جنس کا جغرافیہ - قسط:4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-24

جنس کا جغرافیہ - قسط:4



محبت ایک جامع اور وسیع المعانی لفظ ہے ۔ اس کے اظہار کے بے شمار اسلوب اور تشریح کے جدا جدا انداز ہیں ۔ گذشتہ صفحات میں محبت کے مختلف النوع قسموں کی اجمالی سیر کرائی گئی ہے ۔ یہاں محبت کے ان نکات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو اب تک صفحہ قرطاس پر جلوہ گر نہیں ہوئے ۔

کثرت سے استعمال ہونے والے معدودے چند الفاظ میں یہ ایک چھوٹا سا لفظ "محبت" بھی ہے اور یہ لغت کے سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والے الفاظ میں سرفہرست ہے لیکن اس کا سارا الزام ہمارے سر نہیں ہے ۔ کسی حد تک اس کا سبب یہ حقیقت ہے کہ انگریزی زبان میں لفظ "محبت" کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ صوفی کی خدا کی تلاش کرنے کی لگن، محب وطن کی اپنے ملک سے وفاداری، ماں کی ممتا، بھائی کا اپنی بہن کا محفاظت کا احساس، عاشق کا اپنی محبوبہ کے لئے شدید جذبہ لفظ "محبت" ان سب کی ترجمانی کرتا ہے ۔
یہ لفظ بہت زیادہ ضرورت سے زیادہ بلکہ بری طرح مستعمل ہے اور اگر ہم اپنی نادانی کی وجہہ سے بعض محفلوں میں استعمال کرجائیں تو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے ۔

محبت ایک آزمائشی لفظ بھی ہے اور اس کی مدد سے ہم اپنے دوستوں اور شناساؤں کے انفرادی ردعمل کا جائزہ لے کر انہیں الگ الگ مختلف کرداری گروہوں میں رکھ سکتے ہیں ۔ ان کی تقسیم بالکل اسی طرح کر سکتے ہیں جس طرح ایک سائنسداں حیوانات کی تقسیم کرتا ہے ۔ فرد کے کردار کو صاف صاف سمجھنے کیلئے جنس اور دولت سے زیادہ نمایاں کوئی دو کسوٹیاں نہیں ہیں ۔ شاید صرف صوفی اور جو گی ان دو مسائل سے بے نیاز رہتے ہیں ۔

جب تک حضرت آدم اکیلے تھے اس وقت تک یہ دنیا ان کیلئے ایک ویرانہ تھی۔ آبشاروں کے وجد آفریں نغمے ، پرندوں کے مسحور کن گیت، پھولوں کے تبسم، باد صبا کے جھونکے ، کلیوں کی چٹک، ڈالیوں کی لچک، سب ان کیلئے پھیکے تھے ۔ لیکن جب آدمی کو سمٹی سمٹائی، شرمیلی سی، جھکی جھکی گھنی پلکوں والی، شب عروسی کی خاموش دلہن، حوا مل گئیں تو ان کا ویران دل بہشت زار بن گیا ہے یہ تھی اس کرہ ارض پر محبت کی ابتداء!

محبت بڑا البیلا مرض ہوتا ہے جیسے جیسے اندر ہی اندر کوئی چیز میٹھی آنچ پر پک رہی ہو، جیسے اندر ہی اندر دل میں بیشمار دروازے کھلتے اور بند ہوتے جا رہے ہوں ۔ جیسے اندر ہی اندر لا تعداد کلیاں چٹک چٹک کر اپنے منہ کھولتی ہوں ۔ ہر پہر خو صورت اور ہر بولی، نغمہ نظر آتا ہے ۔ ایک دم جیسے دنیا بدل گئی ہو، خواہ مخواہ ہونٹوں پر ہنسی مچل جاتی ہے ۔ محبوب تمام امیدوں کا مرکز، پوری زندگی کا حاصل بن جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا کوئی قطعی جواب نہیں ہے کیونکہ منطق اور محبت میں ازلی بیر ہے !

محبت آج بھی بقاء نسل کیلئے ، مرد کیلئے عورت میں اورعورت کیلئے مرد میں قدرتی کشش کا سامان رکھتی ہے ۔ آج بھی انسان کی یہی خواہش ہے کہ کسی دوسرے کی رفاقت کے سہارے اس کی اور اپنی مصیبتوں کے بوجھ کو ہلکا کرے ۔
محبت دراصل اس انسانی روح کیلئے شدید خواہش کا اظہار ہے جو ہمیں تنہائی کے عذاب سے بچالے ، پہلے ہم تنہائی کے عذات سے چھٹکارا پانے کیلئے خدا کے تصور میں سکون ڈھونڈا کرتے تھے لیکن اب اپنے برابر کی آغوش ہی میں چین مل سکتا ہے ۔ کسی ایسی روح کے آغوش میں جو خود بھی ہمارے انتظار میں جاگ رہی ہو، جس کی آنکھوں میں ہمیاری جیسی خواہش کی آگ جل رہی ہو، جسے محبت نے یہ معجزانہ طاقت بخشی ہو کہ ہماری روح کو اس تکلیف دہ احساس سے نجات دلاسکے ، جس طرح وہ خود ہماری محبت کی معجزانہ طاقت سے نجات پائیگی۔

دراصل محبت اس روح میں جذب ہو جانے کا نام ہے جس میں ہماری ذات اپنی آزادی کو کھوئے بغیر جینے کا سہارا پاتی ہے ۔ ایک ایسا دل جس کی قربت ہمارے دل کی بے چینی کو سکون بخشتی ہے ۔ ایک ایسا کان جو ان سب باتوں کو سن سکے جو لب پر نہیں آ سکتیں ، ایسی تیز آنکھیں جو ایک ہی نگاہ میں ہماری بہترین صلاحیتوں کو بھانپ لیں ، اپنے خوبصورت ہاتھ جو ہمیں چھوئیں تو ہم یوں محسوس کریں جیسے ہم بے خود ہوئے جا رہے ہیں !

محبت میں جب دو روحوں کو ایسی مسرتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں حواس بھی حصہ دار ہوتے ہیں اور جب حواس کو ایسی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں جن میں روح نجابت بخش دے تو دونوں ایک نئے احساس میں اس طرح جذب ہو جاتی ہیں کہ کسی ایک کی جداگانہ حیثیت باقی نہیں رہتی، بالکل اسی طرح جیسے ہوا کے اجزائے ترکیبی میں آکسیجن اور نائٹروجن۔ صرف نائٹروجن کا نام ہوا نہیں ہے اور نہ ہی صرف آکسیجن ہوا ہے ۔ اسی طرح خالی حواسیت کا نام محبت، نہ خالی ہمدردی کا، لیکن حواسیت اور ہمدردی کے مرکب سے زندگی اور موت کی ہوا بن جاتی ہے اور وہ محبت جو زندگی میں سرشاری کی کیفیت پیدا کرتی ہے اعلیٰ ترین دوستی سے بھی اعلیٰ ہے ۔ اعلیٰ ترین ددوستی کی پوری زندگی محبت کے ایک دن کے برابر بھی نہیں ہوتی!

موجودہ زمانے میں شدید جذباتی چاہت مردوں اور عورتوں میں ایک عام دستور ہے اور جو محبت کی صبح صادق کی سرخی کی مانند ہے جو طلوع آفتاب کے بعد ہمیشہ پھیکی پڑجاتی ہے ۔ اس کے برعکس خالص ذاتی اور سچی دوستی، سچی محبت کی طرح بالکل عنقا ہے ۔ مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ کیوں کہ اگر ایک بار سنجیدگی سے دوستی کو واقعی محبت کا نعم البدل سمجھ لیا جائے تو اس میں جہاں میں سرد ہوائیں چلنے لگیں گی۔ سمجھ داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبت سے سب کچھ طلب کیا جائے اور دوستی سے اتنا کہ وہ برداشت کر سکے ۔

یہ کہنابالکل درست ہے کہ محبت ایک زبردست نفسیاتی حقیقت ہے ۔ اس لئے ہر انسان میں چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش ہوتی ہے ۔ عورتوں میں تو یہ جذبہ کچھ زیادہ ہی شدید ہوتا ہے کیونکہ احساس کمتری اور اس کے پیدا کردہ عدم تحفظ کے احساس کا یہی تقاضہ ہوتا ہے کہ اسے کوئی چاہے ۔ کسی کی والہانہ محبت اس کیلئے ایک چٹان کا کام دیتی ہے ۔ جس سے حوادث کی موجیں سر ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں ۔ جن عورتوں اور مردوں نے صدہا مشکلات اور مخالفتوں کے بعد اپنے محبوبوں کو حاصل کیا ہے وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ اگر انہیں اس پیار کا سہارا نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی حالات کے خلاف نبرد آزما نہ ہو سکتے ۔

عام طورپر محبت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اندھی ہوتی ہے ۔ شاید یہ "پہلی نظر کی محبت" کے بارے میں ہے کہا جاسکتا ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ "پہلی نظر کی محبت" آخر کیا بلا ہے ؟ کیا پہلی نظر کی محبت ے تجربے میں کوئی حقیقت پنہاں ہے اور کیا اس قسم کا دعویٰ کامیاب ازدواجی زندگی کی ضمانت ہے ؟

"پہلی نظر کی محبت" کی زیادہ صحیح تعریف یہ کہ جنس مخالف کی ذات میں فوری اور غیر معمولی کشش محسوس ہو اور اس کی بنیاد عموماً جسمانی کشش ہوتی ہے ۔ ایک مرد یہ یقین رکھ سکتا ہے کہ وہ ایک عورت سے اسی وقت محبت کرنے لگاہے ، جب اس نے اسے پہلی بار دیکھا تھا کیونکہ وہ اس کے خوبصورت چہرے ، اس کی حسین آواز، اس کی آنکھوں اور بالوں یا اس کے لباس میں کشش محسوس کر چکا تھا۔ جسمانی کشش خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو "محبت" نہیں کہلائی جا سکتی۔ اس قسم کی کشش جذبات محبت کا اہم جز تو ہو سکتی ہے لیکن اسے ہی سب کچھ خیال کرنا حماقت ہے ۔ ایک ایسی محبت جو خالص جسمانی کشش کے باعث کی گئی ہو زندہ نہیں رہ سکتی۔

"محبت" کو برسوں تک زندہ رکھنے کیلے مرد اور عورت میں ذہنی یگانگت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ وہ ہر بات پر متفق ہوں ۔ اگر عورت، مرد کی ہر بات پر ہاں کہدے تو وہ "مرد کی لونڈی" ہو کر رہ جائے گی اور اگر مرد عورت کی ہردم حامی بھرتا رہے تو وہ "زن مرید" ہو کر رہ جائے گا اور بحث مباحثہ کا لطف ہی جاتا رہے گا۔

اصولی طورپر دو چاہنے والوں کے درمیانی ذہنی اور عقلی سطح کا ایک ہونا ضروری ہے ۔ ایک عورت، مرد کے بلند قامت جسم اور خوبصورت چہرے کے علاوہ بھی کچھ چاہتی ہے ۔ اسی طرح مرد بھی عورت کے حسن اور جسمانی کشش پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ وہ لوگ جو "پہلی نظر" میں محبت کرنے لگتے ہیں ، یہ نہیں جان سکتے کہ ذہنی اعتبار سے وہ ایک سطح پر ہیں یا نہیں ۔ بعد کی ملاقاتوں سے ممکن ہے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے اور اس طرح رومان کا خواب پریشان ہو جائے ، کیونکہ محبت کی بنیادیں جذباتی اور وقتی پہلوؤں پر نہیں رکھی جاسکتیں ۔ محبت کسی کے جسم سے نہیں بلکہ اس کی ہستی، اس کی شخصیت سے کی جانی چاہئے ۔

تجربے بتلاتے ہیں اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے اچھے رفیق ثابت نہیں ہوتے تو محض اس کی وجہ محبت ناکام نہیں ہوتی۔ محبت دراصل جسمانی کشش سے نہیں بلکہ ذہنی مطابقت سے کامیاب ہوتی ہے ۔ محبت ناکام نہیں ہوتی بلکہ دونوں فریق ناکام ہوتے ہیں ۔ اگر دونوں افراد ذہنی طورپر بالغ ہیں تو بآسانی محبت کو کامیاب بنا سکتے ہیں ۔

اب یہ فرض کیجئے کہ ایک فریق تو بالغ الذہن ہے اور دوسرا فریق اس بلوغت تک نہیں پہنچا تو کیا کرنا چاہئے ؟ ظاہر ہے کہ اگر محبت کو قائم رکھنا ہے تو بالغ النظر فریق کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر دونوں اس بلوغت تک نہیں پہنچے ہیں تو دونوں کا کیا حشر ہو گا؟ سچ تو ہے کہ یہ دونوں "مبتلائے محبت" ہی نہیں ہوئے ۔ دونوں بچے ہیں ، جو ایک دوسر سے کھیل رہے ہیں ، لڑرہے ہیں ، روٹھ رہے ہیں ، من رہے ہیں ۔ اسی لئے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ کامیاب محبت کیلئے فریقین کا اپنی اپنی ذہنی بلوغت کا صحیح صحیح اندازہ لگانا ضروری ہے ۔

Jins Geography -episode:4

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں