ظہرانہ کے بعد پروفیسر ستار ساحر نے دوسرے سیشن کی صدارت کے لیے پروفیسر ناظم سرگرو اور پروفیسر بشیر احمد کوشہ نشین پر مدعو کیا۔ ڈاکٹر منیرمحی الدین نے عبدالصمد کا ناول "دھمک کاتجزیاتی مطالعہ" موضوع پرمقالہ سنایا۔
H.C.U کی ریسرچ اسکالر زرینہ بیگم نے "اُردو ناول کے چندکرداروں کانفسیاتی مطالعہ" کے موضوع پر پُرمغز مقالہ پڑھا۔ جس میں انھوں نے نفسیات کی مختلف شاخوں جیسے احساس کمتری، احساس برتری، تصادم ، نرگیت، انا، Ego،Super Ego اور سگمنڈ فرائیڈ کے بارے میں تفصیلی باتیں پیش کیں۔ ڈاکٹر ستار فیضی نے "بچوں کے ناول اور کرشن چندر" کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ رابن سن کروسو پہلا بچوں کا ناول نگار ہے ۔انھوں نے کرشن چندر کی ناول نگاری کی خصوصیات کا ذ کر کرتے ہوئے انھیں ناول نگاری کا"امام"قراردیا۔ ناول ستاروں کی سیر کے منتخبہ اقتباسات پڑھتے ہوئے کہا کہ دورِ حاضرکی مشہور ہندی فلمیں روبوٹ، را-ون اور تیلگو فلم ’’نانی،، کی کہانیوں کو کرشن چندر نے بہت پہلے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر شکیلہ گوری خاں"انلِ ٹھکّر کی ناول نگاری"کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے ناول "خوابوں کی بے ساکھیاں" سے ایسے اقتباسات پیش کئے جن سے نیوگ (ہندوئوں میں اولاد حاصل کرنے کی ایک خاص رسم) پر روشنی پڑی اور عورتوں سے متعلق رازداری کی باتیں فاش ہوگئی دورانِ مقالہ سمینار ہال میں خاموشی چھا گئی۔ ڈاکٹر رضوانہ معین نے جیلانی بانو کا ناول "بارشِِ سنگ کا تنقیدی جائزہ " کو موضوع بناکر اپنا مقالہ پڑھا جس میں جیلانی بانو کی ناول نگاری سے متعلق وارث علوی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے انھیں بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار قرار دیا۔ پروفیسر ناظم سرگرونے مقالوں کا محاکمہ کرتے ہوئے ہرمقالہ نگار کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا۔ پروفیسر مبشیر احمد نے ضمنی طور پر مقالوں کا جائزہ لیا مگر گوری خاں کے مقالہ پرطویل گفتگو کرتے ہوئے دورِ حاضرکی بے حیائی کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے موجودہ اخلاقی گراوٹ اور مغرب کی اندھی تقلید کے سنگین نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُسے سماج میں پھیل رہی بُرائیوں سے جوڑا۔
پروفیسر ستار ساحر کے ہدیہ تشکر کے ساتھ ہی سمینار کاپہلا دن شام 6:30 بجے اپنے ختتام کو پہونچا۔ انھوں نے ایک لٹریری (ادبی) اور کلچرل پروگرام کی صدارت کے لئے سلیمان اطہرجاوید اور نظامت کے لئے ریسرچ اسکالر غوثیہ بیگم کو مدعو کیا۔ ناہدہ سلطانہ نے سلیمان خطیب کی نظم ’’چھورا چھوری ،، کا مونو ڈرامہ پیش کیا۔ رضیہ دانش نے اپنا تخلیخی انشائیہ "بلاک بورڈ" سناکر کند ذہن طالبِ علم اور غیر حاضر دماغ اساتذہ کی تصویر کشی کی۔ روحینہ سحر نے اپنا تخلیقی افسانہ "ایسا بھی ہوتا ہے" سنایا۔ آمنہ آفرین نے لیاقت، غالب، تب اور اب اور نیا وعدہ جیسے منی افسانے سُنائے۔ حمیدہ مہر نے اپنی نظم "میرے ہم سفر" اور آفتاب عرشی نے نظم "ہرجائی" سناکر داد و تحسین حاصل کی۔ یہ تمام شعبئہ اُردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد کے ریسرچ اسکالر تھے جو صدر شعبہ اردو مظفر شہہ میری کے ساتھ تعلیمی تفریح کے لئے سمینار میں شریک تھیں۔ شعبئہ تاریخ ، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی ریسرچ اسکالر سُبادیال نے ابوالحسن تاناشاہ کی غزل سنائی پھر اس کاترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔ شعبئہ اُردو۔S.V.U کی طالبہ شاہین تاج نے گلّی نلگنڈوی کی مزاحیہ نظم سنائی اور افتخار جمال کا تمثیلی ڈرامہ" ہم آزادہیں" کو بھی اسی یونیورسٹی کی طالبات نے بڑے ہی فنکارانہ انداز سے پیش کیا۔ادبی اور کلچرل پروگرام سے سامعین کافی محظوظ ہورہے تھے
31 جنوری سمینار کا دوسرا دن پہلا سیشن پروفیسر محمد انورالدین کی صدارت میں شروع ہوا۔ ڈاکٹر حمیداللہ خاں نے ناول "ایوانِِ غزل کا فنی اور تکنیکی مطالعہ" کے موضوع پر مقالہ پڑھا جس میں "ایوانِِ غزل " کے فن، کردار، اسلوب پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عبدالغفار نے "ایک چادر میلی سی کاپس منظر" کے عنوان پر اپنے مقالہ میں ناول کے متعلق کہا کہ اس میں پنجاب کے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی پس منظرکو بڑی حسن وخوبی سے پیش کیا گیا ہے، اس ناول کا تانہ بانہ پنجاب کے ایک "سنگ" خاندان کے اطراف باندھا گیا ہے۔ ڈاکٹر منظور دکنی نے "جیلانی بانو کا اسلوبیاتی مطالعہ - ایوانِ غزل کی روشنی میں" پر مقالہ پڑھا۔ اس مقالہ کوسنتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ ڈاکٹر حمیداللہ خاں کے مقالہ کا تسلسل ہے۔ ڈاکٹر کے-وی-نکولن نے "اُردو ناول کی نمائندگی دیشی سطح پراور اُردو ناول کے ملیالی ترجمے 1960ء کے بعد" عنوان پر اپنے مقالے میں گئودان ، نرملا، امرائوجان ادا کے ملیالی ترجمے کے نام گنوائے جو 1960ء کے بعد اور ایک چادر میلی سی ،آگ کا دریا، بارشِِ سنگ کے ملیالی ترجمے 1980ء کے بعد ہوئے۔ ڈاکٹر محمد نثار احمد نے "بچوں کے ناول نگار وکیل نجیب" پرمقالہ پڑھا جس میں وکیل نجیب کے بچوں کے 15 ناولوں کا نام لیا گیا۔ ناول "کمپوٹان" کو سائنسی فکشن میں لازوال قرار دیا گیا۔ انھوں نے روبوٹ اور را-ون کی کہانیوں کا ماخذ کمپوٹان کو قرار دیا۔ روزنامہ اعتماد کے ایڈیٹر ڈاکٹر محسن جلگانوی نے"عصر حاضر کی چند ناولوں کا اجمالی جائزہ" کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد، شرر، رسوا، سرور وغیرہ کی ناولوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ اچھا ناول وہی ہوتا ہے جس کو قاری بار بار پڑھنے کے لئے بے چین ہو۔ انھون نے مشرف عالم ذوقی کی ناول نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ان کے ناول میں معاشرے کی عکاسی کا حسن امتزاج ملتا ہے۔ پروفیسر صاحب علی صاحب نے سید محمد اشرف کا ناول "نمبر دار کا نیلہ" کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ان کی ناول نگاری کاجائزہ لیا۔ انھوں نے ناول "نمبر دار کا نیلہ" کے متعلق کہا کہ اس کا موضوع ، کردار اور زبان و بیان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ان کے مطابق "کوئی ادیب اس وقت تک کا میاب ادیب نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے پاس زبان و بیان کا مناسب استعمال نہ ہو"۔ناول ’’نمبر دار کا نیلہ،، کے مطابق بقول شمس الرحمن فاروقی "اتنا بہترین فکشن
اردو میں تو کیا انگریزی میں بھی اس درمیان نہیں دیکھا"۔ پروفیسر محمد انور الدین نے مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جدید ناولوں اور ناول نگاروں پر زیادہ توجہ دیں اور دورانِ تحقیق ہ رچیز کا غور سے مطالعہ کریں۔ انھوں نے مقالہ نگاروں کو مشورہ دیا کہ مقالہ میں پس منظر کو مختصر کرتے ہوئے اپنے منتخبہ موضوع پر زیادہ توجہ دیں تاکہ موضوع کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔ تلفظ کو سُدھارنے کے سلسلے میں انھوں نے پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر مغنی تبسم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اعراب لگا کر مقالے پڑھا کرتے تھے تا کہ غلطی سرزد نہ ہو۔ ایسا کرنا معیوب نہیں ہے۔ پروفیسر ستار ساحر نے مختصراً ہدیہ تشکر ادا کرتے ہوئے سمینار کے آخری سیشن کی صدارت کے لیے پروفیسر خلیل احمد اور پروفیسر صاحب علی صاحب کے ناموں کااعلان کیا۔ اس سیشن کا آغاز محمود شاہد کی تصنیف "ریت میں گمشدہ لفظ" کی رسم اجرائی ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کے ہاتھوں سے ہوا۔ ڈاکٹر محمد یاسر نے ناول "میری ذات ذرہ بے نشان" کے موضوع پر مقالہ پڑھا جس میں ناول کے کردار، پلاٹ اور کہانی کو پیش کیا۔ ڈاکٹر نصراللہ نے ناول "حج اکبر کا ایک جائزہ" کے عنوان سے مقالہ پڑھ کر یہ بتایا کہ نعیم اقبال کرناٹک کے مشہور ناول نگار ہیں۔ اس ناول میں انھوں نے سماجی اصلاحی ،قومی یکجہتی،محبت کے مختلف پہلو اور میڈیکل تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری نے ناول "سانپ اور سیڑھیاں ایک مطالعہ" پر معلوماتی مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ یہ ناول ایک سوانحی ناول ہے جس میں ہندوستان کے پچھلے 10، 15سالوں کے واقعات ملتے ہیں جیسے سانحئہ بابری مسجد، پارلمینٹ پر حملہ، پدیاترا، رتھ باترا وغیرہ۔ اس میں ہندی، مراٹھی، بنگالی، کنڑ زبان کے نمونے ملتے ہیں۔ اس ناول میں ادیبوں کے سیاسی فوائد اور ان کے جانبدارانہ رویہ پرکھلا طنز ہے۔ ڈاکٹر قاضی حبیب احمد نے "قاضی عبدالستار کے ناولوں کا اسلوبیاتی نظریہ" کو اپنا موضوع بناتے ہوئے کہا کہ Imagiry کو مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد قاضی عبدالستار نے بخوبی ادا کیا۔ ان کے ناولوں میں درد کی آمیزش، زبان ، لہجہ اور اسلوب پر شکوہ ہے۔ ڈاکٹر حسینہ بیگم نے "رفیع احمد منظور کی ناول نگاری" پر مقالہ سناتے ہوئے ناول نگار کی شخصیت، زبان ، موضوع، کردار اور اسلوب پر روشنی ڈالی۔ پندرہ روزہ وسیلہ کے مدیر و افسانہ نگار محمو دشاہد نے سمینار میں موجود ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کاناول "کہانی کوئی سنائو نِتاشا کا تنقیدی جائزہ" پر مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اس ناول میں نِتاشا نامی لڑکی کی کہانی ہے۔ انھوں نے کسی بھی ناول کے لئے قلم کار کا تخلیقی رویہ، کرداروں کے ذریعہ فلسفئہ حیات، زبان و بیاں کا مناسب استعمال، اسلوب اور تکنیک کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام چیزیں اس ناول میں نظر نہیں آتیں تو کیا اس کہانی کو ناول قرار دیا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر عطااللہ خاں سنجری نے "اُردو ناول اور دیگر ہندوستانی زبانیں" کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ امرائوجان ادا کا ترجمہ تیلگو، کنڑ، تمل، ملیالم اور اڑیائی زبانوں میں ہوا۔ ایک چادر میلی سی کا ترجمہ انگریزی ، روسی اورہندی زبانوں میں ہوا۔ دوگز زمین، آگ کا دریا، کئی چاندتھے سرِ آسمان، نمبر دار کا نیلہ ، ایسی بلندی اور ایسی پستی کے ترجمے بھی ہوئے۔ ریسرچ اسکالر منیب آفاق نے "آگ کا دریا کا تنقیدی جائزہ" کے موضوع پر مقالہ پڑھا جس میں انھوں نے شعور کی رو کی تکنیک، پلاٹ ، کردار نگاری ، مکالمہ نگاری، اسلوب اور زبان و بیان پر مختصر مگر جامع معلومات فراہم کیں۔ "آگ کا دریا" سے گوتم، چمپا اور کمال جیسے کرداروں کے مختلف ادوار اور روپ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان میں مطابقت پیدا کی۔ انہوں نے ’’آگ کا دریا،، کو اردو ناول نگاری کا شاہکار قرار دیتے ہوئے اس کا انگریزی ترجمہ The River of Fire کاذکر بھی کیا۔ ڈاکٹر امان اللہ نے "امیرالنساء کی ناول نگاری" پرمقالہ پڑھا۔ پروفیسر بشیر احمد نے ناول "کہانی کوئی سنائو نِتاشا- ایک جائزہ" کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ اس ناول میں کلکتہ، کٹک، لوناوالہ اور کھنڈالہ شہروں کی معلومات پنہاں ہے۔ بقول مقالہ نگار آخری باب"سانس سانس سنگھرش" کافی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ اسی سے ناول نگار کا نظریہ حیات ابھر کرسامنے آتاہے۔ صدورسیشن پروفیسر خلیل احمد اور پروفیسرصاحب علی صاحب نے مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے مختصر مگر جامع انداز میں محاکمہ کے ذریعہ سیرِ حاصل بحث کی۔
فوری بعد سمینار کا اختتامی جلسہ پروفیسرسلیمان اطہر جاوید کی صدارت میں عمل میں آیا جس میں مظفرشہہ میری ،ڈاکٹرصادقہ نواب سحر اورS.V.U. ریکٹار پروفیسر ایم،اے، کے، سُکمارنے سمینار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شعبئہ اردو بالخصوص پروفیسر ستارساحر کو مبارکباد پیش کی۔ اختتامی جلسہ میں پروفیسر ستارساحر نے ہرایک کی خدمات کا تفصیلی اعتراف کرتے ہوئے فرداً فرداً ہدیہ تشکرادا کیا۔ انہوں نے ہرسیشن کے آخر میں مقالہ نگاروں کی خدمت میں سر ٹیفکیٹ عطا کئے۔ اس دو روزہ سمینار کے پہلے دن کے پہلے اور دوسرے سیشن میں 5 +5 اور دوسرے دن کے پہلے اور دوسرے سیشن میں7+10جملہ 27 مقالے پڑھے گئے جن سے متعلق سوالات کا وقفہ بھی دیاگیا۔
راقم کواس سمینارمیں جوخوبی نظرآئی وہ منصوبہ بندی اور ذمہ داریوں کی تفویض تھی۔ پروفیسر ستار ساحراس دو روزہ سمینار کے دوران اپنے لبوں پر تبسم بکھیرتے ہوئے اور وقتاً فوقتاً رمزیت کے ذریعہ کمی پوری کرتے ہسئے نظر آئے، تھوڑی دیر کے لیے بھی ان کے چہرے پر کوئی پریشانی نظر آئی اور نہ ہی کوئی فکر۔ شعبئہ اُردو کے اساتذہ اور طلبہ نے ہرذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے سمینار کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔ اس بات کا اعتراف مہمان مقالہ نگاروں نے بھی کیا۔ اس لحاظ سے ڈائر کٹرسمینار پروفیسر ستار ساحر، ڈاکٹرامین اللہ ، ڈاکٹرمحمد نثاراحمد، ڈاکٹرمحمد امتیاز، ڈالٹر محی الدین، ڈاکٹر حسینہ بیگم اور شعبئہ کے طلبہ قابل مبارکباد ہیں۔
منیب آفاق۔ ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد۔
منیب آفاق |
50 years of Urdu Novel - A Reportaz by Muneeb Afaq
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںnice post tanks:
جواب دیںحذف کریںhttp://urduislamicbooks.net/
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ناول میں کی گئی تکنیکی تبدیلیاں کون کونسی ہے ؟
جواب دیںحذف کریں