میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-29

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:7


میں دوڑا دوڑا شہر کے سب سے بڑے سرکاری دواخانہ پہنچا لیکن گیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں اردو کو کہاں کہاں ڈھونڈوں گا۔ کم ازکم اُس کا وارڈ نمبر معلوم ہوتا تو اچھا ہوتا۔ پھر اس کا بیڈ تلاش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
وارڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے دیکھتے جاؤ وہ کسی نہ کسی بستر پر لیٹی ہوئی مل جائے گی۔ میرے دل نے کہا۔ لیکن یہاں تو صورتحال مختلف تھی۔

لہذا میرے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ انکوائری کاونٹر پر پہنچ کر پتہ چلاؤں کہ وہ کہاں ہے؟ اس لئے میں تیز تیز چلتا ہوا پورٹیکو سے گذر کر ایک بڑے ہال میں پہنچا جہاں سے کئی راستے مختلف وارڈوں کو جاتے تھے۔ ہال کے کونے میں دیوار سے لگے ہوئے ایک گول میز پر ایک موٹے رجسٹر پر چھکا ہوا ایک کلرک بیٹھا تھا۔ اُس کے سامنے ایک نہیں دو دو ٹیلیفون تھے۔ اور سامنے حرکت کرتی ہوئی ایک لمی کیو۔ میں بھی اس کیو میں کھڑا ہوگیا۔

میری باری آنے پر کلرک نے بڑی بیزارگی کے ساتھ مجھ پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے پوچھا "کیا ہے؟"
میں نے کہا کہ "میں اردو کی تلاش میں آیا ہوں، سنا ہے کہ وہ سخت بیمار ہے، یقیناً وہ آپ ہی کے دواخانے میں شریک ہوگی۔ براہ کرم مجھے بتائیے کہ وہ کس وارڈ میں ہے اور اس کا بیڈ نمبر کیا ہے؟ "
"کیا نام بتایا آپ نے؟" کلرک نے جمائی لیتے ہوئے پوچھا۔
"اردو" میں نے جواب دیا۔
اچھا اچھا مگر یہ بتائیے کہ اُسے تکلیف کیا ہے؟
نہیں، میں نہیں جانتا۔
کمال ہے صاحب۔ اچھا تو بتائیے کہ اس کے شوہر کا نام کیا ہے؟
نہیں، ابھی اُس کی شادی نہیں ہوئی ہے۔
اوہو۔ آئی یم سوری!
باپ کا نام ؟
وہ بھی میں نہیں جانتا۔
عجب آدمی ہیں آپ۔ یہ نہیں جانتے، وہ نہیں جانتے تو پھر آپ کیا جانتے ہیں؟
کون ہیں آپ؟ کیا ہوتی ہے وہ آپ کو؟

وہ میری محبوبہ ہے۔ اور میں اس کا عاشق۔ سمجھے آپ؟
کلرک مسکرایا اور بولا "فنٹاسٹک۔ پریشان مت ہوئیے۔ میں ابھی پتہ چلاتا ہوں کہ وہ کس وارڈ میں ہے۔ کیا نام بتایا آپ نے اُس کا؟
بڑی دیر تک وہ اپنے سامنے رکھے ہوئے موٹے رجسٹر کے اوراق اُلٹتا رہا۔ اس کو واقعی مجھ سے ہمدردی ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اُس نے بھی کہیں چرکہ کھایا ہے، جب ہی تو وہ دل کی زبان کو سمجھتا ہے یا سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن جب اسے اپنے موٹے رجسٹر کے کالموں میں اردو نام کی کوئی مریضہ نظر نہیں آئی تو اس نے پھر پوچھا:
سر! یہ بتائیے کہ وہ رہتی کہاں ہے؟ اس کے گھر کا نمبر؟
بھئی ، اس کا کوئی گھر نہیں ہے۔
اوہو، میں سمجھا۔ ہاؤ شی از اے پور کریچر!
براہ کرم آپ اس پر رحم مت کھائیے۔ رحم کھانے اور غم کھانے کے لیے میں جو موجود ہوں۔ صرف مجھے اس کا وارڈ نمبر بتا دیجیے۔
آئی ایم ویری سوری سر! میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔ دراصل ان ساری تفصیلات کے بغیر کسی بھی مریض یا مریضہ کا پتا لگانا مشکل ہے۔ ویسے آپ اس کی عمر تو بتا سکتے ہیں؟
کیوں نہیں۔ لگ بھگ کوئی آٹھ سو سال کی ہوگی۔۔
کیا کہا؟ آٹھ سو سال !!
مائی گاڈ ۔۔۔۔ ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ پھر اس کلرک کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنی دونوں مٹھیوں کو بھینچ کر مکا بناتے ہوئے میز پر مار کر کہا : گٹ آؤٹ!
آئی سے فرسٹ یو گٹ آؤٹ فرام ہئیر ۔۔۔
سامنے سے ایک وارڈ بوائے گزر رہا تھا۔ کلرک نے اسے آواز دی۔ قریب آنے پر اس نے کہا :
صاحب کو باہر جانے کا راستہ دکھاؤ۔ اگر نہ مانیں تو ایمرجنسی وارڈ میں شریک کروا دو۔ صاحب کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے!



A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-7

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں