ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:8 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-23

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:8


ونود کو دیکھتے ہی پروفیسر تارک ناتھ مسکرانے لگے ۔ انہوں نے کہا "میں نے اب تک آپ کی حویلی کے سلسلے میں کوئی نئی بات نہیں معلوم کی ہے "۔
"لیکن میں نے اک نئی بات معلوم کر لی ہے "۔ ونود نے کہا اور پروفیسر کے سامنے کتاب رکھ دی۔ اس کے بعد اس نے پروفیسر کو بھی پوری داستان سنادی۔
پروفیسر نے اس کی حیرت ناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان سن کر پوچھا" آپ کو پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں شاتو ہی کی تصویر ہے ؟
"جی ہاں ...." ونود نے کہا "آپ نے صرف بت کو دیکھا ہے اور میں تو شاتو کو ایک زندہ وجود کے روپ میں دیکھ چکا ہوں ۔ میری نظریں دھوکہ نہیں کھا سکتیں "۔
ونود نے مزید کہا "آپ یہ پوری کتاب پڑھ لیں اور مجھے مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ میں فوری طورپر آپ کا مشورہ چاہتا ہوں "۔

"میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا مسٹر ونود..." پروفیسر تارک ناتھ نے بڑی ہمدردی سے کہا "میں تاریخ کا پروفیسر ہوں اور بھوتوں کو بھگانے کا کوئی منتر نہیں جانتا، میرا اپنا خیال ہے کہ شانتا نے آپ کو بالکل صحیح مشورہ دیا ہے ۔ آپ فوراً یہ حویلی خالی کر دیں "۔
"لیکن پروفیسر صاحب..." ونود نے کہا "میرے حویلی خالی کر دینے سے کیا وہ بھوت جو شانتا کو اپنی بیوی کہتا ہے اس کا تعاقب نہیں کرے گا؟"

پروفیسر تارک ناتھ کے پاس ونود کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ چند منٹ کیلئے خاموش ہو گئے ، جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں ، انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا "میرا خیال ہے کہ راجہ بلونت سنگھ نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا ہو گا، اور بھائی کی بیٹی شاتو کی روح کی بے چینی کا سبب یہی ہے "۔
"میں آپ کی یہ بات مان لیتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ شاتو کا بت ٹھیک بارہ بجے زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟ شانتا کو کسی مرد کی آواز کیوں سنائی دیتی ہے ؟"
"یہ شاتو ہی بتاسکے گی"۔ پروفیسر تارک ناتھ نے کہا "وہ یقیناً آج رات بھی آپ سے ملنے آئے گی۔ ابھی تو اس نے اپنی نامکمل داستان ہی سنائی ہے اور وہ یہ داستان ضرور پوری کرے گی، بہرحال ..."
تارک ناتھ نے مزید کہا "میں شام سے قبل آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا، اور آج رات آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، شام تک میں اس کتاب کا مطالعہ بھی ختم کر دوں گا۔ ہو سکتا ہے یہ کتاب آپ کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔

اب ونود نے پروفیسر سے ایک بالکل انوکھا سوال کیا" کیا آپ بھی بھوتوں کے قائل ہیں پروفیسر صاحب؟"
"ہاں۔۔۔۔" پروفیسر نے جواب دیا "لیکن اس کے ساتھ میرا یہ بھی یقین ہے کہ بھوت پریت انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، کیونکہ انسان ان سے زیادہ طاقت ور ہیں انسان ان سے افضل ہیں"۔
ونود نے اس کے بعد کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔ وہ جانے کے لئے اٹھ گیا چلتے چلتے اس نے کہا "میں آپ کا انتظار کروں گا پروفیسر صاحب"۔
ونود جانے لگا تو پروفیسرنے اس سے کہا "آپ کے تمام مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ آپ ابھی اور اسی وقت اس بت کو دوبارہ کنویں میں پھینک دیں"۔
"نہیں پروفیسر صاحب" ونود نے کہا "میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ میں شاتو کی روح کو مزید بے چین کرنا نہیں چاہتا۔ میں اس کو قرار پہنچانا چاہتاہوں۔ میں اس کو ابدی سکون دلادینا چاہتا ہوں میں حویلی کے اسرار کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردینا چاہتا ہوں۔۔۔
ونود اتنا کہہ کر پروفیسر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔

ونود پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کررہا ہے غیر ارادی طورپر کررہا ہے کوئی انجانی قوت اس کو اپنے قابو میں کرچکی ہے وہ کسی اَن دیکھی قوت کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔
دوگھنٹے تک ونود بالکل بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ اسی اثناء میں اس نے ایک خط لکھا اور فوری طورپر مجھے بھی اگات پور طلب کرلیا۔ لیکن اس نے مجھے بلانے میں بہت دیر کردی۔ وہ اگر مجھے دو دن پہلے ہی خط لکھ دیتا تو شاید اس کی آپ بیتی مختلف ہوتی اور وہ وقت سے پہلے بوڑھا نہ ہوجاتا۔
ونود نے مجھے خط لکھا اور پھر ایک تار بھی روانہ کردیا۔
مجھے خط لکھنے کے بعد جیسے اسے ایک سکون سا مل گیا تھا۔ حالانکہ میں جادوگر نہیں تھا جو اگات پور پہنچتے ہی اس کو اس سیلاب حوادث سے نکال لیتا جس میں وہ گھر چکا تھا لیکن میں اس کا دوست ضرور تھا اور مصیبت میں دوستوں کو ہی آواز دی جاتی ہے۔

یہاں میں اپنے اور ونود کے بارے میں ایک اور داستان بھی لکھ دینا چاہتا ہوں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ونود میرا بچپن کا دوست تھا اور ہم دونوں نے ساتھ ہی تعلیم پائی تھی لیکن دوستی کے علاوہ بھی میرا دوست سے ایک اور رشتہ تھا۔ ایک بڑا ہی نازک اور بڑا ہی درد ناک رشتہ ایک ایسا رشتہ جس نے چند سال قبل وقتی طورپر ہماری دوستی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔
اس سلسلے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ونود اس رشتہ سے بالکل بے خبر رہا اور اسے آج تک میرے اور اس کے رشتے کا کوئی علم نہیں ہے ورنہ شائد وہ میری دوستی کا خاطر شانتا سے شادی نہ کرتا۔ میں نے بھی مصلحتاً اس کو اس رشتہ سے بالکل بے خبر رکھا۔
آج شانتا ونود کی بیوی ہے لیکن ونود کو بالکل نہیں معلوم کہ کبھی شانتا میری محبوبہ تھی۔

شانتا کے والد سے میرے والد کی دوستی تھی اور یہ دوستی رشتہ داری میں تبدیل ہو چکی تھی۔ میں شانتا کے والد کو چچا کہتا تھا اور بچپن سے ہی ان کے گھر آتا جاتا تھا۔ شانتا کا اور میرا بچپن ایک ساتھ جوانی کی حدوں میں داخل ہوا تھا۔ اور جوان ہونے کے بعد میں شانتا سے وہ دلچسپی لینے لگا تھا جس کو محبت کا نام دیا جاتاہے۔ شانتا بھی مجھے پسند کرتی تھی دل ہی دل میں ہم دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
لیکن اچانک شانتا کے والد کا ایک دوسرے شہر میں تبادلہ ہوگیا اور اس تبادلے نے مجھے اور شانتا کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔ جدائی سے پہلے میں شانتا سے تنہائی میں ملا میں نے اس سے کہا "شانتا میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا" اس کے آگے میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا ایک طالب علم جس نے زمانے کا نشیب و فراز نہ دیکھا ہو، اس کے آگے اور کہہ بھی کیا سکتا تھا؟
شانتا نے جواب میں کہا "میں بھی تمہیں یاد رکھوں گی" اتنا کہہ کر وہ رونے لگی اور میں شدت جذبات سے بے قابو ہوکر وہاں سے چلا آیا۔

شانتا اپنے گھر والوں کے ساتھ نئے شہر چلی گئی۔ جہاں ایک سال بعد اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے والد اپنے دوست کے مرنے کی خبر سن کر فوراً وہاں پہنچ گئے۔ وہ شانتا کے گھر والوں کو اپنے ساتھ لے آنا چاہتے تھے لیکن چوں کہ شانتا کے بڑے بھائی کو وہاں سرکاری ملازمت مل چکی تھی اس لئے وہ لوگ نہ آسکے نتیجہ یہ ہوا کہ میں ایک طویل مدت تک شانتا کو نہیں دیکھ سکا۔
اور پھر۔۔۔۔۔
ایک دن ونود نے مجھے ایک لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا "میری اس لڑکی سے شادی ہورہی ہے؟"۔
یہ تصویر شانتا کی تھی۔
میرا دل بے قابو ہوگیا۔
میں نے ونود سے کوئی تذکرہ نہیں کیا، صرف شانتا کو ایک خط لکھالیکن شانتا نے مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ونود کی برات میں میں بھی شامل تھا۔۔۔ اور میری موجودگی میں ہی شانتا ونود کے حوالے کی گئی تھی۔ میں صرف شانتا کو دیکھتا رہا تھا۔
شادی کے بعد ونود نے شانتا کی ملاقات مجھ سے کرائی اور میں نے اسے مبارکباد دی کہ اس کے مقدر میں اتنی خوبصورت بیوی لکھی تھی۔ دن گزرتے رہے۔ شانتا اور میں دن بدن دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم دونوں یہ بھول بھی گئے کہ کبھی ہم دونوں کو ایک دوسرے سے پیار تھا۔
بہرحال۔۔ میں بھی اپنی اس دستان کو بھی ادھورا ہی چھوڑتا ہوں۔۔۔۔

ونود جب شہر سے حویلی پہنچا تو شام ہونے میں دیر تھی۔ برآمدہ بالکل خالی پڑا تھا۔ وہ فوارے کے بت پرنظر ڈالتا ہوا شانتا کے کمرے میں داخل ہوا۔ اور پھر جیسے اس کے حلق میں اس کی چیخ گھٹ کر رہ گئی۔
کمرے میں شانتا بالکل دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اس کے جسم پر وہی لباس تھا جو تہہ خانے کے صندوق سے نکلا تھا۔ وہ صندوق کے ہی تمام زیور پہنے ہوئے تھی۔ یقیناً وہ اس وقت شانتا نہیں شاتو معلوم دے رہی تھی۔
اور۔۔۔۔
فضاء میں وہی خنجر لہرارہا تھا جس کے دستے پر راجہ بلونت سنگھ لکھا تھا اور جو مجھے ہڈیوں کے پنجر پر رکھا ملا تھا۔ شانتا اس خنجر سے بالکل بے خبر تھی۔ وہ آنکھیں بند کئے دلہن بنی بیٹھی تھی۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ شانتا کیوں دلہن بنی؟ خنجر فضا میں کیوں لہرا رہا تھا؟ شاتو کا بت روزانہ رات کو بارہ بجے کیوں زندہ ہوجاتا تھا؟ یہ جاننے کیلئے اگلی قسط ملاحظہ فرمائیے۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں