اکبر اویسی کیس - مدعی علیہان کے وکلا کی بحث مکمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-13

اکبر اویسی کیس - مدعی علیہان کے وکلا کی بحث مکمل

جناب اکبر الدین اویسی قائد مجلس مقننہ پارٹی کی تقریر کے خلاف مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج کردہ ایف آئی آر کو یکجا کرنے کے مقدمہ میں آج 2مدعی علیہان کے وکلاء نے اپنی بحث مکمل کر لی۔ ہائیکورٹ میں جسٹس رمیش رنگاناتھن کے اجلاس پر مقدمہ نمبر 824/2013 کے تحت بحث میں حصہ لیتے ہوئے مدعی علیہہ کے وکیل وی بی جے پی کے ترجمان رامچند راؤ رکن بار کونسل نے تقریباً ایک گھنٹہ تک اپنے دلائل پیش کئے ۔ رامچندر راؤ نے عدالت کو تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ایک سے زائد مقامات پر مقدمات کا اندراج کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اکبر الدین اویسی کی تقریر سے تحقیقاتی ایجنسوں کیلئے کئی سوالات ابھر سکتے ہیں ۔ یہ تقریر کیوں اس وقت کی گئی اور اس تقریر کے بعد بم دھماکہ اور دیگر واقعات کیوں پیش آئے ۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے رامچندر راؤ سے سوال کیا کہ مثلاً اگر 100 پولیس اسٹیشنوں میں 100 شکایتیں درج کی جائیں توکیا کیا جائے ؟ اگر اک سے زائد مقدمات کا اندرج ہوتو ملزم کو ضمانت قبل ازوقت گرفتاری کیلئے کتنے مرتبہ آنا پڑے گا؟ انہوں نے دستور کے حوالے سے تفصیل پیش کرنے کی ہدایت دی۔ اس پر رامچندر راؤ نے عدالت کو بتایا کہ ہر مقدمہ کیلئے ہر مقام پر علیحدہ حاضر ہونا پڑے گا۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے کہاکہ نہ صرف مدعی علیہان بلکہ تمام فریقوں کے وکلاء عدالت میں یہ ثابت کریں کہ عدالت کا دائرہ اختیار کیا ہے اور عدالت کو اس سلسلہ میں تفصیلات پیش کی جائیں ۔ رامچندر راؤ نے کہاکہ ایف آئی آر مقدمہ کی معلومات کی فراہمی کا صرف پہلا ذریعہ ہے ۔ تحقیقاتی عہدیدار جو بھی قطعی رپورٹ تیار کریں گے اس میں وہ مزید دفعات کو بھی شامل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم ایف حسین کے خلاف درگا سرسوتی اور بھارت ماتا کی قابل اعتراض تصاویر کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ انہوں نے عدالت میں ایم ایف حسین کے مقدمہ کی تفصیل پیش کی۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے فاضل وکیل سے یہ جاننا چاہا کہ کیا عدالت نے کبھی اس طرح کے مقدمات میں مشترکہ تحقیقات کی ہدایت دی ہے ؟ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتوں نے کئی مقدمات میں جامع تحقیقات کی ہدایت دی ہے جب کہ دستور کی رو سے ایسی اجازت نہیں ہے ۔ رامچندر راؤ نے محکمہ داخلہ کے ایک قانون میں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں تفصیلات پیش کیں اور بتایاکہ اس میں انڈین پینل کورٹ کی دفعات میں محکمہ داخلہ نے 4!فروری 2013 کو آرڈنینس کے ذریعہ ترمیم کی ہے ۔ ایک اور مدعی علیہہ کی جانب سے سبا راؤ نامی ایڈوکیٹ نے تقریباً ایک گھنٹہ تک دلائل کے ذریعہ عدالت میں واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک منفرد مقدمہ ہے ، تاہم انہوں نے اس کی سماعت اور اس سلسلہ میں کسی بھی فیصلہ کو قبل ازوقت قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ اکبر الدین اویسی کی تقریر آج بھی سوشیل ویب سائٹس پر موجود ہے ، کوئی بھی اسے دیکھ سکتا ہے اور اس تقریر کے خلاف مزید مقدمات درج ہو سکتے ہیں اس لئے اگر انہیں گرفتاری کا خدشہ ہوتو وہ گرفتاری سے پہلے یا گرفتاری کے بعد عدالت سے رجوع ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جب تک اس مقدمہ کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں اور کوئی نتیجہ پر نہیں پہونچتے درخواست گذار (اکبر الدین اویسی) کو انتظار کرنا چاہئے ۔ وکلاء کی جانب سے قائد مجلس کی تقریر اور صحت کے بارے میں تفصیلات کی پیشکشی پر جسٹس رمیش رنگاناتھن نے کہاکہ یہ مقدمہ صرف دوسرے ایف آئی آر کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں ہے اس لئے صرف اسی مسئلہ پر تکنیکی بحث کی جائے ۔ معزز جج نے کہاکہ مثلاً آندھراپردیش کے مختلف علاقوں کے لوگ ریاست کی تقسیم یا اتحاد کے بارے میں اگر ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کریں تو لازمی طورپر یہ دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایسے میں ایک ہی نوعیت کے اگر کئی مقدمات درج ہوں تو کیا کیا جائے ؟ سباراؤ نے عدالت کو بتایا کہ اکبر الدین اویسی کی تقریر انہوں نے یوٹیوب پر دیکھی ہے ۔ ان کی یہ تقریر اظہار خیال کی آزادی سے تجاوز کرتی ہے اس لئے اس کے خلاف کئی مقدمات درج ہورہے ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ اس سے پہلے ایم ایف حسین نے قابل اعتراض پینٹنگس بنائے تھے تو اس کے خلاف ملک بھر میں 900مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ اس کے علاوہ ٹاملناڈو کی فلم اداکارہ خوشبو نے شادی سے قبل جسمانی تعلقات کے بارے میں تبصرے کئے تھے ان کے خلاف ملک کے مختلف مقدمات پر 22 مقدمات درج کئے گئے تھے تاہم اس میں سے صرف چند مقدمات کی سماعت ہو سکی۔ اکبر الدین اویسی کے خلاف 5یا6 مقدمات ہی درج کئے گئے ہیں ۔ سباراؤ نے کہاکہ درخواست گذار کو اپنا دفاع کا حق حاصل ہے لیکن وہ قانونی نظام کے خلاف شکایت کیسے کر سکتے ہیں کہ ایک سے زائد مقدمات درج نہ کئے جائیں ۔ معزز جج کی جانب سے مقدمات کو یکجا کرنے سے متعلق سوال پر سبا راؤ نے عدالت کو بتایا کہ دستور کے تحت تمام مقدمات کو یکجا کرنے کے بارے میں کوئی واضح ہدایات تو موجود ہیں تاہم غیر معمولی حالات میں حکومت مقدمات کو یکجا کرنے کے سلسلہ میں سرکاری احکام جاری کر سکتی ہے ۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے فریقین کے وکلاء کو بتایاکہ وہ اس مقدمہ کی جلد ازجلد یکسوئی چاہتے ہیں اس لئے اس سلسلے میں انہیں فریقین کا تعاون بھی درکار ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وکلاء اگر انہیں روزانہ وقت دیں تو وہ اس مقدمہ کی سماعت بہت جلد مکمل کر دیں گے ۔ عدالت نے آ’ندہ سماعت جمعہ کو مقرر کی تاہم انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے بھی اگر فریقین کے وکلاء دستیاب ہوں تو اس کی سماعت کیلئے تیار ہیں ۔

Akbar owaisi hate speech case debate in A.P highcourt

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں