اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی نظام آباد کے زیراہتمام کل ہند مشاعرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-19

اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی نظام آباد کے زیراہتمام کل ہند مشاعرہ

مصلحت اس کی ہے انسان کافاقہ ورنہ
رزاق پتھر میں بھی کیڑوں کو غذا دیتا ہے

اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی نظام آباد کے زیراہتمام کل ہند مشاعرہ
باذوق سامعین کے درمیان شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا

12/جنوری2013ء کی شام اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی نظام آباد کے زیراہتمام عظیم الشان پیمانہ پر شہر کے سب سے خوبصورت مقام راجیو گاندھی آڈیٹوریم پر کل ہند مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ ہلکی ہلکی سردی اور خوشگوار موسم کے درمیان محبان اردو جوق در جوق مشاعرہ سے محظوظ ہونے راجیو گاندھی آڈیٹوریم کی جانب کھینچے چلے آ رہے تھے ۔ مشاعرہ کے آغاز سے قبل ہی آڈیٹوریم پرجوش باذوق سامعین سے کھچا کھچ بھرچکا تھا۔ شہ نشین پرصدر مشاعرہ جناب سید نجیب علی ایڈوکیٹ، صدر استقبالیہ جناب اشفاق احمدخان، مہمانانِ خصوصی جناب ڈی راجیشور ایم ایل سی، جناب ڈی سریندر سکریٹری پی سی سی، جناب این رتنا کر سکریٹری پی سی سی، جناب ایس اے کریم، جناب محمد عبدالقدوس،جناب عمر عبدالستار،جناب یٰسین صابری، جناب نوید اقبال، جناب محمد فیاض الدین، جناب طارق انصاری، جناب ڈاکٹر ظہور الحق، جناب سید صادق اور جناب محمد اعجاز(ساگر) اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے ۔ استقبالیہ کمیٹی کے اراکین جناب جمیل احمد، افتخار احمد، سید ساجد علی، مصعب خان، رضی شطاری، رضی الدین اسلم، ڈاکٹر سمیع امان، سمیر احمد، محمد بلیغ احمد، محمد عارف الدین، محمد اعجاز احمد، محمد افتخار، محمد عبدالرحیم، مختاراحمد، محمد شفیع، محمد شبیر، محمد فیروز اور سید احمد کامیاب انتظامات کے بعد شہ نشین پر اپنی اپنی جگہ سنبھال چکے تھے ۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں مشاعروں نے غیر معمولی رول انجام دیا ہے۔ اردو زبان اپنی شیرینی اور لطافت کے ذریعہ اور شاعری فکر وفن کے ذریعہ حالات اور احساسات کی ترجمانی کرتی رہی ہے۔ ادبی اقدار کے تحفظ اور معیار کی برقراری کی آج شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی نظام آباد کی جانب سے منفرد نوعیت کے مشاعرہ میں اسی امتزاج کو محسوس کیا گیا ۔ 12!جنوری کو منعقدہ اس یادگار مشاعرہ میں جہاں ملک کے ممتاز نامور شعراء نے اپنی شرکت اور شاعری کے ذریعہ منفرد اسلوب میں حالات کی عکاسی کی اور اپین شاعری کے ذریعہ عصری مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے اپنی تخلیقات اور لب و لہجہ کے ذریعہ باذوق سامعین کے احساسات کی ترجمانی کی کل ہند مشاعرہ کیلئے جہاں ممتاز نوجوان شاعر اور معروف ناظم مشاعرہ جناب اشفاق اصفی نے ملک کے ممتاز شعراء کو مدعو کرتے ہوئے مشاعرہ کا اسٹیج سجایا تھا وہیں صدر مشاعرہ نے سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ اس مشاعرہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس مشاعرہ کی اہمیت،افادیت اور ضرورت سے واقف کروایا صدر مشاعرہ کا یہ دلچسپ ریمارک اور شستہ اردو میں اظہار خیال جس میں انہوں نے مشاعرہ میں معیاری شاعری کے فروغ، حقیقی معنی میں تخلیقی صلاحیت کے حامل اور اقدار کے تحفظ کیلئے شعراء کے کلام اور متشاعر قسم کے شعراء کی مشاعروں میں موجودگی خاتون شاعرات کی موجودگی سے مشاعروں معیار کے گھٹ جانے کے امور پر اظہار خیال کیا جس کو باذوق سامعین اور شعراء نے صد فیصد اتفاق کیا اردو زبان کی زبوں حالی کی شکایت ارباب اقتدار کی اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلہ میں عدم دلچسپی کے باوجود اردو شاعری اور زبان کی مٹھاس اور چاشنی نے عام افراد اور بالخصوص نوجوانوں کو متوجہ کرنے کو حوصلہ افزاء قرار دیا۔ ملک کے طول و عرض میں مشاعروں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ یہ مشاعرہ منفرد نوعیت کا حامل تھا جس میں خاتون شاعرات کی عدم موجودگی کو معیاری شعراء نے محسوس ہونے نہ دیا ۔ مشاعرہ کے انعقاد کیلئے رکن پارلیمان مدھوگوڑیاشکی کی دلچسپی بھی شامل رہی۔ جنا ب اشفاق اصفی کنوینر مشاعر ہ اور جناب سید ریاض تنہا معاون کنوینر مشاعرہ ملک کے مختلف گوشوں سے مشاعرہ میں شرکت کے لئے آئے ہوئے شعراء کرام جناب حبیب ہاشمی(کولکتہ)، شکیل جمالی(دہلی)، راجیش ریڈی(ممبئی)،عزم شا کری(آگرہ)، امی احمد آبادی، وجئے تیواری (بھوپال)، خالد نیر(امراوتی)، نعیم فراز(آکولہ)، فاروق شکیل(حیدرآباد)، صابر کاغذنگری، ٹیپیکل جگتیالی، کبیر احمدشکیل،شیخ احمدضیائؔاور میزبان شعراء کرام کو شہ نشین پر آنے کی دعوت دی اور صدر استقبالیہ نے گلدستے پیش کرتے ہوئے ان تمام شعراء کرام کا استقبال کیا۔ ٹھیک10بجے کنوینر مشاعرہ نے مشاعرہ کے آغاز کا اعلان کیا۔ سب سے پہلے صدر استقبال جناب اشفاق احمدخان نے استقبالیہ کلمات کہتے ہوئے تمام شعراء کرام، مہمانانِ خصوصی اور سامعین کا استقبال کیا اور کہاکہ ان تمام کی شرکت یقینا مشاعرہ کوکامیابی سے ہمکنار کر دے گی۔ جناب سید نجیب علی ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی خطاب میں مشاعرہ کی اہمیت اور دورِ حاضر میں اردو زبان کی ترقی و ترویج میں مشاعروں کے رول پر دانشورانہ اظہار خیال فرمایا اور ناظم مشاعرہ جناب اشفاق اصفی کو مشاعرہ کے آغاز کے لئے اجازت مرحمت فرمائی۔
ناظم مشاعرہ جنا ب اشفاق اصفی ؔجو ملک گیر سطح پر اپنی شناخت بنا چکے ہیں اور اپنے منفرد اندازِ نظامت اور شاعری کے ذریعہ اپنی اہمیت منوا چکے ہیں ۔ ابتدائی کلمات کے بعد انہوں نے سب سے پہلے صابر کاغذ نگری کو ان کی مشہور زمانہ مناجات پیش کرنے کی دعوت دی ۔ صابر کاغذ نگری نے اپنی کھنک دار آواز میں مناجات پیش کی اور سامعین نے انہیں دل کھول کر داد سے نوازا۔ صابر کاغذ نگری کی مناجات کے ان اشعار کو خصوصی طورپر پسند کیا گیا
کوئی جاہ دے نہ جلال دے مجھے صرف اتنا کمال دے
میں ہر ایک دل کی صدا بنوں کہ زمانہ میری مثال دے
میں بلندیوں پہ رہوں مگر، رہے پستیوں کی مجھے خبر
وہ عروج کر مجھے تو عطا جو کبھی نہ مجھ کو زوال دے
بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں نذرانۂ نعت پیش کرنے کے لئے ناظم مشاعرہ نے کولکتہ سے آئے ہوئے معروف شاعر حبیب ہاشمی کو مدعو کیا۔ جناب حبیب ہاشمی نے اپنے منفرد ترنم میں نعت شریف پیش کی۔ حبیب ہاشمی کے اس شعر پر کافی داد و تحسین سے نوازا گیا۔
یوں تو سب کچھ تھا یہاں شاہِ امم سے پہلے
صرف انسان نہ تھا ان کے کرم سے پہلے
مناجات اور نعت پاک کے بعد غزل کے دور کا آغاز کرتے ہوئے مقامی نوجوان شاعر رضی شطاری نے مترنم غزل پیش کی۔ رضی کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔
آتشِ الفت کو کر کے دل میں میرے شعلہ زن
اس طرح سے اس نے میرا دل منور کر دیا
عابد نظر کا تعلق برہانپور مدھیہ پردیش سے ہے انہوں نے اپنی غزلوں کے ذریعہ ایک سماں باندھا اور اپنی شعری فکر کا اظہار یوں کیا
اپنا لقمہ جسے کھلاتا ہوں
میں اسی سے فریب کھاتا ہوں
دو دن کی زندگی کے لئے سینکڑوں جتن
سب کچھ یہیں پہ چھوڑکے جانا پڑا مجھے
ناظم مشاعرہ نے اگلے شاعر کے طورپر بودھن سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر جنا ب کبیر احمد شکیل کو دعوتِ سخن دی۔ جناب شکیل کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔
ایسی دلیل دے کہ مخالف ہو مطمئن
ورنہ کسی بات سے مت اختلاف کر
بھرتے جاؤ بھرتے جاؤ بھرتی نہیں
یہ جھولی تو حرص و ہوس کی جھولی ہے
کبیر احمد شکیل اپنے حصہ کی داد سمیٹ کر لوٹے اور ناظم مشاعرہ نے مشاعرہ کے مزاج میں تبدیلی لانے کے لئے طنز و مزاح کے نمائندہ شاعر جناب ٹیپکل جگتیالی کو آواز دی۔ جناب ٹیپکل نے اپنے ان اشعارکے ذریعہ سامعین ک ومحظوظ کیا اور داد و تحسین سے نوازے گئے۔
اگرچہ دل میں مرے تو بسی نہیں ہوتی
خراب ایسی مری زندگی نہیں ہوتی
اگر یہ بات مری مان لیتی تو پہلے
یہ ٹیم بچوں کی اتنی بڑی نہیں ہوتی
ناظم مشاعرہ نے مشاعرہ کا رخ سنجیدگی کی جانب موڑنے کے لئے ملک کے نامور شاعر جناب اُمی احمد آبادی کو دعوتِ سخن دی۔ امی احمد آبادی نے اپنی بہترین شاعری کے ذریعہ مشاعرہ کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔ ان کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔
مصلحت اس کی ہے انسان کا فاقہ ورنہ
رزق پتھر میں بھی کیڑوں کو خدا دیتا ہے
ایک روٹی مرے کنبہ کے لئے کافی ہے
میرے اللہ اگر اس میں تو برکت رکھ دے
مری غربت کے گرا ادی مری عظمت ورنہ
زباں سے جو مری نکلے وہی دستور ہو جائے
ناظم مشاعرہ نے فنکارانہ انداز میں مقامی اور غیر مقامی شعراء میں توازن برقرار رکھتے ہوئے ایک مقامی شاعر رحیم قمر کو کلام سنانے کے لئے مدعو کیا۔ رحیم قمرؔ نے اپنے بہترین اشعار سے مشاعرہ کے ماحول کو برقرار رکھا اور کافی داد بٹوری۔ ان کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔
ابر بر ساتھ سمندر سے یہ آواز آئی
ان ہی قطروں نے بنایا ہے سمندر مجھ کو
دبستانِ عدیل کے نمائندہ شاعر فاروق شکیل نے اگلے شاعر کے طورپر مائک سنبھالا اور اپنی فکر انگیز شاعری کے ذریعہ مشاعرہ کے ماحول کو گرمادیا۔ سامعین نے فاروق شکیل کے ان اشعار پر دل کھول کر داد و تحسین سے نوازا۔
ہنسی اڑاؤ نہ تم میری خستہ حالی کی
حلال رزق بڑی مشکلوں سے ملتا ہے
زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی ہم کو مگر
حادثہ میں بچ گئے تو زندگی اچھی لگی
فاروق شکیل کی خالص ادبی شاعر ی نے مشاعرہ کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کے بعدبھوپال سے آئے ہوئے نامور شاعر وجئے تیواری کو ناظم مشاعرہ نے بڑے ہی اعتماد سے دعوت سخن دی۔ وجئے تیواری نے کافی اچھی شاعری پیش کی اور سامعین کے ذہن و دل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان کے ان اشعار پر کافی داد ملی۔
بڑے لوگوں کی دعوت میں فقیروں کی بھی شرکت ہے
امیرِ شہر کو شاید دعاؤں کی ضرورت ہے
کبھی حرام کی دولت کو گھر میں مت لانا
جو چاہتے ہو کہ اولاد سر اٹھاکے چلے
آج کل بیٹی کا سسرال سے میکہ آنا
جیسے اک قیدی کو پیرول دیا جاتا ہے
وجئے تیواری کے بعد امراوتی سے آئے ہوئے ایک نوجوان شاعر خالد نیئر نے مائک سنبھالا اور یوں گویا ہوئے۔
بناؤ حافظِ قرآن ہر اک بچے کو
قرآن پڑھنے سے کنبہ چمکنے لگتا ہے
خالد نیئر کے بعد آکولہ مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے نعیم فراز نے اپنی غزلوں کے ذریعہ اپنی شعری فکر کو سامعین سے منوایا۔ ان کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا۔
کیا خبر تھی کہ بدل جائیں گے موسم کی طرح
میری آواز میں آواز ملانے والے
مشاعرہ جب کافی سنجیدہ ماحول میں پہنچ گیا تب ناظم مشاعرہ نے مشاعرہ کے مزاج کو بدلنے کے لئے ضلع نظام آباد کے نمائندہ مزاحیہ شاعر جناب شیخ احمد ضیاء کو سامعین کے حوالے کیا۔ شیخ احمد ضیاء نے مزاحیہ قطعات اور مزاحیہ غزل سے سامعین کو کافی محظوظ کیا اور داد و تحسین سے نوازے گئے ۔ ضیاء کے ان قطعات کو کافی پسند کیا گیا۔
ادھر جاری عبادت ہے ادھر رشوت بھی جاری ہے
ہے ماہر لوٹنے میں اور خدا کا ڈر بھی طاری ہے
ہے ایسا حال کیوں پوچھا تو اس نے یوں کہا مجھ سے
"یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے "
شادی کے لئے جھٹ سے جو تیار ہو گیا
لگتا ہے زندگی سے وہ بیزار ہو گیا
خوشبوئے زلفِ یار کی کیا تاب لائے گا
سہرے کے پھول سونگھ کے بیمار ہو گیا
اب باری تھی، اس شاعر کی جو نظامت کے منصب پرفائز تھا۔ جناب شکیل جمالی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں جناب اشفاق اصفی کو دعوتِ کلام دی۔ اشفاق اصفی نے اپنی شاعری کے ذریعہ مشاعرہ میں جان ڈال دی اور کافی داد و تحسین سے نوازے گئے ۔ ان کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔
بہ نامِ صلح بھی کیا کیا نہ ہم پہ وار ہوئے
ہر ایک زخم ابھی تک علاج پوچھتا ہے
وہ سجدہ کرکہ منور جبین ہو جائے
تری جبین سے روشن زمین ہو جائے
اگلے شاعر کے طورپر ناظم مشاعرہ نے ادارہ ادب اسلامی کے ریاستی سکریٹری اور نامور شاعر و ناظم مشاعرہ جناب ریاض تنہا کو دعوت سخن دی۔ ریاض تنہا نے اپنی فکر انگیز شاعری کے ذریعہ سامعین تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے ان اشعار کو کافی سراہا گیا۔
مرے گھر میں ترے آنے سے پہلے
اجالا تھا مگر اتنا نہیں تھا
نہ دیکھو کون ہے یہ کرنے والا
یہ دیکھو کام وہ کیا کر رہا ہے
اب ممبئی سے تشریف لانے والے شاعر راجیش ریڈی نے مائیک سنبھالا اور یوں گویا ہوئے۔
یوں دیکھئے تو آندھی میں بس اک شجر گیا
لیکن نہ جانے کتنے پرندوں کا گھر گیا
شام خالی ہاتھ جب بھی اپنے گھر جاتا ہوں میں
مسکرادیتے ہیں بچے اور مرجاتا ہوں میں
راجیش ریڈی نے اپنی پرکیف شاعری سے مشاعرہ کو بلندیوں تک پہنچادیا اور سامعین سے کافی داد و تحسین سے نوازے گئے۔ راجیش ریڈی کے بعد صابر کاغذ نگری نے مائک سنبھالا اور شاندار غزلیں پیش کیں ۔ ان کے ان اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔
کہیں وہ زعمِ خوری میں خدا نہ بن بیٹھے
کسی بھی شخص کا اتنا طواف مت کرنا
تم کو بھی جلادے گی یہ آگ تعصب کی
محفوظ نہیں تم بھی اب اپنے مکانوں میں
عزم شا کری جن کا تعلق آگرہ سے ہے جب غزل سرا ہوئے تو یوں بولنے لگے۔
مخالفین میں میرے کہاں یہ جرأت تھی
مری انا ہی مجھے قتل کر کے بیٹھی ہے
دہلی سے آنے والے اردو ادب کے نمائندہ شاعر شکیل جمالی نے خالص ادبی غزلیں پیش کرتے ہوئے سامعین کے دلوں کو موہ لیا اور سامعین کو اپنا ہم آواز بنالیا۔ ان کے ان اشعار پرکافی داد و تحسین سے نوازا گیا۔
جس کی آنکھوں میں شرارت تھی وہ محبوبہ تھی
یہ جو مجبور سی عورت ہے وہ گھر والی ہے
اب عمر جھلکنے لگی چہرہ سے ہمارے
مہتاب چلے جاؤ علاقہ سے ہمارے
مشاعرہ کے آخری شاعر کے طورپر ناظم مشاعرہ نے کولکتہ سے آئے ہوئے نامور شاعر جناب حبیب ہاشمی کو پیش کیا۔ حبیب ہاشمی نے اپنی شاعری کے ذریعہ سامعین کو داد دینے پر مجبور کر دیا اور اپنا لوہامنوانے میں کامیاب رہے۔ ان کے ان اشعار پر سامعین نے بے ساختہ داد دی۔
مری زندگی ترا کیا ہوا، تو کہاں گئی تو کدھر گئی
تری چاہتوں کی تلاش میں مری عمر ساری گذر گئی
حیرت ہے کسی ہاتھ میں پتھر نہ نہیں ہے
اور شہر میں محفوظ کوئی سر بھی نہیں ہے
حبیب ہاشمی جب مائک سے الگ ہوئے تب صبح کے 4بج رہے تھے۔ سامعین شعراء کو مزید سننا چاہ رہے تھے لیکن انتظامیہ نے مشاعرہ کے اختتام کا فیصلہ لیا۔ کنوینر مشاعرہ کے شکریہ پر اس تاریخ ساز مشاعرہ کا اختتام عمل میں آیا۔

Mushaira by Urdu development society nizamabad. Reportaz : Shaikh Ahmed Zia

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں