جسٹس کاٹجو اور اردو کے فروغ کی حکمت عملی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-11

جسٹس کاٹجو اور اردو کے فروغ کی حکمت عملی

جسٹس مارکنڈے کاٹجو، بنیادی طورپر ایک شریف النفس انسان ہیں۔ کھلا ڈہن رکھتے ہیں اور دیانتداری کے ساتھ اظہار خیال کرنے سے کبھی جھجھکتے ہیں۔ چاہے ان کی بات کسی کو ناگوار خاطر ہی محسوس کیوں نہ ہو۔ ہندوستانی مسلمانوں کا جہاں تک تعلق ہے آزادی کے لگ بھگ 66 برسوں بعد انہیں ایسی شخصیت ملی ہے۔ جو ان کے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ ملک کی موجودہ فضاء میں جب یہ شخصیت بے لاگ انداز میں کھری کھری باتیں کرتی ہے مسلمانوں میں زندگی کی حرارت دوڑنے لگتی ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے صدرنشین کی حیثیت سے ایک اخبار میں جاریہ سال کے اوائل میں ان کے مضمون کی اشاعت نے بی جے پی کو چراغ پا کردیا تھا۔ انہوں نے ایسی کوئی بات تو نہیں کی تھی جسے خلاف واقعہ کہا جاسکتاہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں صرف 2002ء میں گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی کا،1938 ء میں جرمنی میں یہودیوں اور نازیوں کے حملے سے تقابل کیا تھا اور یہ بتایا تھا اس حملہ کے فوری ردعمل کے طورپر پیرس میں ایک یہودی نوجوان نے جرمن ڈپلومیٹ کو ہلاک کردیاتھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ منصوبہ بھی نازیوں کا بنا بنایا تھا۔ مارکنڈے کاٹجو نے عصر حاضر کے مورخ رامچندر اگوہا کے ان کے مضمون ظاہرکردہ ان کے اس نقطہ نظر سے بھی اتفاق کیا تھا جس میں انہوں نے ترقی کے نریندر مودی کے دعویٰ کو چیلنج کیا تھا اور یہ وچھا تھا آیا تغذیہ کی کمی سے متاثر ہ گجرات کے بچوں کو تغذیہ کی کمی کے متبادل کے طورپر کیا انہیں سڑکوں، الیکٹریسٹی اور فیکٹریز کو غذا کے طورپر کھانا چاہئے؟ جوکہ مودی نے بنائی ہیں! جسٹس کاٹجو نے ان پر کی گئی بی جے پی قائدین کی تنقیدوں کا یہ کہتے ہوئے جواب دیا تھا"آزادانہ تقریر ان کا حق ہے" اور یہ کہ وہ حکومت کے کوئی عہدیدار نہیں ہیں بلکہ ایک آزاد آئینی اتھاریٹی کے سربراہ ہیں۔ قانون اور قاعدہ کے تحت ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے انہیں ان کے حق سے روکا جاسکے۔ ہندوستان کی موجودہ سیکولر جمہوری فضاء میں آج اردو اور مسلمان دونوں ہی نشانے پر ہیں۔ دونوں کی حالت بھی خستہ نظر آتی ہے۔ پچھلے 50،60 سال کے عرصہ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مایوس کن حالات سے گذر رہی ہے۔ اس کی بے بسی اور بے کسی کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا۔ ان حالات میں جسٹس کاٹجو نے اردو تہذیب کے احیاء کا جو بیڑہ اٹھایا ہے جہاں اس سے ایک امید کی کرن چمک اٹھی ہے وہیں ان کی سیاسی، سماجی بصیرت اور ان کی دور اندیشی نے ملک میں آزادی کے بعد سے پید شدہ مخالف اردو فضاء کو اپنی حکمت عملی سے قابو میں رکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ جسٹس کاٹجو اگر صرف اردو کے فروغ کا بیڑھ اٹھاتے تو نہ صرف اردو کے خلاف بلکہ ان کے خلاف بھی ملک میں فضاء بن جاتی۔ شائد اسی پس منظر میں انہوں نے اردو کے ساتھ سنسکرت کے احیاء کی بھی مانگ کی ہے اور تیسری سے ساتویں جماعت تک اردو اور سنسکرت کو لازمی زبان کے طورپر مدارس میں رائج کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جسٹس کاٹجو کا نقطہ نظر یہ ہے اردو اور سنسکرت تہذیبی زبان رہی ہے۔ چوں کہ یہ دونوں زبانیں بھی ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ ان کے خیال میں صرف ایک چھوٹا سا طبقہ جو سنسکرت کی ہندو ازم سے مربوط کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے لیکن وہ طبقہ ہے جو خود کو ہندو اکثریت کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس طبقہ کا یہ دعویٰ خود کئی مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس وراثت کاروان میں اردو کے ساتھ سنسکرت کو فروغ دینے کی حکمت عملی سے ممکن ہے کہ یہ کارروائی اکثریت کیلئے پرکشش بن جائے اردو اور ہندی بولنے والوں کے درمیانی موقتی طورپر زبان کی بنیاد پر فاصلے گھٹ سکتے ہیں لیکن ہم اس چھوٹے سے بطقہ کی’ذہنیت،پر کیسے قابو پاسکتے ہیں؟ جسٹس کاٹجو کی قیادت میں اردو وراثت کاروان ملک میں سازگار ماحول پیدا کرتا ہے تو پھر حکومت کی سطح پر ان دو تہذیبوں سے وابستہ زبانوں کو عوامی اور قومی سطح پر فروغ دینے حکومت کو بھی عوامی دلچسپی سے عملی اقدامات کیلئے ترغیب مل سکتی ہے۔ تاہم جسٹس کاٹجو کی یہ تجویز کے مضمرات پر قومی سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ اس اندیشہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ سنسکرت زبان کو ہندو ازم کا ٹھیکہ دار بن بیٹھا ہے سنسکرت زبان کے فروغ کے بعد ملک کی قومی زبان قرار دینے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں اردو کی بقاء کیلئے کئی تحریکیں چلائی جاتی رہیں۔ تاہم اس کے کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آسکے سوائے یہ کہ حکومت نے اردو کے نام پر ریاست میں کئی ایک ادارے کھولے گئے۔ اکیڈیمیاں قائم کی گئیں اور حکومت نے اردو فروغ اور ادیبوں اور شاعروں کو ترغیب دینے کیلئے ان اکیڈیمیوں کیلئے رقمی گنجائش بھی مہیا کی۔ آج بھی ملک کی مختلف ریاستوں میں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن جہاں تک اردو ذریعہ تعلیم کا سوال ہے یہ نظام بہت کمزور ہوگیا ہے اس کیلئے سرپرست بھی ذمہ دار ہیں اور اساتذہ بھی۔ نتیجہ میں آنے والی نسلیں اردو سے مکمل طورپر محروم ہوجائیں گی۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر ہم اردو والوں کو سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا اور یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں ہی اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اس کا کوئی وجدان نہیں رکھتے۔

Justice Katju and Strategy to promote Urdu

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں