۔۔۔ پھر کسی بےگناہ کی گرفتاری نہ ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-23

۔۔۔ پھر کسی بےگناہ کی گرفتاری نہ ہو

حیدرآباد سلسلہ وار بم دھماکوں سے پورے ملک میں خوف و سراسمیگی پھیل جانا فطری امر ہے لیکن اب نہ صرف حیدرآباد میں بلکہ پورے ملک میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی اندھا دھند دار و گیر سے ایک نئے قسم کا خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے ۔
بلاشبہ دہشت گردوں کی اس بزدلانہ و وحشیانہ کار روائی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور مختلف محاذ پر سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے ہزار دعوؤں کے باوجود دہشت گرد اپنی کارستانیوں میں کس طرح کامیاب ہو جاتے ہیں؟
یہ ایسا سوال ہے جس پر حکومت کی جملہ ذمہ دار ایجنسیوں کو غور کرنا چاہئے ۔

وزارت داخلہ محض یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہی ہے کہ اس نے الرٹ جاری کر دیا تھا لیکن جس الرٹ کی بات کی جا رہی ہے وہ معمول کی ایک پریس ریلیز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ ایسے الرٹ کے ذریعے ہم کسی بھی دہشت گردانہ واقعہ کے سدباب کی توقع نہیں کر سکتے ۔ اس ملک کی ایک اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ یہاں مختلف ایجنسیوں کے درمیان ہمیشہ چپقلش اور کریڈٹ لینے کی ایسی ہوس ہوتی ہے کہ اس کی قیمت ہمیشہ عام آدمی کو دہشت گردانہ واقعات کی شکل میں جھیلنا پڑتی ہے ۔
آئی۔بی کے، این۔آئی۔اے اور اسپیشل پولیس کے، اے۔ٹی۔ایس کے درمیان اکثر اختلافات ابھرتے رہتے ہیں چنانچہ ماضی میں ممبئی لوکل ٹرین میں ہوئے بم دھماکوں کے تعلق سے الگ الگ ایجنسیوں کے جدا جدا خیالات سے کئی طرح کی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو چکی ہے ۔
اس لئے ملک کی سلامتی کیلئے کام کرنے والی ایجنسیوں کو چاہئے کہ باہمی ربط و تعاون کے ذریعے ہی کسی نتیچے پر پہنچیں ورنہ دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے اور دہشت گردوں کی گردنوں تک ہم کبھی پہنچ نہ سکیں گے ۔

دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی کافی غیر ذمہ دارانہ ہو گیا ہے ۔ حیدرآباد سلسلہ وار بم دھماکوں کے فوراً بعد کئی چینلوں نے یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ یہ کسی تنظیم کی کارستانی ہے جبکہ ایسا کرنے سے میڈیا کو پرہیزکرنا چاہئے کیونکہ اس طرح تحقیقاتی ایجنسیاں بعص دفعہ بھٹک جاتی ہیں اور ان کی تحقیقات کا رخ بدل جاتا ہے ۔
چنانچہ حیدرآباد بم دھماکوں کے تعلق سے پولیس کی ابتدائی جانچ کی شروعات ہی مسلم محلوں سے ہوئی ہے اور یہ غیر اعلانیہ طورپر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ یہ کارستانی مسلمانوں کی ہے ۔
میرا ماننا ہے کہ اگر اس میں کوئی بھٹکا ہوا مسلم نوجوان ملوث ہے تو اس کے خلاف سخت سے سخت کار روائی ہونی چاہئے لیکن اس کی گرفتاری میں معقولیت ہو، اس کے خلاف ثبوت و شواہد ہوں اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ گناہگار وہی ہے تو پھر اس کے خلاف کسی بھی کار روائی کو مسلمانوں سمیت ملک کا ہر شہری درست تصور کرے گا۔
لیکن حیدرآباد دھماکوں کے تعلق سے پولیس کی انکوائری کے رجحان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک بار پھر مسلم نوجوانوں کی شامت آنے والی ہے ۔

میں مرکزی وزارت داخلہ، آندھراپردیش پولیس اور جملہ خفیہ ایجنسیوں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مسئلہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پوری دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھائیں اور حقیقی مجرموں تک پہنچ کر ہی دم لیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ شدید دباؤ کے نتیجے میں پولیس پھر کوئی بے گناہ کو گرفتار کر کے پیش کرنے پر مجبور ہو جائے ، اس لئے حکام کو چاہئے کہ تحقیقاتی عمل کو متاثر ہونے سے بھی بچائیں ۔

سید فیصل علی

no innocent should be arrested again, Article by: Syed Faisal Ali

2 تبصرے:

  1. بہت ہی جامع تبصرہ ہے موجودہ حالات پر۔۔

    اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اکثر بے گناہوں کی ہی گرفتاری عمل میں آتی ہے ایسے واقعات کے بعد کیونکہ دہشت گرد تو اپنا کام کرکے چلتے بنتے ہیں ، اور حکومت کو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی ہندو دہشت گرد تنظیم کی مذموم حرکت ہے یا کسی اور کی ۔۔پر ڈھنڈورے تو مسلم دہشت گردی کے ہی پیٹے جاتے ہیں ۔۔اور گرفتاریاں ہوتی ہیں تو بس بے قصور مسلمانوں کی ۔۔
    اور یہ میڈیا تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اسکوٹ لینڈ یارڈ والوں کو بھی میلوں پیچھے چھوڑ دیا ہو ۔۔تفتیش کے فن میں ۔۔نتیجے تو ایسے نکالتے ہیں کہ انکی جیب میں پڑے ہوں سارے ثبوت۔۔

    جواب دیںحذف کریں