بہتر تاثر پیدا کرنے لگی ہیں۔ ایک ایسے وقت جب کہ عام انتخابات بمشکل ایک سال بعد ہونے والے ہیں ایسی لگ بھگ 10 جماعوں جن میں سے بیشتر غیر معروف ہیں، کے قائدین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کو یکجا کرنے کے عمل کا ماقبل 1947ء کی سیاست کے ساتھ تقابل نہیں کرنا چاہئے جس کے نتیجہ میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو صرف اس برادری کی امنگوں اور سماجی و معاشی پسماندگی کے علاوہ ہر دہشت گرد حملہ کے بعد پولیس کے مظالم پر مسلمانوں میں پھیلی ہوئی برہمی کی عکاسی کررہی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 150 تا177 ملین ہے کہنے کو تو تمام مسلم جماعتیں سیکولر ہیں۔ وہ غیر مسلموں پر اپنے دروازے بند نہیں کرتیں اور بیشتر جماعتیں اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے کاز تک محدود نہیں رکھتیں بلکہ دیگر مسائل بھی اٹھاتی ہیں۔ ہندوستان جیسے کثیر النوع ملک میں یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی قومی اور علاقائی جماعتوں کو ووٹ دیتی ہے۔ ہندوستان کی 28ریاستوں میں 7مرکزی زیر انتظام علاقوں میں جموں و کشمیر ایسی واحد ریاست ہے جو مسلم اکثریتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ہندوستان میں مسلم لیگ کی سیاسی موت ہوگئی اور 1948ء میں انڈین یونین مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ آج یہ کیرالا کی اصل دھارے کی جماعت ہے۔ حیدرآباد کی مجلس کا 1928ء میں قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ حیدرآباد کو آزاد رکھا جاسکے۔ ملک کی آزادی کے بعد اسے ممنوع قرار دے دیا گیا تھا تاہم 1958ء میں اس کا احیاء عمل میں آیا۔ کئی دہوں تک مسلمانوں میں صرف یہی دو مسلم جماعتیں تھیں جن کا مقامی سطح پر اثر و رسوخ تھا لیکن اب آہستہ آہستہ منظر تبدیل ہورہا ہے۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ( اے آئی یو ڈی ایف) سال 2005ء میں اپنے قیام کے صرف 6سال بعد آسام کی اصل اپوزیشن جماعت بن گئی ہے اور کانگریس اور دیگر جماعتوں کی مسلم بنیادوں کو دھکا پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34فیصد ہے اور اے آئی یو ڈی ایف کے رکن اسمبلی سراج الدین اجمل نے پورے اعتماد کے ساتھ آئی اے این ایس کو بتایاکہ ریاست میں آئندہ حکومت ان کی پارٹی ہی تشکیل دے گی۔ مغربی بنگال کی چھوٹی سی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک کانفرنس آف انڈیا (پی ڈی سی آئی) کا گذشتہ سال اے آئی یو ڈی ایف میں انضمام عمل میں آیا۔ دیگر دو جماعتیوں ویلفیر پارٹی آف انڈیا اور سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے ٹاملناڈو میں انڈین یونین مسلم لیگ اکثر ڈی ایم کے کے ساتھ رہا کرتی ہے۔ اس ریاست میں 2009ء میں ایک نئی مسلم جماعت ایم ایم کے کا قیام عمل میں لایا گیا جو اب حکمران اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ ہے۔ مسلم سیاسی جماعتوں کی بڑھتی تعداد جمہوریت کا فطری نتیجہ ہے۔ ایم ایم کے رکن اسمبلی ایم ایچ جواہر اﷲ نے آئی اے این ایس کو یہ بات بتائی۔ انہوں نے ہندوستان کے تمام مسلم گروپس کے درمیان تال میل پیدا کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے کاز کیلئے سرگرم جماعتوں میں کیرالا کی انڈین یونین مسلم لیگ، آندھراپردیش کی مجلس، آسام کی آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ( اے آئی یو ڈی ایف)، مغربی بنگال کی پیپلز ڈیموکرٹیک کانفرنس آف انڈیا(جو اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ ضم ہوگئی ہے) مربی بنگال کی ویلفیر پارٹی آف انڈیا، سوشل ڈیموکرٹیک پارٹی آف انڈیا، ٹاملناڈو کی مانی تھینا مکل کاچی( ایم ایم کے)، اترپردیش کی آل انڈیا علماء کونسل، کیرالا کی انڈین نیشنل لیگ اور اسی ریاست کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔

Muslim parties echo minority aspirations in secular India

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں