تعلیمی بیداری - وقت کی اہم ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-10

تعلیمی بیداری - وقت کی اہم ضرورت

میں نے اپنے قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کیا تھا کہ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی حالت کافی بدتر ہے ۔ 6سے 14 سال تک کی عمر کے 25فیصد مسلم بچے فیس کی ادائیگی نہ ہونے یا تدریسی کتاب دستیاب نہ ہونے کے سبب اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، ہائر، پرائمری، مڈل اور ہائر سکینڈری سطح پر ڈراپ آوت کا تناسب تو اس سے بھی زیادہ ہے ۔ اچھے کالجوں میں 25میں سے صرف ایک مسلم گرایجویٹ کا ہی داخلہ ہوپاتا ہے جبکہ پی جی میں یہ تناسب 50 میں سے ایک طالب علم کا ہے ۔ اس تمہیدی گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ مسلم سماج پوری طرح سے تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ معاشی حالت بہتر نہ ہونے کے سبب ہی حصول تعلیم میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں لیکن میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ تعلیمی بیداری نہ ہونے کے سبب بھی خواندگی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوپا رہا ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم طبقہ میں خواندگی کی شرح میں اضافہ کیلئے ملک گیر سطح پر تعلیمی بیداری مہم شروع کی جائے ، جس میں حکومت کے ساتھ غیر سرکاری اداروں اور اپنے ملی اداروں کا بھی اشتراک ہونا چاہئے ۔ بڑی خوش کی بات ہے کہ آل انڈیا ایجوکیشنل مو ومنت نے اس سلسلہ میں ایک مثبت پیش قدمی کی ہے ۔ مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ کے اشتراک سے آل انڈیا ایجوکیشنل مو ومنٹ نے گذشتہ جمعہ کو دہلی سے ایک تعلیمی بیداری کارواں روانہ کیا ہے جو ملک کے مختلف مقامات پر جا کر مسلم سماج کو حصول تعلیم کے سلسلہ میں بیدار کرے گا۔ طئے شدہ پروگرام کے مطابق یہ کاروں لکھنو اور بنارس میں تعلیمی بیداری سے متعلق پروگرام کرے گا۔ اس کے بعد یہ کاروں بہار کا رخ کرے گا، جہاں سیوان، حاجی پور اور پٹنہ میں تقریبات منعقد کی جائیں گی، اس کے بعد یہ کارواں مغربی روانہ ہو جائے گا اور اس کی آخری منزل اڑیسہ کا کٹک ہو گا۔ جہاں 16اور 17مارچ کو دوروزہ کل ہند مسلم تعلیمی کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ہی یہ تعلیمی بیداری مہم اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ جامعہ ہمدرد کے کنوشن سنٹر میں گذشتہ جمعہ کو اس سلسلہ کی افتتاحی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا، میں نے تعلیمی بیداری سے متعلق آل انڈیا ایجوکیشنل مو ومنٹ اور مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ کے عہدیداران میں جو جوش و جذبہ دیکھا، اس سے میں بیحد متاثر ہوا ہوں ۔ اگرچہ اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ اتنے اہم پروگرام میں لوگوں کی شرکت بہت زیادہ نہیں تھی یا پھر ممکن ہے کہ منتخب دانشوروں کو ہی اس میں مدعو کیا گیا ہو، لیکن عام طورپر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ملت کے مسائل پر جو بھی پروگرام ہوتے ہیں ان میں اپنے ہی لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ہیں اور اس طرح کا کوئی بھی اجلاس پرہجوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ دہلی سے اڑیسہ تک کیلئے روانہ ہونے والا یہ تعلیمی کارواں کوئی بہت بڑا کارواں نہیں تھا لیکن اس میں جو لوگ بھی شامل ہیں وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کارواں میں شامل مردوخواتین زبردست جوش و جذبہ سے سرشار ہیں ۔ ان کے دل میں ملت کی خدمت کا عزم ہے ۔ کارواں میں شامل تقریباً سبھی بزرگ حضرات تھے اگرچہ ان کے ساتھ کچھ نوجوان طلباء بھی کارواں کا حصہ بن کر گئے ہیں لیکن تعلیمی بیداری پیدا کرنے کی دمہ داری خاص طورپر سے ان لوگوں نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائی ہے جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں ، لیکن ان کے حوصولوں میں جو شباب دیکھا گیا وہ قابل ستائش ہے ۔ میں سلام کرتا ہوں ان بزرگوں کو جنہوں نے امت مسلمہ کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور ملت کے لوگوں کو تعلیم کے سلسلہ میں بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ آل انڈیا ایجوکیشنل موؤمنٹ اور مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیرمین امان اﷲ خان اس تعلیمی کارواں کے روح رواں ہیں اور انہیں سید منصور آغا، خواجہ ایم شاہد، ظفر الاسلام خاں ، محترم اعجاز احمد اسلم، طارق اعظم، ڈاکٹر ایس فاروق اور ابرار احمد اصلاحی جیسی گرانقدر شخصیتوں کا تعاون مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ ہمدرد کے چانسلر سید حامد صاحب کی دعائیں بھی شامل حال ہیں ۔ ایسے میں بظاہر دیکھنے میں چھوٹا نظر آنے والا یہ کارواں ایک بڑا کام کرے گا، اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہے ۔ دوسرے اداروں کو بھی اس سے ترغیب لے کر مسلمانوں کے درمیان تعلیمی بیداری مہم چلانی چاہئے ، کیونکہ انسانی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہی ہوتا ہے اگر مسلم سماج میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو گا تو ہم مزید پسماندہ ہوتے چلے جائیں گے ۔ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ عام طور سے حکومتوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ عوام اور خاص طور سے اقلیتی طبقہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہونے پائے کیونکہ ارباب اقتدار کو اس بات کا خوف رہتا ہے کہ اگر عوام اور خاص طورسے مسلمان تعلیم یافتہ ہو گئے تو وہ اپنے حقوق کیلئے بیدار ہو جائیں گے اور پھر ان کا استحصال کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لہذا تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے میں حکومت اور سیاستدانوں سے زیادہ مدد کی امید نہیں کی جانی چاہئے ۔ آل انڈیا ایجوکیشنل مو ومنٹ کی طرح دیگر ملی اداروں کو بھی تعلیم کے شعبہ میں بڑھ چڑھ کر کام کرنا ہو گا۔ اس وقت مسلم سماج کو بے لوث خدمت گاروں کی ضرورت ہے ۔ خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے میں زیادہ پیسے کی بھی ضرورت نہیں ہے مختلف مہم چلا کر انہیں یہ بتایا جاسکتا ہے کہ حصول تعلیم کے بغیر تمہاری معاشی حالت مستحکم نہیں ہو گی اور نہ ہی استحصال ختم ہو گا۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کوئی بھی مہم یا کوئی بھی بیداری پروگرام طویل مدتی نہیں ہوتا۔ اپنی ذاتی مصروفیات اور ضرورتوں کو ترک کر کے لوگ آپ کو بیدار کرنے کیلئے آپ کے پاس جاتے ہیں اور ظاہر ہے پھر واپس بھی چلے جاتے ہیں اس سے بہت زیادہ نہیں ہونے والا ہے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کا ہر فرد خود کوبیدار کرنے کی ذمہ داری لے لے ، پوری قوم بیدار ہو جائے گی۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چاہے مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کا بجٹ ہو یا پھر وزارت اقلیتی فلاح کا اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق بجٹ، اس کی لوگوں کوزیادہ جانکاری نہیں ہوپاتی، جس کی وجہہ سے لوگ ان منصوبوں سے مستفید نہیں ہوپاتے ۔ مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کا 100 کرور کا بجٹ اقلیتوں کیلئے خرچ نہیں ہوپایا۔ اسی طرح کے اور بھی کئی تعلیمی منصوبے مکمل نہیں ہوپائے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم کس طرح اس کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ تعلیمی بیداری مہم میں خواتین کو شامل کرنا بیحد ضروری ہے ، کیونکہ خوشحال سماج کی تشکیل کیلئے خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا بیحد ضروری ہے ۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل مو ومنٹ نے تعلیمی کاروں کا آغاز خواتین کے عالمی دن یعنی 8مارچ سے کیا ہے اور اس کارواں میں کئی معزز خواتین بھی شامل ہیں ۔ میں اپنی ان بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس کارواں کے علاوہ بھی ملت کی خواتین کو تعلیمی اعتبار سے بیدار اور مستحکم کرنے کی اپنی مہم کو مزید تیز کریں ، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔ مسلم و ومن ویلفیر اسوسی ایشن دہلی میں مسلم خواتین کی فلاح کیلئے اچھا کام کر رہی ہے اور تعلیمی کارواں میں بھی اس تنظیم کی بہنیں شامل ہیں ۔ تعلیم نسواں کے فروغ کی بہت زیادہ ذمہ داری ان بہنوں پر ہے ۔ آپ سچے دل سے محنت کریں ضرورکامیابی ملے گی۔


Educational awareness - the need of the hour. Article: Syed Faisal Ali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں