28/مارچ حیدرآباد ایس۔این۔بی
اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ( قدیم آصفیہ لائبریری) واقع افضل گنج کا رکن قانون ساز کونسل محمود علی نے آج تقریباً2 گھنٹے تک تفصیلی دورہ کرتے ہوئے لائبریری میں موجود تمام سیکشنس بشمول اردو کتب سیکشن کا تفصیلی طورپر جائزہ لیا۔ انہوں نے لائبریری میں موجود طلباء و طالبات سے بھی ملاقات کی اور لائبریری سے متعلق تفصیلات معلوم کیں چنانچہ بیشتر طلبہ نے لائبریری میں انہیں عدم سہولتوں سے واقف کروایا۔ بعدازاں محمود علی نے ڈائرکٹر کے چیمبر میں پہنچ کر ڈائرکٹر سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن ڈائرکٹر کی عدم موجودگی میں انہوں نے اسسٹنٹ ڈائرکٹر سے ملاقات کرتے ہوئے 2013 کے ضمن میں اسٹیٹ لیول بک سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ جو 6دسمبر 2012 کو قدیم لائبریری میں پدم شری ڈاکٹر ترلا پتی کمبا راؤ کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں سال 2013ء کیلئے 1,20,00,000روپئے مختص کرتے ہوئے تقریباً 80فیصد صرف تلگو زبان پر خرچ کرنے اور 20فیصد مابقی زبانوں بشمول انگریزی، ہندی، اردو، کنڑی، مراٹھی، سنسکرت اور اریا پر مختص کئے جانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مذکورہ مختص کردہ رقم کو انتہائی ناکافی قرار دیا۔ محمود علی نے کہاکہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اس کے باوجود اردو کے ساتھ حکومت نے سوتیلا سلوک روا رکھا۔ محمود علی اردو کتب خانہ میں موجود اردو کتابوں کے ڈھیر کو دیکھ کر ششدر رہ گئے جہاں پر گرد و غبار میں قدیم نادر کتابوں کو ردی کی نذر کردیا گیا۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ صدر تلنگانہ راشٹرا سمیتی مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے انہیں اسٹیٹ لائبریری کے متعلق تفصیلات سے واقف کروانے کی ہدایت دی تھی جبکہ انہوں نے قبل ازیں بھی مذکورہ لائبریری کے متعلق سے ریاستی حکومت سے نمائندگی کی تھی لیکن حکومت منصوبہ بندی سازش کے تحت ریاست کی قدیم لائبریری کو نظر انداز کررہی ہے۔ جسے دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل ہے۔ حضور نظام نے مذکورہ لائبریری کے قیام پر دنیا بھر سے نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ کیاتھا۔ انہوں نے کہاکہ آج بھی مذکورہ لائبریری میں 15 لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں چنانچہ حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ ان کا تحفظ کرے۔ محمود علی نے بتایاکہ جب انہوں نے عصری لیاب کا معائنہ کیا تو محسوس کیا کہ مذکورہ لیاب میں ناقص و قدیم مشین بالخصوص کمپیوٹرس، اسکانرس اور لیمنیشن کے مشینوں کو جلد سے جلد منگواتے ہوئے نادر کتب کو محفوظ کرے۔ محمود علی نے حکومت کو نظام حکومت کے مونو گرام(امبلم) سے بھی واقف کروایا جسے حکومت نے تعصب پرستی کی بناء پر مٹادیا۔ محمود علی نے کہاکہ مذکورہ لائبریری کیلئے ایک سال قبل جنریٹر کیلئے رقم کو ڈپازٹ کیا گیا تھا لیکن آج بھی لائبریری جنریٹر سے محروم ہے۔ انہوں نے اس موقع پر موجود عہدیداروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل کرنے والی لائبریری میں آگ پر قابو پانے کیلئے نہ ہی فائر سیفٹی ہے اور نہ ہی عملہ کارکرد ہے۔ انہوں نے کہاکہ خدانخواستہ اگر آتشزدگی کا واقعہ رونما ہوگیا تو یقینا کروڑہا روپئے مالیت کی کتب خاکستر ہوجائیں گی۔ انہوںنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ طلبہ جو لائبریری کے احاطہ میں واقع درختوں کے سائے میں مطالعہ میں مصروف ہیں جبکہ لائبریری کے احاطہ میں کھلی اراضی موجود ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اراضی کا استعمال کرتے ہوئے علیحدہ طورپر طلباء و طالبات کیلئے مختص کریں۔ انہوں نے لائبریری میں عملہ کے ساتھ ساتھ کتب کا تحفظ اور ان کی نگہداشت کے علاوہ برقی و آبرسانی کے معقول انتظامات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ قدیم لائبریری میں مطالعہ کی غرض سے پہنچنے والے تشنگان علم و ادب کیلئے پانی کا انتظام تک نہیں ہے۔ اس موقع پر محمد اعجاز، محمد شبیر، محمد مسیح، جعفر بن قاسم کے علاوہ دیگر ٹی آرایس قائدین موجود تھے۔
متعلقہ تحریر:
آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائیبریری
Lack of government's attention to Hyderabad State central Library - a planned conspiracy?
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں