حسرت جے پوری - مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-10

حسرت جے پوری - مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے

تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے ۔۔۔۔۔ جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے

حسرت جئے پوری
بس کنڈاکٹر سے گیت کار تک


تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے،( فلم : پگلا کہیں کا ) جانے کہاں گئے وہ دن ( فلم : میرا نام جوکر ) خدا بھی آسماں سے جب زمیں پر دیکھتا ہو گا،
( فلم : دھرتی )بے دردی بالماں تجھکو میرا من یاد کرتا ہے، ( فلم : آرزو ) د نیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی،( فلم : تیسری قسم ) لال چھڑی میدان کھڑی،( فلم : جانور )یا ہو چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے،(فلم : جنگلی )بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے،( فلم : سورج ) گمنام ہے کوئی بدنام ہے کوئی، ہمیں کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں ( فلم : گمنام ) دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے ( فلم : برہمچاری ) دل اپنا اور پریت پرائی،غم اٹھانے کے لئے میں تو جئے جاؤنگا ( میرے حضور )،یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا ( فلم : سنگم )اپریل فول بنایا تو ان کو غصہ آیا،تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے چشم بد دور سے لیکر سن سائبا سن پیا ر کی دھن ( فلم : رام تیری گنگا میلی ) جیسے لافانی گیتوں کے خالق حسرت جئے پوری کی پیدائش15/اپریل 1922ء کوراجستھان کے گلابی شہر جئے پور میں ہوئی ان کے نانا فدا حسین ایک شاعر تھے تو حسرت نے بھی ان سے زانوئے ادب طئے کیا، حسرت جئے پوری مشہور شاعر حسرت موہانی سے متاثر تھے یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اپنا تخلص بھی حسرت رکھ لیا جبکہ ان کا اصل نام محمد اقبال تھا 1940ء میں تلاش معاش کہ سلسلہ میں ممبئی آ گئے اور مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ میں ماہانہ 40/روپیوں کی تنخواہ پر ملازمت اختیار کر لی 5/ڈسمبر 1988ء کو میں نے دہلی کے ایک اسپورٹس رسالہ کے لئے حسرت جئے پوری سے ان کے مکان واقع کھار ممبئی میں انٹرویو لیا تھا اس وقت حسرت جئے پوری نے بتا یا تھا کہ وہ بس کنڈاکٹر کی ملازمت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں بھی اپنا کلام سنایا کرتے تھے اسی دوران ڈونگری میں پرتھوی راجکپور کی صدارت میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں حسرت جئے پوری نے اپنی مشہور نظم 'مزدور'سنائی تھی مشاعرہ کے اختتام پر پرتھوی راجکپور نے حسرت جئے پوری کو گلے لگا کر کہا کہ میرا لڑکا ( راجکپور ) ' برسات 'بنا رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہیکہ تم اس میں بہترین گیت لکھو گے شاید حسرت جئے پوری بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے اور جلد ہی راجکپور سے جاملے اور فلم برسات سے پانچ نوجوانوں کی ٹولی ایک نئی پہچان کے ساتھ فلمی دنیا کے افق پر نمودار ہوئی اور کامیابی نے راتوں رات ان کے قدم چوم لئے یہ ٹولی تھی اداکار، فلم ساز و ہدایت کار راجکپور،موسیقار جوڑی شنکر اور جئے کشن،
گیت کار شیلی شیلندر اورحسرت جئے پوری زائد از 40/سال یہ ٹولی فلمی دنیا میں دھوم مچاتی رہی اور شائقین کے دلوں پر راج کرتی رہی حسرت جئے پوری نے 55/سے زائد موسیقاروں کے ہمراہ کام کیازائد از 500/فلموں میں گیت لکھے لیکن موسیقار آعظم نوشاد کے ہمراہ کام کرنے کی حسرت حسرت جئے پوری کے دل میں رہ گئی ۔ حسرت جئے پوری ایک لمبے عرصہ تک اپنے فلمی گیتوں کے ذریعہ شائقین کے کانوں میں اپنے نغمات، غزل، گیت اور گانوں کی شیرینی انڈیلتے رہے پیار، محبت،غم و الم،ہجر و وصال غرض انسانی زندگی کا ایسا کوئی جذبہ و پہلو نہیں جسے حسرت جئے پوری نے اپنے نغمات میں سمویا نہ ہو حسرت جئے پوری کے لاتعداد گیت چل نکلے کئی فلمیں ہٹ ہوئیں۔

برسات، آوارہ، شری 420، چوری چوری، سنگم، جس دیش میں گنگا بہتی ہے،میرا نام جوکر،تیسری قسم،دل اپنا اور پریت پرائی، آرزو، جنگلی، جانور، بلف ماسٹر، بدتمیز،پگلا کہیں کا،سسرال، سورج، میرے حضور،دل ایک مندر، راجکمار،ہمالیہ سے اونچا،دھرتی،برہمچاری جیسی ان گنت فلمیں شامل ہیں جب میں نے حسرت جئے پوری سے ملاقات کی تھی یعنی 22/سال قبل تو اس وقت بھی وہ فلموں میں گانوں کے معیار کو لیکر سخت مایوس تھے اس وقت ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا تھا کہ موسیقار خود ہی گیت لکھ رھے تھے اور اس کو انہوں نے تگ بندی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں بھی بہت جلد عریانی عام ہو گی اور عریاں فلمیں بننے لگیں گی اس وقت عامر خان کی پہلی فلم قیامت سے قیامت تک ریلیز ہوئی تھی اس کا ایک گیت اکیلے ہیں تو کیا غم ہے مزا آ رہا ہے قسم سے ...دہراتے ہوئے مایوسی کے ساتھ حسرت جئے پوری نے پوچھا تھا کہ مجروح سلطانپوری بھی ایسے گیت لکھنے لگیں گے تو کیسا ہو گا ! حسرت جئے پوری نے دوران ملاقات کہا تھا کہ ان کے دور میں سچویشن کے حساب سے گیت لکھے جاتے تھے تا کہ گیتوں میں سچویشن باقی رہے جیسے انہوں نے فلم آرزو کے گیت کشمیر میں رہ کر لکھے تھے اور یہی وجہ تھی کہ بے دردی بالماں تجھکو میرا من یاد کرتا ہے گیت میں خزاں کے بھیس میں گرتے ہیں اب پتے چناروں سے کا جملہ بھی قلمبندھ ہوا تھا اسی ملاقات میں حسرت جئے پوری نے مجھے بتایا تھا کہ جب تک راجکپور بقید حیات تھے انہیں آر کے اسٹوڈیوز کی طرف سے ماہانہ 500/روپئے روانہ کئے جاتے تھے اور جب راجکپور کا انتقال ہو گیا تو یہ رقم بند کر دی گئی ایک لمبے عرصہ کے بعد راجکپور نے اپنے لڑکے راجیو کپور کو لیکر فلم رام تیری گنگا میلی بنائی تھی تو ضد کر کے حسرت جئے پوری سے ایک گیت لکھوایا تھا جبکہ اس فلم کی موسیقی اور دوسرے گیت موسیقار رویندر جین نے لکھے تھے تا ہم حسرت جئے پوری کا لکھا ہوا گیت اس سال کا سب سے سوپر ہٹ گیت ثابت ہوا تھا جس کے بول تھے ' سن سا ئبا سن، پیار کی دھن، میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن ۔ پھر اس کے بعد اپنی فلم حناء کے لئے بھی راجکپور نے حسرت جئے پوری سے ایک گیت لکھوایا تھا جس کے بول تھے آزو میں ہم کھڑے تھے، بازو میں تم کھڑے تھے ۔ ۔ لیکن راجکپور کو زندگی نے اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ حناء بنا پاتے بعد میں رویندر جین کی موسیقی اور گیتوں کے ساتھ اس فلم کو راجکپور کے بیٹوں رندھیر کپور، رشی کپور اور راجیو کپور نے بنائی اور یہ گیت اس فلم میں شامل نہیں کیا گیا ۔ حسرت جئے پوری کو فلمی گیت لکھنے میں شہرہ حاصل تھا ان کے ساتھی گیت کار شیلندر نے بطور پروڈیوسر ایک فلم بنائی تھی راجکپور اور وحیدہ رحمن کو لیکر تیسری قسم اس فلم کے گیت انہوں نے حسرت جئے پوری سے ہی لکھوائے تھے جس کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا ' دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی۔ ۔ کا ہے کو دنیا بنائی ۔ لندن یونیورسٹی نے حسرت جئے پوری کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی شاید یہ اردو کے پہلے شاعر و گیت کار تھے ۔ ان کے کئی گیت دیگر زبانوں بشمول انگریزی میں بھی ترجمہ کئے گئے تھے

1966ء میں فلم سورج کے گیت بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے پر حسرت جئے پوری کو فلم فے ئر ایورڈ حاصل ہوا تھا جبکہ دوبارہ 1972ء میں راجیش کھنہ کی فلم انداز کے گیت ' زندگی ایک سفر ہے سہانہ یہاں کل کیا ہو کس نے جانا ' پر بھی حسرت جئے پوری کو فلم فے ئر ایورڈ حاصل ہوا تھاجبکہ حسرت جئے پوری 1962ء میں فلم سسرال کے گیت تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے،1963ء میں فلم پروفیسر کے گیت ائے گلبدن پھولوں کی مہک کانٹوں کی چبھن،کے لئے،1966ء ہی میں فلم آرزو کے گیت اجی روٹھ کر اب کہاں جاؤ گے،اور 1968ء میں فلم برہمچاری کے گیت دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے یادوں کو تیری میں دلہن بناکے،کے لئے بھی فلم فئیر ایوارڈ کے لئے وہ نامزد ہوئے تھے ۔
لیکن افسوس کہ اپنی زندگی کے 55/سے زیادہ قیمتی سال فلمی دنیا کے حوالے کرنے والے حسرت جئے پوری اپنی زندگی کے آخری ایام میں بے روزگار ہو کر رہ گئے تھے ان کے بھانجے موسیقار انو ملک نے چند فلموں میں ان سے گیت بھی لکھوائے لیکن کامیابی نہیں مل پائی ۔ اس وقت دوران ملاقات میں نے حسرت جئے پوری سے پوچھا تھا کہ اتنے سالوں تک اپنے گیتوں کے ذریعہ دھوم مچانے کے باؤجود کیا بات ہیکہ آج کل آپ کا کام اور نام کم ہی نظر آتا ہے تو خلاؤں میں گھورتے ہوئے حسرت جئے پوری نے کہا تھا کہ فلم انڈسٹری میں گروپ بندی لازمی ہے جیسا کہ ہم پانچوں کا گروپ تھا ۔ زندگی کے آخری ایام میں حسرت جئے پوری نے خود کو اپنے گھر تک محدود کر لیا تھا اپنی غزل نامی عمارت ایک بینک کو کرایہ پر دے رکھی تھی اور دن تمام ٹیپ ریکارڈر پر محمد رفیع اور مکیش کی آواز میں اپنے لکھے ہوئے گیت سنا کرتے تھے مجھے اس وقت تعجب ہوا تھا کہ اتنے عظیم اور مقبول زمانہ گیتوں کا خالق اور اتنی سادہ زندگی !
میں ان کی قیام گاہ پر زائد از 5/گھنٹوں تک رہا اس دوران ان کی جانب سے نہ کسی کی برائی نہ کسی کے خلاف کوئی شکایت !
حسرت جئے پوری نے بھلے ہی بے روزگار رہ کر اپنی باقی ماندہ زندگی گذاری ہو لیکن گھٹیا اور نچلی سطح کے گیت لکھ کر کبھی خود کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کی بھو ل کبھی نہیں کی یہ ان کا ظرف تھا۔
بالآخر اپنے لافانی و لاثانی سینکڑوں گیتوں کے خالق حسرت جئے پوری طویل مدت کی علالت کے بعد کی عمر میں جگر اور گردہ کے عارضہ کے باعث 17/ستمبر 1999ٗ کو ممبئی کے ایک خانگی ہسپتال میں انتقال کرگئے ۔
جب کبھی بلند پایہ شاعری، کانوں میں رس گھولتے نغموں اور درد بھرے گیتوں و نغموں کی بات چلے گی تو حسرت جئے پوری کا نام اور کام
سب سے اوپر رہے گا۔ اور آنے والی نسلیں ان کے گیتوں کے ذریعہ ہی صحیح فلمی گیتوں کا معیار طئے کریں گی۔

یحییٰ خان

Hasrat Jaipuri - Article by: Yahiya Khan (Tandur).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں