تاریخی ہگلی مدرسے کا غیر یقینی مستقبل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-22

تاریخی ہگلی مدرسے کا غیر یقینی مستقبل

تاریخی ہگلی مدرسہ نہ صرف قوم ملت کا اثاثہ ہے بلکہ مسلمانوں کی شناخت بھی ہے۔ محسن و قوم ملت محروم حاجی محمد محسن کا وقف کردہ اور مسلمانوں کا قدیم اثاثہ تاریخی ہگلی مدرسہ گذشتہ چند برسوں لایخل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ محاذی حکومت کے دور میں سابق وزیر اقلیتی بہبود ڈاکٹر عبدالستار کے ایما پر اس تاریخی مدرسہ کو انتظامی امور کیلئے ڈپارٹمنٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاگیا یعنی یہ تاریخی مدرسہ ڈائرکٹریٹ آف اسکول ایجوکیشن کے ماتحت چلتا تھا اور مدرسہ بورڈ کے تحت اس اسکول کے امتحانات ہوتے آئے ہیں لیکن اس کے باجود خالص سرکاری اسکول کے زمرے میں رہا۔ اس کے تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کے کی تقرری پبلک سرویس کمیشن کے تحت ہوتی آئی ہے مگر گذشتہ محاذی حکومت نے 2007ء میں کابینہ میٹنگ میں سابق وزیر اقلیتی امور ڈاکٹر عبدالستار کی تجویز پر کہ ہگلی مدرسہ ایک اقلیتی ادارہ ہے اس لئے اس کو مائناریٹی کے لحاظ سے ڈاکٹریٹ آف اسکول ایجوکیشن کے ماتحت سے نکال کر ڈائرکٹر یٹ آف مدرسہ ایجوکیشن محکمہ میں منتقل کردیا جائے۔ اسی محکمہ جاتی تبدیلی کا بہانہ بناکر اس تاریخی مدرسہ کو خالص سرکاری حیثیت سے سرکاری امدادیافتہ اسکول کے زمرے میں لادیا گیا۔ محکمہ جاتی تبدیلی کا کام مکمل کرتے ہوئے تمام تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کا تبادلہ کرنے کا سرکاری ہدایت نامہ مارچ2009 ء میں جاری کیا گیا جس کے مطابق 6 اساتذہ کا دوسرے اسکولوں میں تبادلہ کردیا گیا۔ اسی اثناء مائناریٹی تنظیموںکی جانب سے ہنگلی مدرسہ کے سامنے اپریل میں لگاتار ایک ہفتہ تک دھرنا دیا گیا اور احتجاج کیا گیا کہ مدرسہ میں ٹیچروں کا متبادل انتظام کئے بغیر کسی کا تبادلہ نہیں کیا جائے۔ اس تحریک میں اس وقت کے مقامی ترنمول کانگریس کے لیڈروں نے بھی شرکت کی تھی اور جمعیت العلماء کے ریاستی صدر صدیق چودھری بھی اس تاریخی مدرسہ کے بچاؤ میں آگے آئے تھے زور دار تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ بقیہ 8 ٹیچروں اور غیر تدریسی اسٹاف کا تبادلہ حکم ثانی تک روک دینے کی سرکاری ہدایت کردی گئی اور کہا گیا کہ متبال انتظام کئے بغیر کسی کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ آج 4 سال کا عرصہ گذر گیا اور محاذی حکومت کا خاتمہ بھی ہوگیا اور ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کی حکومت قائم ہوگئی۔ ممتا حکومت بھی قائم ہوئے 20ماہ ہوگئے لیکن اس تاریخی مدسہ کے تعلق سے اب تک کوئی فیصلہ مستقل حل سامنے نہیں آیا ہے۔ حالانکہ ترنمول کی طرف سے بھی اس تاریخی مدرسہ کے مسئلہ کو حل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گذشتہ سال اکتوبر ماہ میں دے گنگا کے ترنمول ایم ایل اے اور ریاستی حکومت کی قائم متعدد کمیٹی کے مشیر ڈاکٹر ایم نورالزماں نے کہا تھا کہ تاریخی مدرسہ کبھی بند نہیں ہوگا۔ اور نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا بلکہ جلد ہی اس کا مستقل حل نکالا جائے گا لیکن اب تک اس کا مسئلہ جوں کا توں بنا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈائرکٹر آف اسکول ایجوکیشن راجیش کمارسنگھ نے تاریخی مدرسہ کی انتظامی کمیٹی کو بتایا ہے کہ جلد ہی بقیہ تمام اساتذہ اور غیر تدریسی اسٹاف کا تبادلہ دوسرے اسکولوں میں کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ آخر کب تک اس کو روک کر رکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ متبادل ٹیچروں کا انتظام کرنے کیلئے 10 جولائی 2010ء کو ہی ڈی ایم ڈائرکٹر آف مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو فائل بھیج دی گئی لیکن اب تک وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ اس لئے امروز فردا میں تمام اسٹاف کا تبادلہ دوسرے اسکولوں میں کردیا جائے گا۔ ایسی صورت میں جو بھی بچے قلیل تعداد میں ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور تاریخی ہگلی مدرسہ کا مستقبل کیا ہوگا؟ کسی کو کچھ خبر نہیں ہے۔ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ تبادلہ نہیں ہونے کی وجہہ سے ان کا تمام سروس بک کام ٹھپ ہوگیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت انہیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور ان کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اس تاریخی مدرسہ کے تعلق سے کوئی بھی اردو تنظیم اب تک آگے نہیں بڑھی ہے۔ حتی کہ مسلم ایم ایل اے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے بھی اس بابت کوئی توجہ نہیں دی۔ کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ تاریخی ہگلی مدرسہ کے تعلق سے اسمبلی میں آواز اٹھائی جائے۔ متعدد مسائل کا ذکر اسمبلی میں کیا جاتا ہے لیکن تاریخی قدیم ہگلی مدرسہ سے متعلق اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے اور نہ ہی ممتا حکومت اور وزیر تعلیم سے اس بارے میں بات چیت کی جارہی ہے آخر یہ کام کون کرے گا۔

uncertain future of historic hooghly madarsa

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں