مدرسہ جدید کاری منصوبہ - بدنیتی کی نذر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-28

مدرسہ جدید کاری منصوبہ - بدنیتی کی نذر

کون ہے ذمہ دار؟کس کی ہے سازش؟
مدرسہ جدیدکاری اسکیم'ایس پی کیوای ایم'دفن ہونے کی گگارپر!
خامی یابدنیتی؟:سال 2013/میں ایس پی کیو ای ایم سے استفادہ کرنے والے دینی مدارس کی تعدادحیرت انگیزحدتک گھٹ کرنیچے آگئی
سہیل اخترقاسمی
نئی دہلی:ماڈرن ایجوکیشن کوملک کے مختلف حصوں میں چل رہے دینی اداروں کاحصہ بنانے کے لئے مرکزی حکومت نے بڑے زوروشورسے سال 09۔2008/کے لئے اسکیم ٹوپرووایڈکوالیٹی ایجوکیشن ان مدارس(ایس کیوپی ای ایم )لانچ کی تھی؛جو4/برس کامختصرعرصہ گزرنے کے بعدبدنیتی اوربنیادی خامیوں کاشکارہوکردفن ہونے کی گگارپرپہونچ گئی ہے ۔وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے 3/سال پرمشتمل ایک رپورٹ میں ایس پی کیوای ایم سے استفادہ کرنے والے دینی مدارس کی جوتفصیل بیان کی گئی ہے اس نے حیرت انگیرحدتک مختلف ریاستوں میں مستفیدین کی صفرہوتی تعدادکی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ خوداسکیم کے وجودکے لئے خطرہ کی دستک دے دی ہے۔خطرہ کی یہ دستک واضح طورپریہ اشارہ دے رہی ہے کہ اگرایس پی کیوای ایم کے نفاذمیں خوشی نیتی کامظاہرہ نہیں کیاگیاتویہ اسکیم بناء پھل دئے اپنی موت آپ مرجائے گی۔
اعدادوشمارکے مطابق سال 10۔2009/میں مختلف ریاستوں میں ایس پی کیوای ایم سے استفادہ کرنے والے دینی مدارس کی تعداد1979/تھی جوسال 11۔2010/میں حیرت انگیزطورپربڑھ کر5045/ہوگئی۔سال 12۔2011/میں استفادہ کنندہ مدارس کی تعدادبڑھ کرمزید5934/ہوگئی؛مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ یہی تعدادسال 13۔2012/میں گھٹ کرسنگین طورپر1348/پہنچ گئی جوکہ سال 10۔2009/میں دینی مدارس کی تعدادسے بھی بے پناہ کم تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 13۔2012/میں مختلف ریاستوں میں ایس پی کیوای ایم کاجوحشرہواہے اسکی مثالسابقہ سالوں میںبھی نہیںملتی۔تفصیلات کے مطابق 10۔2009/میں5/ریاستوں (چنڈی گڑھ،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش،تری پورہ اوراترپردیش)کے مدارس نے ایس پی کیوای ایم کی اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔سال 11۔2010/میں ایک درجن ریاستوں (12/ریاستوں)میں چل رہے دینی مدارس نے ایس پی کیوای ایم سے استفادہ کیا۔اسی کے ساتھ یہ تعدادسال 12۔2011/میں گھٹ گئی اورایسی ریاستوں کی تعداد جہاں دینی مدارس اسکیم سے فائدہ اٹھارہے تھے؛کی تعداد7/ہوکررہی گئی جوکہ سال 13۔2012/میںصرف 3/ریاستوں(مدھیہ پردیش،راجستھان اوراترپردیش) تک محدودہوکررہ گئی۔
قابل ذکرہے کہ ستمبر2012/کے پارلیمانی اجلاس میں مرکزی وزیرمملکت برائے فروغ انسانی وسائل(ایچ آرڈی) سشی تھرورنے ایس پی کیوای ایم کے کامیاب نفاذکادعویٰ کیاتھاجوتازہ اعدادوشمارکے مطابق اب آنکھوں میں دھول جھونکنے والاثابت ہوگیاہے۔موصوف وزیرنے کہا تھاکہ ایس پی کیوای ایم سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادبڑھ رہی ہے۔جس کے لئے انہوں نے اعدادوشمارکے اس حصہ کوپیش کیاتھاجوایس پی کیوایم کے لئے زریں حصہ کی حیثیت رکھتاتھا۔
ایس پی کیوای ایم کے لئے تشکیل کردہ قومی مشاورتی کمیٹی کے ممبرمولاناولی رحمانی نے نمائندہ انقلاب سے ایس پی کیوای ایم کی ناکامی کے لئے ریاستوں کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کی واضح بدنیتی کوذمہ دارقراردیاہے۔انہوں نے بتایاکہ میری اورپروفیسرحلیم وغیرہ کے ذریعہ ترتیب دئے گئے پروگرام ایس پی کیوای ایم کاتعارف سابق مرکزی وزیربرائے فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ کے ہاتھوںہواتھا؛جس کامقصدنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ(این آئی اوایس)کے تحت دینی مدارس،مکاتب اوردینیات پڑھانے والے اداروں کوسائنس،کمپیوٹراورماڈرن ایجوکیشن فراہم کرناتھا۔اسی کے تحت دینی مدارس میں جدیدتعلیم کے فروغ کے لئے درسی مشمولات بھی فراہم کرناتھا۔اس اسکیم پرکئی ریاستوں کی جانب سے مثبت کاروائی ہوئی مگرزیادہ یوٹیلائزنہ ہونے کی وجہ سے اس کاخاطرخواہ فائدہ نہیں ہوپایاتھا۔انہوں نے کہاکہ ایس پی کیوای ایم کی ناکامی کے لئے براہ راست کانگریس کی سرکارذمہ دارہے۔
جبکہ ایچ آرڈی کے ذریعہ تشکیل کردہ اقلیتی تعلیم پر نگراں کمیٹی کے ذمہ داراورسینئرماہرتعلیم پروفیسراخترالواسع نے ایس پی کیوای ایم کی ناکامی کے لئے حکومت کی بے توجہی ساتھ ساتھ ارباب مدارس کی عدم دلچسپی کوبھی وجہ قراردیاہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں بھی اپنی سطح پربیداری کاثبوت پیش کرناچاہئے۔انہوں نے نمائندہ کے ذریعہ پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ میں یہ مانتاہوں کہ ایس پی کیوای ایم کے پروسس کی نگرانی کے لئے کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں زیادہ ترمدارس اوراقلیتی امورسے وابستہ لوگ شامل ہیں؛جوبجائے قوم کے لئے کام کرنے کے اپنے لئے کام کرتے ہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہمیں اپنی خامیوں کی طرف خوشدلی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اوراسے دورکرنے کی عملی ترکیب کرنی چاہئے۔

سہیل اختر قاسمی

Central govt scheme for Islamic institutions, according to a HRD report figure of beneficiaries decreased this year

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں