فیس بُک نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی مقبولیت حاصل کرنی شروع کی۔ کیونکہ یہ سہولت ابھی تک مفت ہے ۔ اس کے لئے آپ کو صرف انٹرنیٹ کنکشن رکھنا ہو گا۔ فیس بُک کی بڑھتی مقبولیت دیکھ کر فون بنانے والی بڑی کمپنیوں نے اپنے فون میں راست فیس بُک کھولنے کی سہوت دی ہے ۔ اب لوگ سفر میں اور جہاں بھی ہوں دنیا بھر کے دوستوں سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ اور انہیں پیغام روانہ اور حاصل کر سکتے ہیں ۔ 2009ء میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق فیس بُک کو ساری دنیا میں سب سے ذیادہ استعمال ہونے والے سماجی ویب سائٹ کا مقام حاصل ہوا ہے ۔ فیس بُک پر آن لائن گیمس کھیلنے کی سہولت بھی موجود ہے ۔ فیس بُک کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی نصف آباد ی فیس بُک کی رکن ہے ۔ اور یہ تعداد ایشیائی ممالک میں بھی بڑھ رہی ہے ۔ تاہم فیس بُک کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کئی لاکھ کم عمر بچے رکن بنے ہوئے ہیں ۔ اور وہ فیس بُک کے مضر اثرات کا شکار ہورہے ہیں ۔ فیس بُک کو مالیہ کی فراہمی اشتہارات سے ہوتی ہے ۔ سنا ہے کہ اس کے صفحات پر کم خرچ میں اشتہارات دئے جاتے ہیں اور اس کے اشتہارات کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے ۔ فیس بُک کو غلط استعمال کرنے کی شکایات عام ہیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ یہ اکثر تنازعات میں گھرا رہتا ہے ۔ اور دنیا کے چند ممالک جیسے چین،ویتنام،ایران ،ازبکستان، پاکستان،شام اور بنگلہ دیش وغیرہ میں فیس بُک پر پابندی عائد کی گئی ۔ لیکن انٹرنیٹ کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر اس پر پابندی قائم رکھنا ان ممالک کے لئے مشکل رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں مصر میں جو عوامی انقلاب آیا اس کی شروعات بھی فیس بُک کی وجہہ سے ہی ہوئی۔ جبکہ ایک خاتون نے فیس بُک پر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ مصر کے تحریر اسکوائر پر جا رہی ہے ۔ تاکہ مصر کی آزادی کی تحریک شروع کی جا سکے اس نے نوجوانوں کو آواز دی کہ اگر وہ چاہیں تو اس کی تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ اور فیس بُک کے ایک پیغام نے مصر میں حکومت کی بے دخلی میں اہم رول ادا کیا۔ فیس بُک پر یہ بھی الزام ہے کہ اس کے ذریعے یہودی لابی اسلام مخالف حملے کر رہی ہے ۔ اور لوگوں میں مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے ۔ اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جبکہ فیس بُک کے ہیکرس کی جانب سے مسلم ناموں کے ساتھ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی تصاویر کو دلآزاری کے ساتھ پوسٹ کیا جا رہا ہے ۔ لیکن مسلم نوجوانوں کے گروپ فیس بُک کو اسلام کوعام کرنے کے ایک مقبول ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس لئے فیس بُک پر اسلامی باتیں ،احادیث،اقوال زرین اور اسلامی ویڈیوز پوسٹ کئے جا رہے ہیں ۔ فیس بُک پر یہ بھی الزام ہے کہ اس سے ملازمین کی کمپنیوں میں کام کرنے کی صلاحیت پر فرق آیا ہے ۔ اس لئے کمپنیوں میں فیس بُک کے استعمال پر پابندی عائد کی جا رہی ہے ۔ کیونکہ پیغامات کی وصولی اور بھیجنے میں نوجوانوں کا کافی وقت صرف ہورہا ہے ۔ فیس بُک پر جھوٹی اطلاعات پوسٹ کرنے سے انتظامیہ کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک لڑکی نے فیس بُک پر اپنی سالگرہ کا دعوت نامہ پوسٹ کر دیا۔ اسے پڑھ کر ہزاروں نوجوان بغیر مدعو کئے دعوت میں شریک ہو گئے جس سے انتظامی بد نظمی ہو گئی۔ فیس بُک نے کئی بچھڑے لوگو ں کو ملانے کا کام بھی کیا ہے ۔ دنیا میں ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جس سے کئی سال کے بعد بچھڑے لوگ آپس میں مل گئے ۔ اگر فیس بُک کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے سماجی بیداری اور عوامی رابطے کا کام لیا جا سکتا ہے ۔ بمبئی میں ایک تنظیم آل انڈیا مسلم پروفیشنلس نامی ہے جس کا فیس بُک پر گروپ بھی ہے۔ یہ گروپ مسلمانوں کی تعلیمی،اقتصادی اور ملی ترقی کے لئے اچھا کام کر رہا ہے اور ساری دنیا سے لوگ اس گروپ پر مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ایک گروپ کے دو لاکھ سے بھی ذیادہ اراکین ہیں ۔ فیس بُک چونکہ نوجوان ذیادہ استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کی پسند کے گروپ جیسے شعر وشاعری گروپ اور دیگر تفریحی گروپ مقبول ہیں ۔ اور دیکھا جا رہا ہے کہ فیس بُک پر نوجوان روزانہ گھنٹوں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں ۔ جذبات کو بر انگیختہ کرنے والی تصاویر ،پیغامات اور ویڈیو پوسٹ کئے جا رہے ہیں ۔ اور فضول باتوں اور چاٹنگ میں وقت گذار رہے ہیں ۔ فیس بُک سہولت ہے لیکن اس کے غلط استعمال سے یہ ایک لعنت بن گئی ہے ۔ نوجوان جھوٹے اکاؤنٹ کھول کر اور خوبصورت تصاویر لگا کر نئے لوگوں کو راغب کر رہے ہیں اور ان سے دوستی کے نام پر تعلقات بڑھا رہے ہیں اور بعد میں دھوکہ دہی اور زندگی کی بربادی کی مثالیں سامنے آ رہی ہیں ۔ چونکہ فیس بُک کا رکن سامنے موجود نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے ۔ اس لئے اگر کسی کے اخلاق خراب ہوں تو تہذیب سے گرے ہوئے پوسٹ کرے گا۔ اور ہم صرف اس کے پوسٹ کو بلاک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں انہیں قیمتی فون دلانے کے ساتھ انہیں سمجھائیں کہ ان کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجنبیوں سے دوستی نہ کریں اگر کریں بھی تو ان سے اپنی ذاتی تصاویر اور دیگر شخصی معلومات اور فو ن نمبر شئیر نہ کریں ۔ اور جہاں تک ہو سکے اپنی حد میں رہیں ۔ فیس بُک کا سب سے بڑا نقصان وقت کی بربادی ہے ۔ اگر یہ تجزیہ کیا جائے کہ مسلمانوں کو بے عمل کرنے اور ان کے اخلاق خراب کرتے ہوئے انہیں مذہب سے دور کرنے کی فیس بُک کوئی چال ہے تو یہ تجزیہ غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ اب مسلم نوجوانوں پر اس کے مضر اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ اس لئے اس دھوکے میں رہنے کے بجائے کہ ہم فیس بُک کے ذریعے اسلام پر ہورہے حملوں کا جواب دیں گے مسلمانوں کو چاہئے کہ و ہ فیس بُک کے استعمال میں احتیاط ہی کریں تو بہتر ہو گا۔ انٹرنیٹ پر فیس بُک کی طرح کئی سہولتیں جیسے بلاگ،ٹویٹر،آرکٹ،یا ہو مسینجر،اسکائپ نمبز وغیرہ ہیں۔ جنہیں نوجوان استعما ل کر رہے ہیں۔ بہر حال انٹر نیٹ پر موجود حد سے ذیادہ معلومات اور اچھی بری جھوٹی سچی معلومات انسان کو زندگی کی ڈگر سے ہٹا رہی ہیں جن کی جانب سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی |
ٖFacebook, a facility or a curse? Column by: Dr.Aslam Farooqi (Nizamabad)
السلام عليكم
جواب دیںحذف کریںيه جو دنيا كه اطراف ايك جال هئ انترنيت.......لعنت اور رحمت سبهي حاصل هئى.....جو لعنت كه مستحق هئ وه فيس بوك كا غلط استعمال كر ته هئ.......جو الله كى دي هوئ اس رحمت سه مشعل راه هو جاته هئ فائده اور علم حاصل كرتئه هئى. همارئ قوم كسطرف جارهى هئ لعنت يا رحمت ......دعا كريىى
هماري قوم راه مستقيم بر رهئ اور اس لعنت سه دور رهئ...امين
جی درست کہا آپ نے
جواب دیںحذف کریں