ابن بطوطہ اور ہندوستان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-18

ابن بطوطہ اور ہندوستان

چودھویں صدی میں ابن بطوطہ دہلی آیا تھا۔
اس وقت تک پورا برصغیر ہند ایک ایسے عالمی نیٹ ورک رابطہ کا حصہ بن چکا تھا جو مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں شمالی آفریقہ اور یوروپ تک پھیلا ہوا تھا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ابن بطوطہ خود ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر سفر کئے تھے ۔ مقدس مذبہی یادگاروں کو دیکھا تھا، عالموں اور حکمرانوں کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ اکثر قاضی کے عہدہ پر فائز رہا اور شہری مراکز کی عالمی ثقافت سے لطف اندوز ہوا تھا۔ جہاں عربی، فارسی، ترکی اور دیگر زبانیں بولنے والے افراد، خیالات اور تاریخی تفصیلات میں شریک ہوتے تھے ۔ اس میں اپنے تقوی کیلئے مشہور افراد کی ایسے راجاؤں کی جو ظالم اور رحم دل دنوں ہو سکتے تھے اور عام مردو خواتین نیز ان کی زندگیوں کی کہانیاں شامل تھیں ۔ جو بھی غیر مانوس تھا اس پر خاص طور سے روشنی ڈالی جاتی تھی۔ ایسا یہ یقینی کرنے کیلے کیا جاتا تھا کہ سامع یا قاری دور دراز کی قابل پہنچ دنیا کے تذکروں سے پوری طرح متاثر ہو سکے ۔
ناریل اور پان۔ ابن بطوطہ کے طرزبیان کے طریقوں کی کچھ مثالیں ان طریقوں میں ملتی ہیں جن میں وہ ناریل اور پان۔ دو ایسی نباتاتی پیدوار جن سے اس کے قارئین پوری طرح ناواقف تھے کا ذکر کرتا ہے ۔

پان:
ابن بطوطہ پان کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے :
پان ایک ایسا درخت ہے جسے انگور کی بیل کی طرح ہی اگایا جاتا ہے ۔۔۔ پان کا کوئی پھل نہیں ہوتا اور اس کو صرف اس کے پتوں کیلئے ہی اگایا جاتا ہے ۔۔۔ اس کو استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کھانے سے پہلے چھالیا لی جاتی ہے ۔ یہ جائفل جیسی ہی ہوتی ہے مگر اسے تب تک توڑا (کترا) جاتا ہے جب تک اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں ہو جاتے اور انہیں منہ میں رکھ کر چبایا جاتا ہے ۔ اس کے بعدپان کے پتوں پر تھوڑا سا کتھا رکھ کر اس کے ساتھ انہیں چبایا جاتا ہے ۔

انسانی سر جیسا گری دار میوہ:
ناریل کا تذکرہ ابن بطوطہ اس طرح کرتا ہے ۔
یہ درختوں کی قسم میں سب سے منفرد اور نشو ونما کے طریقے میں متحیر کن درختوں میں سے ایک ہے ۔ یہ ہوبہود کھجور کے درختوں کی مانند نظر آتے ہیں ۔ ان میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ ایک سے گری دار میوہ حاصل ہوتا ہے اور دوسرے سے کھجور۔ ناریل کے درخت کا پھل انسانی سر سے مشابہت رکھتا ہے کیونکہ اس میں بھی مانو دو آنکھیں اور ایک منہ ہے اور اندر کا حصہ ہر ہونے کے سبب دماغ جیسا نظر آتا ہے ۔ اس سے جڑے ریشے بالوں جیسے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ اس سے رسی بناتے ہیں ۔ لوہے کی کیلوں کے استعمال کے بجائے اس سے جہاز کو سیتے (جوڑتے ) ہیں وہ اس سے برتنوں کیلئے رسی بھی بناتے ہیں ۔

ابن بطوطہ اور ہندوستانی شہر
ابن بطوطہ نے برصغیر ہند کے شہروں کو ان کیلئے پرجوش مواقع سے بھرپور پایا جن کے پاس ضروری جانفشانی، وسائل اور مہارت تھی۔ یہ شہر گھنی آبادی والا تیز و خوشحال، سوائے کبھی کبھی جنگ اور حملوں سے ہونے والے انتشار کے ۔ ابن بطوطہ کے بیان سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر شہروں میں بھیڑبھاڑوالی سڑکیں اور منور و رنگین بازار تھے جو مختلف طرح کی اشیاء سے بھرے پڑے رہتے ہیں ۔

ابن بطوطہ دہلی کو نہایت وسیع شہر، بڑی آبادی کے ساتھ ہندوستان کا سب سے بڑا شہر بتاتا ہے ۔ دولت آباد(مہاراشٹرا) بھی کم بڑا نہیں تھا اور رقبے میں دہلی کے مدمقابل تھا۔

دہلی۔
جسے اس عہد کی کتابوں میں اکثر دلی کے نام سے لکھا جاتا تھا۔ کا تذکرہ ابن بطوطہ اس اقتباس میں یوں کرتا ہے ۔ دلی ایک وسیع رقبے میں پھیلا گھنی آبادی والا شہر ہے ۔ شہر کے چاروں طرف مورچہ بندی یعنی حصار( شہر پناہ کی دیوار) کے مماثل ہے ۔ دیوار کی چوڑائی گیارہ ہاتھ( ایک ہاتھ تقریباً18تا20انچ) یا نیم گز ہے ۔ اس کے اندر رات کے پہرے دار اور دربانوں کے مکانات ہیں ۔ اس کے اندر اشیائے خوردنی، سامان جنگ( میگزین، گولہ بارود، منحبتقیں اور محاصرہ میں کام آنے والی مشینوں کو رکھنے کیلئے گودام بنے ہوئے ہیں ۔ بغیر خراب ہوئے ، ان حصار میں اناج طویل عرصہ تک رکھا جاسکتا تھا۔۔۔۔ حصار کے اندرونی حصہ میں گھوڑا سوار اور پیادہ فوجی شہر کے ایک جانب سے دوسری جانب جایا کرتے تھے ۔ کھڑکیاں شہر کے جانب کھلتی ہیں ۔ ان ہی کھڑکیوں کے ذریعہ روشنی اندر آتی ہے ۔ حصار کا نچلہ حصہ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے جب کہ اوپری حصہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک دوسرے کے قریب قریب کئی مینار بنی ہیں ۔ اس شہر کے 28 ابواب ہیں جنہیں دروازہ کہا جاتا ہے ۔ ان میں بدایوں دروازہ سب سے بڑا ہے ۔ مانڈوی، دروازے کے اندر ایک اناج منڈی ہے ۔ گل دروازے کے پھولوں کا بغل میں باغیچہ ہے ۔ اس (دہلی شہر) میں ایک بہترین قبرستان ہے جس میں موجود قبروں کے اوپر گنبد بنا ہے اور جن قبروں کے اوپر گنبد نہیں ہے ان پر ایک محراب ہے ۔ قبرستان میں بصلہ دار پودا یاسمین اور جنگلی گلاب وغیرہ پھول اگائے جاتے ہیں اور یہاں پھول سبھی موسم میں کھلے رہتے ہیں ۔

Ibn Batuta about India

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں