جس طرح ممبئی کے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کو 20 برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اسی طرح ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کوبھی بیس سال گزر چکے ہیں۔12 مارچ 1993 کو ممبئی میں سلسلہ وار 12 مقامات پر دھماکے ہوئے تھے ان میں بامبے اسٹاک ایکسچنیج کی 28 منزلہ عمارت کی بیسمیٹ میں دھماکہ بھی شامل تھا۔اس کے بعد بھی آج تک لوگوں کے ذہن میں اس حادثے کی یاد تازہ ہے اور زخم گہرے ہیں۔لوگوں کے دل دماغ سے آج بھی اس بلیک فرائڈے کا کالا دھواں نہیں چھٹ رہا ہے۔ان دھماکوں میں 257 لوگوں کی موت اور 700 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ان دھماکوں سے تقریبا 27 کروڑ سے زیادہ رقم کی املاک تباہ ہو ئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ملک نے سیریل بم بلاسٹ کے دہشت کو جھیلا تھا ۔ اس معاملے میں خصوصی ٹاڈا عدالت میں 686 گواہ پیش ہوئے اور تقریبا دس ہزار صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی اور 123 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ 2006 میں عدالت نے فیصلے سنایا تھا۔ 123 ملزمان میں سے 12 کو نچلی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی، 20 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جن میں سے دو کی موت ہو چکی ہے اور ان کے وارث یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ان کے علاوہ 68 افراد کو عمر قید سے کم کی سزا دی گئی تھی جب کہ 23 لوگوں کو بے گناہ پایا گیا تھا۔آزاد ہندوستان میں اب تک کا یہ سب سے پیچیدہ معاملہ خیال کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے بھی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی ہے ۔ یعقوب میمن کی موت سزا برقرا ررکھی ہے اور دس دیگر کی سزائے موت کو تاحیات عمر قید میں تبدیل کردی ہے اور کچھ کی سزائیں کم کی گئی ہیں لیکن یہ اتنا لمبا عرصہ ہوگیا ہے سزا کم کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ا بھی اس معاملے کا اہم ملزم داد ابراہیم اوردیگر پولس کی گرفت سے باہر ہیں۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق ممبئی کو دہلانے کی ناپاک سازش میں انڈرورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم نے اپنے نیٹ ورک کا استعمال کرکے اس دھماکے کو انجام دیا تھا۔ عدالت نے بھی تسلیم کیا کہ ایک پولیس افسر اور کسٹم افسران کے علاوہ انڈر ورلڈ سے وابستہ کئی افراد اس واردات میں شامل تھے جنہوں نے جگہ جگہ آر ڈی ایکس سے بھری گاڑیوں کو پارک کیاتھا۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ گناہ عظیم تھا ظلم کا بدلہ لینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انسان کی جان لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور انسانی جان لینے والوں مساویانہ سزا ملنی چاہئے جو ہندوستان میں کبھی نہیں ہوتا۔ دراصل بمبئی بم دھماکہ کے محرکات کے لئے کوئی ذمہ دار ہے تو وہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے خاطیوں کی ٹولی ہے جو آج بھی نہ صرف بے روک ٹوک گھوم رہے ہیں بلکہ ایوان پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں براجمان ہیں۔ عدلیہ کو فیصلہ سناتے ہوئے ان محرکات کو مدنظر رکھنی چاہئے تھی۔
مسلمان بابری مسجد کی شہادت کا غم منابھی نہیں پائے تھے کہ ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کرکے نہ صرف مسلمانوں کو قتل کیا گیا بلکہ مالی طور پر بدتر کرنے کے لئے دکانوں، مکانوں اور تجارتی اداروں کو آگ کے حوالے کردیاتھا۔ ممبئی میں تو دو مرحلوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ پہلا مرحلہ7 دسمبر سے 27 دسمبر1992 تک چلا تھا اور فساد کا دوسر ا مرحلہ7 جنوری سے 25 جنوری 1993تک چلا تھا۔ اس فساد کو آزادی کے بعد بھیانک ترین فسادات میں شمار کیا جاتاتھا۔ گجرات قتل عام کو چھوڑ دیں تو یہ فساد یقیناًمنظم طور پر برپا کیاگیا تھا جس میں سیاست، حکومت کے افسران، پولیس اہلکاروں میں کانسٹبل سے ڈی آئی جی رینک کے افسران فسادات میں ملوث پائے گئے تھے جس کا ذکر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔ ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا، بی جے پی اور آرایس ایس کے کارکنوں نے مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو سے جم کر کھیلواڑ کیا تھا۔ ممبئی ایسا شہر بن گیا تھا جہاں پر کئی اسپتال نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے منع کردیا تھا۔ان اسپتالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی پھر بھی ہم شان سے کہتے ہیں ہمارا ملک کثیر جمہوری ملک ہے۔ اس نفرت بھرے ماحول میں بالی وڈ اداکار سنجے دت کے والد سنیل دت بغیر کسی تفریق کے ہندو ہوں یا مسلمان فساد سے متاثرہ افراد کی مدد میں جی جان سے لگ گئے تھے اس کام میں سنجے دت بھی اپنے والد کا ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے ممبئی میں جگہ جگہ کیمپ لگاکر فساد متاثرین کی مدد کرتے تھے۔ شہر کی تنگ اور نفرت بھری گلیوں سے فساد متاثرین کو نکال کر اسپتال میں داخل کراتے تھے چونکہ زیادہ تر متاثرہ مسلمان تھے اس لئے انہیں مسلمانوں کا حامی کہا جانے لگا۔مسلمانوں کی مدد کرنے کے جرم میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں ملنی شروع ہو گئی۔ کئی بار سنیل دت پر حملے بھی ہوئے۔ ایک بار مشتعل ہجوم نے ان کی کار پر حملہ کیا تھاجس میں وہ بال بال بچے-سنجے دت کے خاندان کو دھمکی بھرے فون آنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔سنیل دت نے ان حملوں کی شکایت پولیس سے کی اور حفاظت کا مطالبہ کیا۔ یہاں تک کہ سنجے دت نے خود پولیس سے مدد طلب کی، لیکن انہیں سیکورٹی نہیں دی گئی۔تب پریشان سنجے دت نے یہ باتیں فلم پروڈیوسر حنیف کڑے والا اور سمیر ہنگورا کو بتائی۔ حنیف اور سمیر نے سنجے دت کو خود کار ہتھیار کا مشورہ دیا تاکہ مصیبت کی گھڑی میں وہ اس کا استعمال کر سکیں۔ سنجے دت تذبذب میں رہنے کے بعد آخر کار وہ راضی ہو گئے۔سنجے دت کو 15 جنوری 1993 کو ایک اے کے ۔56 پلس رائفلس مہیا کرایا گیا۔سنجے دت نے یہ بھی کہا تھا کہ جیسے ہی رائفلس کا کام ختم ہو جائے گا، انہیں لوٹا دیں گے۔ لیکن جب فسادات کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی تو سنجے دت نے حنیف اور سمیر سے رائفلس واپس لینے کی درخواست کی. لیکن جب انہوں نے رائفلس واپس لینے سے انکار کیا تو انہوں نے فلم صنم کی شوٹنگ بھی چھوڑ دی۔سنجے دت نے گھر پر ہتھیار ہونے کی بات قبول کر لی، یہ بات 28 اپریل، 1933 کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ضرور کہا تھاکہ انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے رکھا تھا۔وکیل کی صلاح پر سنجے دت نے نومبر 1994 میں اپنا وہ اقبالیہ بیان واپس لے لیا، جس میں انہوں نے ہتھیار رکھنے کی بات قبول کی تھی۔ اس بنیاد پر انہیں ستمبر 1995 میں ضمانت ملنے کی امید تھی، لیکن 14 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت نہیں مل سکی۔ اس وقت اداکار اور ممبر پارلیمنٹ شترگھن سنہا جو بی جے پی میں تھے، لیکن سنجے کی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی تھی اور کہا تھا کہ وہ بے قصور ہیں لیکن سنیل دت کو کامیابی اس وقت ملی جب وہ اپنے کٹر مخالف بال ٹھاکرے سے ملے کیوں کہ شیوسینا اس وقت اقتدار میں تھی۔ بال ٹھاکرے کی مداخلت کے بعد سنجے دت کو ضمانت ملی تھی۔سنجے دت کی اس وقت معافی کی مہم چل رہی ہے جس پر سنگھ پریوار اور اس کا سیاسی بازو چراغ پا ہے۔ ان کی نظرمیں ہر وہ شخص مجرم ہے جومسلمانوں کے لئے تھوڑی سی بھی ہمدردی رکھتا ہے۔ گزشتہ سال اسی طرح کے حالات سے مہیش بھٹ کے بیٹے راہل بھٹ کو گزرنا پڑا تھا کیوں کہ مہیش بھٹ مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اسی طرح تیستا سیتلواڈ اور دوسرے انسانی حقوق کارکن کو محض اس لئے لعن و طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ وہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔
ممبئی کا فساد کس قدر یکطرقہ اور حکومتی اہلکار کے زیر سرپرستی انجام دیا گیا ۔ اس پر پوری دنیامیں آواز گونجی تھی۔ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے انصاف کرنے کی گزارش کی تھی۔ 6 دسمبر 2002 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بابری مسجد کی شہادت کی دسویں برسی پر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کی حکومت مہاراشٹر سے اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ 1998میں رپورٹ کی پیشی کے باوجود ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔1788 افراد اس فساد ہلاک ہوئے تھے۔بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت نے اس کمیشن کو توڑ دیا تھا جب کہ کانگریس اور این سی پی حکومت نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ کانگریس کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت کی کبھی خواہش ہی نہیں رہی کہ ممبئی فسادات کے خاطیوں کو سزا دی جائے۔ اس کی نیت کا پتہ اس کی اس عرضی سے چلتا ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں داخل کی تھی۔ مہاراشتر حکومت نے 24نومبر 2002کو سپریم کورٹ سے 1993 کے ممبئی بم دھماکے سے تعلق شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ اس بنیاد پر مسترد کئے جانے کی اپیل کی تھی کہ اس واقعہ کو طویل عرصہ ہوگیا ہے اور اس سے نیا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں فسادات کے لئے پولیس افسران اور اس وقت کی شیو سینا ۔بی جے پی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے وکیل اشوک دیسائی نے چیف جسٹس جے بی پٹنائک، جسٹس کے جی بالا کرشنن اور جسٹس ایس بی سنہا کی ڈویژن کے سامنے کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کے لئے دائر کی گئی مختلف عرضیوں کی سماعت کے دوران یہ اپیل کی تھی۔مہاراشٹر حکومت نے ممبئی بم دھماکہ کے بارے میں یہ بات کیوں نہیں کہی تھی۔ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا ایم پی مدھوکر سرپوتدار کو اسلحہ کے ساتھ فوج نے گرفتار کیا گیا تھالیکن اس کا بال باکا نہیں ہوا۔ سنجے دت کو سزا ملی لیکن سرپوتدار کو ایک دیگر پارٹی ورکر کے ساتھ بہت شور مچانے کے بعد بہ مشکل 10جولائی 2008 کو ایک سال کی سزا ملی تھی سزا ملتے ہی انہیں ضمانت پر رہا کردیاگیا تھا۔ یہ ہے انصاف کرنے کا حکومت کا پیمانہ ۔اسے امتیاز ، تعصب اور دوہرا معیار نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔
ممبئی بم دھماکے ملزمین کو سزا دینے میں کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن اس بات پر اعتراض ضرور ہے ممبئی فسادات کے ملزمین کو بھی سزا دی جانی چاہئے ۔کیا انہیں اس لئے سزا نہیں دی جارہی ہے کہ وہ ہندو ہیں۔ یا فرقہ پرست پارٹیوں سے ان کا تعلق ہے۔ فسادات میں ملوث پولیس افسران کو محض اس لئے سزا نہیں دی گئی کہ اس سے ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹی وی نیوز چینلز اخبارات میں چلنے والی بحث میں ہر کسی نے بم دھماکے کے متاثرین کے لئے آنسو بہائے لیکن کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ممبئی فسادات متاثرین کے لئے بھی آنسو بہاتے یا ان کے دکھ درد جاننے کی کوشش کرتے ۔ توکیا اس مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو انسان کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا؟۔انصاف بھی ہندو اور مسلمان کا چہرہ دیکھ کر کیا جاتاہے۔ جب کہ ممبئی فسادات کے متاثرین کا درد بم دھماکوں کے متاثرین سے بڑا ہے ۔ اگر انسانی جانوں کا اتلاف ہی کسی بڑے جرم کاپیمانہ ہوتا ہے تو ممبئی فسادات کسی بڑے جرم کے زمرے میں کیوں نہیں آیا محض اس لئے مرنے والا مسلمان تھا۔
![]() |
عابد انور |
The muslims killed in mumbai riots were also human beings. Column: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں