افضل گرو پھانسی - جمہوریت پر داغ - اروندھتی رائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-17

افضل گرو پھانسی - جمہوریت پر داغ - اروندھتی رائے

کیا ایسا ہی نہیں تھا؟
میرا مطلب ہے 9/ فروری کے دن سے جب دلی میں بہار نے اپنی آمد کا اعلان کیا سورج طلوع ہوا اور قانون نے اپنی کار روائی پوری کی۔ ناشتے سے ٹھیک پہلے 2001 ء میں پارلیمنٹ پر حملے کے کلیدی ملزم افضل گرو کو خفیہ طریقے سے پھانسی دے دی گئی اور اس کی لاش کو تہاڑ جیل میں دفنادیا گیا۔
کیا اسے مقبول بھٹ کے بغل میں دفنایا گیا؟ (جو ایک کشمیری ہی تھا اور جسے 1984ء میں تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی)۔
افضل کی اہلیہ اور اس کے بیٹے کو اطلاع نہیں دی گئی۔ داخلہ سکریٹری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حکام نے اس کے ال خانہ کو یہ اطلاع اسپیڈ پوسٹ اور رجسٹرڈ ڈاک سے دی ہے اور افسران نے جموں و کشمیر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کو اس بات کی تفیش کرنے کا کہا ہے کہ انہیں یہ اطلاع ملی یا نہیں ۔
کیا فرق پڑتا ہے آخر وہ ایک کشمیری دہشت گرد کے اہل خانہ ہی تو ہیں ۔

ملک کے انوکھے اتحاد کم سے کم سیاسی پارٹیوں کی یکجہتی کے اس موقع پر کانگریس، بی جے پی اور سی پی ایم ("تاخیر" اور وقت کے تعلق سے چھوٹے موٹے اختلافات کو چھوڑ دیا جائے تو) قانون کی حکمرانی کا جشن منانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر آ گئیں ۔
ملک کا ضمیر جو آج کل ٹیلی ویژن اسٹوڈیو سے براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے اس نے ہم لوگوں پر اپنی اجتماعی دانشوری کا حملہ کیا۔ مذہبی جذباتیت اور حقائق پر نازک گرفت کا موجودہ کاکٹیل۔
حالانکہ وہ آدمی مر گیا اور چلا گیا، بزدل شکاریوں کی طرح انہوں نے ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کی۔ شاید اس لئے کہ اپنے دل کی گہرائیوں میں ان سبھوں کو پتہ تھا کہ وہ ایک سنگین غلط کام کیلئے متحدہ ہوئے ہیں ۔

سچائی کیا ہے ؟
13/دسمبر 2001 کو 5 مسلح افراد پارلیمنٹ کی گیٹ سے دھماکو اشیاء سے بھری ایک ایمبسیڈر کار میں بیٹھ کر گھس گئے ۔ جب انہیں روکا گیا تو وہ کار سے باہر نکلے اور فائرنگ کرنے لگے ۔ ان لوگوں نے 8 سکیورٹی اہلکاروں اور ایک مالی کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد ہوئی فائرنگ میں سبھی 5 حملہ آور مارے گئے ۔
پولیس کی حراست میں افضل نے جو کئی اعتراف کئے تھے ان میں سے ایک میں اس نے حملہ آوروں کی شناخت محمد، رانا، رضا، حمزہ اور حیدر کے طور پر کی تھی۔ بس اتنی ہی بات ہے جو ہم ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں ۔

اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ "دیکھنے میں وہ پاکستانی لگتے ہیں ،(انہیں تو جاننا چاہئے کہ پاکستانی کیسے دکھائی پڑتے ہیں ؟ آخر وہ خود بھی تو سندھی ہیں )۔
صرف افضل کے اعتراف جرم کی بنیاد پر (جسے عدالت عظمی نے "خامیاں " اور قانونی کار روائی سے متعلق دفاع کے خلاف ، کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا) حکومت ہند نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلایا تھا اورپاکستان کی سرحد پر 5 لاکھ فوجیوں کو تعینات کر دیا تھا۔
ایٹمی جنگ کا بھی ذکر ہو رہا تھا۔ غیر ملکی سفارت خانوں نے سفری ہدایتیں جاری کی تھیں اور دہلی سے اپنے ملازمین کو واپس بلا لیا تھا۔ مہینوں کی کشمکش جاری رہی اور ہندوستان کو ہزاروں کروڑکا نقصان اٹھانا پڑا۔

14/دسمبر 2001 کودہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے دعوی کیا کہ اس نے معاملہ کو حل کر لیا ہے ۔ 15/دسمبر کو اس نے اس معاملے کے "ماسٹر مائنڈ" پروفسیر ایس اے آر گیلانی کو دہلی سے اور شوکت گرو اور افضل گرو کو سری نگر کی پھل منڈی سے گرفتار کیا۔
بعد میں انہوں نے شوکت کی اہلیہ افشاں گرو کو بھی گرفتارکیا۔ میڈیا نے جوش و خروش کے ساتھ اسپیشل سیل کی کارکردگی کو ٹیلی کاسٹ کیا۔ کچھ ہیڈلائنس اس طرح تھے :
"دہلی یونیورسٹی کا پروفیسر دہشت کا ماسٹرمائنڈ تھا"
"یونیورسٹی کے ڈان نے فدائین کو گائیڈ کیا تھا"
"خالی وقت میں دہشت کی تعلیم دیتا تھا ڈان"

زی ٹی وی نے 13/دسمبر کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری ڈرامہ نشر کیا جو ری کنسٹرکشن پر مبنی تھا اور جسے "پولیس کے ذریعہ داخل کی گئی چارج شیٹ کی سچائی" پر مبنی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ (اگر پولیس کی کہانی ہی سچ ہے تو پھر عدالتیں کس کام کیلئے ہیں ؟)

اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی نے اس ڈرامے کی کھل کر تعریف کی تھی۔
عدالت عظمی نے اس فلم کی ٹیلی کاسٹ پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ میڈیا جسٹسوں کو متاثر نہیں کرے گی۔
فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ افضل، شوکت اور گیلانی کو پھانسی کی سزا سنائے جانے سے کچھ دن قبل ہی یہ فلم ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے "ماسٹر مائنڈ" پروفیسر گیلانی اور افشاں گرو کوالزامات سے بری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کو برقرار رکھا لیکن 5/اگست 2005ء کو اپنے فیصلے میں اس نے محمد افضل کو 3-3 عمر قید اور 2 سزائے موت سنائی۔ کچھ سینئر صحافیوں کے ذریعہ کہے گئے اس جھوٹ کے برعکس جن کے بارے میں وہی بہترجانتے ہوں گے ، سچائی یہ ہے کہ جن دہشت گردوں نے 13/دسمبر 2001 کو پارلیمنٹ کمپلیکس میں خونی کھیل کھیلا، افضل گرو ان میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ تھا جنہوں نے "سیکورٹی اہل کاروں پر کھلی گولہ باری کی" اور ظاہری طورپر مار دئے گئے۔
6 سکیورٹی اہل کاروں میں سے 3 کا قتل کیا، (یہ بیان بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر چندن مترا نے 7/اکتوبر 2006ء کو "دی پائنیر"میں دیا تھا)۔ یہاں تک کہ پولیس کی چارج شیٹ میں بھی اس پر یہ الزام نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ثبوت واقعاتی ہیں ، "سازشوں کے زیادہ تر معاملوں کی طرح یہاں بھی نہ تو مجرمانہ سازش کے ثبوت ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں" ۔۔۔ لیکن اس کے آگے اس نے کہا کہ "یہ واقعہ جس کے باعث ہونے والی بھاری جانی نقصان نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور سماج کے اجتماعی ضمیر کو تبھی اطمینان حاصل ہو گا جب گناہ گار کو سزائے موت دی جائے"۔

پارلیمنٹ حملے کے معاملے میں ہمارے "اجتماعی ضمیر" کو کس نے بنایا؟ کیا یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم اخباروں سے چنتے ہیں ؟ یا ان فلموں سے جنہیں ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں ؟

کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہی دلیل دیں گے کہ عدلیہ نے ایس اے آر گیلانی کو بری کر دیا اور افضل کو مجرم قرار دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدالتی عمل آزاد اور شفاف تھا۔
کیا واقعی ایسا تھا؟

فاسٹ ٹریک عدالت میں مئی 2002ء میں سماعت شروع ہوئی تب دنیا 9/11 کے بعد پھیلی منافرت سے دہلی ہوئی تھی۔ امریکی سرکار وقت سے پہلے ہی افغانستان میں ملی اپنی "جیت" کی امید لگائے ہوئے تھی۔ گجرات میں قتل عام جاری تھا اور پارلیمنٹ کے حملے میں قانون اپنا کام کر رہا تھا۔
مجرمانہ معاملات کی فیصلہ کن گھڑی میں ، جس وقت ثبوت پیش کئے جاتے ہیں ، جس وقت گوا ہوں سے جواب طلب کئے جاتے ہیں ، جس وقت دلیلوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ (ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں آپ صرف قانون کے مدعوں پر ہی بحث کر سکتے ہیں ، کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کر سکتے ) اس وقت سخت سکیورٹی والی تنہا کوٹھری میں قید افضل گرو کا کوئی وکیل نہیں تھا۔ عدالت کے ذریعہ دیا گیا ایک جونیئر وکیل اپنے موکل سے ایک بار بھی جیل میں ملنے نہیں گیا۔ اس نے افضل کے بچاؤ میں کوئی بھی گواہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی استغاثہ کے گوا ہوں سے کوئی جواب طلب کیا۔ جسٹس نے ایسے حالات کے بارے میں کچھ بھی کر پانے سے اپنی بے بسی ظاہر کی۔

یہاں تک کہ آج بھی یہ معاملہ بکھرا ہوا تھا۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے کچھ اس طرح ہیں : پولیس نے افضل گرو کو کیسے گرفتار کیا؟
انہوں نے کہا کہ ایس آر گیلانی کے ذریعہ وہ اس تک پہنچے لیکن عدالت کے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ افضل کی گرفتاری کا پیغام گیلانی کے پکڑے جانے سے پہلے ہی آ گیا تھا۔
ہائی کورٹ نے اسے "اہم تضاد" بتایا لیکن اسے یونہی چھوڑدیا۔

افضل کے خلاف جرم ثابت کرنے والے 2 خاص ثبوت تھے اس کی گرفتاری کے بعد ضبط کیا گیا سیل فون اور لیپ ٹاپ۔ گرفتاری کے کاغذات پر گیلانی کے بھائی بسم اﷲ نے دلی میں دستخط کئے تھے ۔ ضبطی کے کاغذات پر جموں و کشمیر کے دو پولیس اہلکاروں نے دستخط کئے تھے جن میں سے ایک وہ تھا جس نے ماضی میں افضل کا اس وقت استحصال کیا تھا جب اس نے "دہشت گرد" کے روپ میں خود سپردگی کی تھی۔ کمپیوٹر اور سیل فون کو سیل نہیں کیا گیا تھا جبکہ ثبوتوں کو سیل کرنا قانوناً ضروری ہوتا ہے ۔

سماعت کے دوران یہ سامنے آیا کہ لیپ ٹاپ کی ہارڈ ڈسک کا استعمال گرفتاری کے بعد بھی کیا گیا تھا۔ اس میں صرف وزارت داخلہ کے فرضی پاس اور فرضی شناختی کارڈ تھے جسے دہشت گردوں نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کیلئے استعمال کیا تھا اور زی ٹی وی کی پارلیمنٹ کمپلیکس کی ایک ویڈیو کلپ تھی۔
تو پولیس کے مطابق مجرم ثابت ہونے کیلئے ضروری، ان تھوڑے سے ثبوتوں کو چھوڑکر باقی تمام اطلاعات افضل نے مٹا دی تھیں اور وہ انہیں غازی بابا کو سونپنے جا رہا تھا جسے چارج شیٹ میں اس کار روائی کا سرغنہ بتایا گیا ہے ۔

استغاثہ کے ایک گواہ کمل کشور نے افضل کی شناخت کی اور ادارہ سے کہا کہ اس نے ہی وہ اہم سم کارڈ اسے فروخت کیا تھا جس کے ذریعہ 4/دسمبر 2001 کو اس معاملے کے تمام ملزمین رابطے میں تھے ۔ لیکن خود استغاثہ کے ذریعہ پیش کیا گیا کال ریکارڈ بتاتا ہے کہ درحقیقت یہ سم کارڈ 6/نومبر2001 کو ہی چالو ہوا تھا۔
ایسی ہی کئی اور بھی باتیں ہیں جوجھوٹ کا انبار ہیں ، من گھڑت ثبوت جن پر عدالت نے توجہ نہیں دی اور پولیس کو سوائے ایک معمولی سی پھٹکار کے اور کچھ نہیں کہا گیا۔
بس اتنا ہی !!

اور پھر پیچھے کی کہانی بھی۔
کشمیر میں خودسپردگی کئے ہوئے بیشتر دہشت گردوں کی طرح افضل ایک آسان شکار تھا۔ ٹارچر، بلیک میل اور استحصال کا شکار۔
اگر کسی کو پارلیمنٹ حملے کی گتھی سلجھانے میں ذرا سی بھی دلچپسی ہے تو اسے ثبوتوں کے ایک گھنے جنگل سے ہو کر گزرنا ہو گا جو کشمیر میں ایک دھندلے جال کی طرف لے جاتا ہے جو دہشت گردوں کو خودسپردگی کر چکے دہشت گردوں سے، غداروں کو پولیس افسروں سے ، خصوصی ٹاسک فورس کو اسپیشل پولیس افسر سے جوڑتا ہے اور یہی سلسلہ آگے اور آگے بڑھتا رہتا ہے اور آگے اور آگے ....

لیکن اب جب کہ افضل گرو کو سولی پر لٹکا دیا گیا ہے مجھے امید ہے کہ ہمارا اجتماعی ضمیر مطمئن ہو گیا ہے ۔
یا اب بھی خون کا ہمارا پیالا آدھا ہی بھرا ہے ؟

(مضمون نگار گیان پیتھ ایوارڈ یافتہ مصنفہ اور سماجی کارکن ہیں ۔ ان کا یہ مضمون "دی ہندو" سے ماخوذ ہے )

The hanging of Afzal Guru is a stain on India's democracy - Column: Arundhati Roy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں