انسان کی ذہنی نشو و نما میں مادری زبان کا حصہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-18

انسان کی ذہنی نشو و نما میں مادری زبان کا حصہ

مادری زبان سے مراد ماں کی زبان ہے یعنی یہ وہ زبان ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے اور اسے بولنا سکھاتی ہے۔ مادری زبان جوکہ بچہ اپنے گھر میں بچپن سے سنتا ہے اور وہ اس زبان کو پہلے پہل بولنا سیکھتا ہے اور یہ زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ اس زبان کوبچہ اپنے ماں باپ بھائی بہن کی گفتگو کو سن کر خود ہی سیکھ جاتا ہے بچہ کو ہر ماں اپنی زبان میں بات کرنا سکھاتی ہے اچھے اور بری باتوں سے واقف کرواتی ہے۔ تہذیب اور اخلاق اسی زبان میں بچہ کو سکھائے جاتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کی باتوں کو بتایا جاتا ہے جس کے ذریعہ بچہ آہستہ آہستہ اس زبان کو سیکھتا ہے اور اسی زبان میں سوچتا اور سمجھتا بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جذبات اور خیالات اپنی مادری زبان میں ادا کرتا ہے۔ اگربچے کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتا ہے اور باتیں بھی آسانی سے اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے اس لئے ماہرین تعلیم اور دانشور لوگوں کا کہنا ہے کہ بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے تاکہ بچہ آسانی سے علم سیکھ سکے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر زبانوں سے بھی بچہ کو واقف کروایاجائے یا سکھایاجائے ۔

ڈاکٹرحسن رضا کے مطابق انسان کی فطرت و جبلت کا جز مادری زبان ہوتی ہے وہ رقمطراز ہیں :
"سند رہے کہ حافظہ اور یادداشت تک رسائی زبان کے وسیلے سے ہوتی ہے اور یہ زبان یقینا مادری زبان ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ شعور، تحت الشعورکا سفر کرنے والا ذولسان، سنہ لسان یا ہمہ لسان ہو مگر اس کا یہ ذہنی سفر مادری زبان کی قیادت میں ہی ہوتا ہے کیونکہ مادری زبان انسان کی فطرت و جبلت کا جزولانیفک ہوتی ہے البتہ انسان مصلحتاً یا ضرورتاً مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کا بھی استعمال ترسیل و اظہار کے لئے کرتا ہے ۔ "(لاشعور میں مادری زبان کی عمل داری،ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی، جنوری 2013ء ص23)
مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی بھی ہے اور نکھرتی بھی ہے دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں بچہ کی ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم لازمی قرار دے رکھا ہے ۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی ہے اس لئے کہایہ جاتا ہے کہ مادری زبان انسان کی جبلت کاجز ہوا کرتی ہے۔
انسانی سماج میں مادری زبان کی بہت زیادہ اہمیت ہے وہ فردواحد سماج کا ایک حصہ ہوتا ہے فرد کے لئے مادری زبان ناگزیر ہے ۔ مادری زبان سے متعلق انعام اللہ خاں شروانی لکھتے ہیں :

"مادری زبان وہ زبان ہے جس سے انسان جذباتی طورپر منسلک ہوتا ہے یہ وہ زبان ہے کہ اگر کوئی شخص اس زبان کو چھوڑکر کسی دوسری زبان کو مادری زبان بنالے تو اس صورت میں وہ ذہنی طورپر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر جذباتی لحاظ سے مفلوج،بنجر اور سپاٹ ہو جائے گا۔ "
(مادری زبان کی اہمیت،تدریس زبان اردو،ناشر انجلی گھوش کلکتہ ص24)
بچہ کی تعلیم و تربیت اور دیگر علوم سائنس وحکمت، فلسفہ،منطق، علوم،سماجیات ومذہبیات کے معاملے میں بھی مادری زبان زیادہ معاون اور کارگر ثابت ہو گی۔ مادری زبان صرف تعلیم ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ بچہ کی زندگی اور اس کا مستقبل ہے ایک انسان اپنی مادری زبان سے ہی سماجی، قومی اور انفرادی زندگی کے تقاضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ کہایہ جاتا ہے کہ بچہ کا تعلیم حاصل کرنے کیلئے مادری زبان کی حیثیت مسلم ہے ۔ لکھنا پڑھنا، سوچنا اور تخلیقی کام انجام دینا دراصل بچہ یہ سب کام اپنی مادری زبان میں آسانی سے کرتا ہے ۔

ذہنی نشو ونما اور مادری زبان:۔
دور حاضر میں انسان کی ذہنی نشو ونما کیلئے مادری زبان ایک لازمی عنصر ہے۔ آج نہ صرف امریکہ بلکہ تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ ممالک کا نعرہ مادری زبان میں تعلیم دینے کا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنی اولاد کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دلوانے کے بجائے انگریزی تعلیم کو ہی بچہ کامستقبل قرار دیتے ہیں جبکہ بچہ اپنی مادری زبان ہی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے مقصد کو آسانی سے حاصل کر سکتا ہے چونکہ بچہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے تمام علوم کو بڑی آسانی سے سمجھتے ہوئے حاصل کرتا ہے ۔ آج اس ترقیاتی دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی مددسے ماہرین دانشور اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ انسان کی ذہنی نشو ونما صرف اور صرف مادری زبان کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور مادری زبان میں تعلیم بچے کو بے شمار ذہنی اور جسمانی امراض سے بچاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو ذہنی طورپر اور خصوصی طورپر کسی فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں تو مادری زبان کو اختیار کرتے ہوئے بے شمار فائدے حاصل کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے ۔
انسان کی سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے بچہ اپنی ماں سے گود میں جو بھی باتیں سیکھتا ہے وہ عمر بھر اس کے ذہن میں پختہ رہتی ہیں اور اس کے اثرات بچے کے ذہن پر نقش ہو کر پختہ ہو جاتے ہیں مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ حالات، پس منظر تہذیب اور ثقافت اور ان کی روایات پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے ۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندازہ لگانے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں ۔
عالمی سطح پر بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیئے جانے کا انتظام ہوتا ہے جس کی اہم وجہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان عام فہم اور زود اثر تفہیم کاتعلق پیدا کر دیتے ہیں ۔ مادری زبان اگر بچے کا ذریعہ تعلیم ہوتو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے ۔
اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں طئے کر دیا ہے کہ بچے کی ا بتدائی تعلیم اس کی مادری زبان کے ذریعہ سے بچے کا حق ہے۔ ماہرین تعلیم، تحقیقاتی اداروں اور اہل علم اور دانشوروں نے بچے کو تعلیم دینے کا جو طریقہ بتلایا ہے وہ یہ ہے کہ معلوم سے نامعلوم تک سفر کے اصول کو رہنما بنایا جائے ۔ ایک انسان جب اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے لیکن جب وہ کسی مسئلہ پر اپنے ذہن کو حرکت دے کر سوچتا پرکھتا اور اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس وقت صرف اور صرف اپنی مادری زبان کے سہارے ہی یہ کام کرتا ہے ۔
لاشعور میں مادری زبان کی کارفرمائی سے متعلق ایک واقعہ کوڈاکٹر حسن رضا اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں :

"جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر1936-45ء نے اپنی جاسوسی تنظیم گیسٹاپو بڑے پیمانے پر خواتین کی تقرری کی تھی اور ان جرمن خواتین کو انگریزی زبان اور ثقافت کی خاطر خواہ تربیت دلوائی تھی تاکہ برٹش کے درمیان رہ کر ان کے لائحہ عمل اور دیگر اہم اطلاعات سے وہ ہٹلر کو آگاہ کرتی رہیں ۔ برٹش اہل کار اور افسران یہ جان کر بے حد متوحش اور متفکر تھے کہ ہٹلر ان کے ہر اقدام سے قبل ہی واقف کیسے ہو جاتا ہے محکمہ سراغ رسانی کے برٹش سربراہ نے ایک مشکوک خاتون کے امتحان کیلئے یہ لسانی ترکیب نکالی کہ اگر فلاں خاتون واقعی برٹش ہو گی تو مطلوبہ تقریب میں پن چبھانے پر بے ساختہ کوئی انگریزی فجائیہ یافجائی صوتی علامت نکلے گی کیونکہ شدائد کی کیفیت میں ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے اس کا یہ حربہ آزمودہ اور کارگر ثابت ہوا۔ ایک تقریب میں پن چبھوتے ہی اس کے منہ سے بے ساختہ ایک مروجہ جرمن گالی نکل گئی اور وہ گرفتار کر لی گئی یعنی وہ جرمن خاتون مادری زبان کی لاشعور عمل داری سے ہی بے نقاب ہوئی۔ "
(لاشعور میں مادری زبان کی عمل داری، اردو دنیا،نئی دہلی ص23)

اکتساب:۔
اکتساب کے معنی سیکھنا یا آموزش کے ہیں ۔ اکتساب ایک ایساعمل ہے جو ماں کی گود سے گور تک جاری رہتا ہے بچہ بچپن میں جو بھی سیکھتا ہے وہ اپنی مادری زبان ہی میں سیکھتا ہے ۔ انسان سماجی حیوان ہے اس کو سماج سے مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا ہے سماج کی تمام ضروری صلاحیتوں کو اور قابلیتوں ، ضرورتوں کو حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو اطمینان بخش اور پرسکون بناسکے یہ ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے اس کے لئے فردکو تمام صلاحیتوں کوحاصل کرنا ہوتا ہے ۔ حاصل کرنے کا عمل ہی اکتساب کہلاتا ہے ۔

مادری زبان سکھانے کے مقاصد:۔
انعام اللہ خاں شیروانی نے اپنی کتاب تدریس زبان اردو میں مادری زبان سکھانے کے چند مقاصد کوبیان کیا ہے ملاحظہ ہو
(1)طلباء کو ذہنی اور دماغی طورپر آزاد کرنا ۔ مادری زبان کے ذریعہ بچہ اپنی زندگی کے متعلق آزادی سے سوچ سکتا ہے اور اپنے خیالات کو آزادی سے دوسروں تک پہنچاسکتا ہے ۔
(2) تہذیب وتمدن،فنون لطیفہ اورتجارت و صنعت کی طرف بچوں کو مائل کرنا اور ان کی خوب صورتی اور ترقی میں اضافہ وتکمیل۔
(3) طلباء میں نجی، انفرادی،سماجی اور قومی زندگی سے دلچسپی پیدا کرنا۔
(4)بولنا، پڑھنا، لکھنا، تحریر و تقریر میں صلاحیت، قواعد پر عبور،زبان میں سلاست وسادگی،قوت مشاہدہ، فکر ونظر کی نشو ونما اور خیالات کا بہتر اظہار۔
(5)ایک اچھا شہری بنانے کے علاوہ عمدہ لیڈرشپ کی تربیت اور انفرادی صلاحیتوں کا مالک بنانا۔
مادری زبان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی رقمطراز ہیں :

"دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے دنیا کے ہر ملک میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا ایک فطری اصول سمجھا گیا ہے اور غیر ملکی اور اجنبی اور غیر مادری زبان کے ذریعہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو غیر فطری غیر ضروری قرار دیا گیا ہے اس وسیع عرصہ کائنات میں ہزاروں قومیں آباد ہیں ۔ ایک قوم کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی ہے جس نے غیر مادری زبان میں تعلیم کے ذریعہ ترقی اور عروج کی منزلیں طئے کی ہوں ۔ مسلمانوں نے تاریخ میں اپنے عروج کے زمانہ میں دنیا کی بہت سی قوموں کے علوم سیکھے تھے لیکن اس طرح نہیں کہ انہوں نے دوسری قوموں کی زبانوں کی درسگاہیں کھول لی ہوں اور دوسری زبانوں کو اپنا ذریعہ تعلیم بنالیا ہو۔ آج بھی چین میں چینی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ انگریزی زبان یا کوئی غیر ملکی زبان کاسیکھنا بہت مفید ہے اور ایک زبان کی حیثیت سے اس کا پڑھنا اور پڑھانا اوراس میں مہارت پیدا کر لینا بہت اچھی بات ہے اور قومی ترقی کیلئے ناگزیر بھی ہے۔ "
(اردو کے مسائل، قومی زبان، ڈسمبر/جنوری2007-08ء حیدرآباد)

نشو ونما:
نشو ونما سے مراد کسی فرد کی صلاحیتوں، اخلاق، آداب اور دلچسپی،رویئے میں تبدیلی کو کہتے ہیں نشو ونما فرد کے پورے جسم میں واقع ہوتی ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے جو تاحیات جاری جاری رہتا ہے ۔ بچے کی ذہنی نشو ونما کیلئے مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہئے تاکہ بچے آسانی سے علم حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ ترقی کی منزلیں طئے کرتے ہوئے سماج میں نمایاں مقام حاصل کریں اور ملک اور خاندان کا نام روشن کر سکیں ۔
مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی ذہنی نشو ونما میں مادری زبان کی اہمیت مسلمہ ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مادری زبان اردوجس کے الفاظ شیریں اور اس کی خاصیت ہر فرد کو گرویدہ کرنے کی ہے ،کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دلائیں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کے مادری زبان سے فرار نا ممکن ہے کیونکہ مادری زبان سے متعلق ماہرین نے کئی تجربات کئے ہیں اور آخر میں اس بات کو متفقہ طورپر تسلیم کیا ہے کہ بچہ کی ذہنی نشو ونما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے اکیسویں صدی میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کومادری زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں ساتھ ہی ساتھ دیگر علوم کو بھی سکھائیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔

کتنی میٹھی زبان ہے اردو
شان ہندوستان ہے اردو

اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

ایم اے عزیز سہیل

The role of mother tongue in human development. Article by: M.A.Azeez Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں