زبان سنبھال کر - نصرت ظہیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-03

زبان سنبھال کر - نصرت ظہیر

جے پور میں جب بھی ادیبوں کا میلہ لگتا ہے ، میری دائیں آنکھ ( کبھی کبھی بائیں آنکھ بھی) پھڑکنے لگتی ہے اور میں جگر تھام کر اس فکر میں بیٹھ جاتا ہوں کہ بس اب دنیا کے چھٹے ہوئے ادیب ایک جگہ جمع ہوں گے ۔ ایک ہفتہ تک سر کے اوپر سے گذر جانے والی باتیں کریں گے اور پھر کسی دن لنچ سے پہلے کوئی نہ کوئی ادیب ایک ایسا بیان دے ڈالے گا جس کی خبر دیتے دیتے ڈنر کا وقت آتے تک نیوز چینلوں کے اینکر اپنے گلوں اور ناظرین کے کانوں میں خراشیں ڈال چکے ہوں گے اور پینل ڈسکشن میں شامل ہونے والے دانشوران کی آستینیں بحث کرتے کرتے ڈھیلی پڑچکی ہوں گی۔

پھر اس سے پہلے کہ مجھے جیسا ایک معمولی عام آدمی اس متنازعہ بیان پر اپنی کوئی رائے قائم کرپائے ادیب موصوف کا تریدی بیان آ جائے گا کہ اول تو وہ بیان میں نے دیا نہیں ہے اور دیا بھی ہے تو اسے میڈیا نے توڑمروڑکر پیش کیا ہے اور میڈیا نے توڑا مروڑا نہیں ہے تو میں وہ ادیب نہیں ہوں جس نے بیان دیا تھا اور اگر وہی ادیب ہوں تو یہ میرے ادبی دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیجئے اب بھاڑمیں جائے عام آدمی اور اس کی رائے !

یوں تو راجستھان میں ادیبوں کے علاوہ مویشیوں کے بھی کئی بڑے میلے لگتے ہیں ، مگر مجال ہے جو تک کسی مویشی میلے میں کوئی جھگڑا ہوا ہو یا کسی مویشی نے غلط سلط بیان جاری کیا ہو۔ مویشی میلے میں کوئی اکا دکا جھگڑا ہوتا بھی ہے تو صرف انسانوں کے درمیان جو کوئی بار مویشی کے مول بھاؤ پر آپس میں جھگڑپڑتے ہیں اور مویشی اس دوران اطمینان سے جگالی کرتے ہوئے حیرت سے سوچتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کس بات پر یہ لوگ اتنی مارا ماری کر رہے ہیں ۔ مویشیوں کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ صرف جگالی میں یقین رکھتے ہیں بحث میں نہیں ۔

جہاں تک اردو ادیبوں کا تعلق ہے تو غیر سماجی عناصر ہونا ان کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ برسوں پہلے جب ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں کچھ صاحبان نے جدیدیت کی تحریک چلا کر ادب کا رشتہ سماج سے توڑدیا تھا اردو کے درجنوں ادحب راتوں رات غیر سماجی عناصر بن گئے تھے جن میں کچھ تو بعد میں اس قدر غیر سماجی ہو گئے کہ ان پر سماج دشمن عناصر کا شبہ ہونے لگا۔ خدا خدا کر کے آخری کچھ لوگوں نے مابعد جدیدیت کا دور شروع کیا تب کہیں جا کر یہ بے ان الزامات سے بے عزت بری ہوئے ۔

تاہم قانون کی زبان میں غیر سماجی عناصر کا مطلب کچھ اور ہے قانون اِسے جرم سمجھتا ہے چنانچہ اینٹی سوشل ہونا ایک قابل دست اندازی پولیس جرم ہے جس پر فوراً تعزیرات ہند نافذ ہو جاتی ہے ۔ یہ سب یکھتے ہوئے میری رائے ہے کہ ادب اور آرٹ دونوں کی عزت و آبرو بچانے کیلئے انھیں ابھی سے ایک باقاعدہ اور باوقار قانونی حیثیت دے دینی چاہئے کیا ہی اچھا ہو جو ادیبوں اور فنکاروں کیلئے قانونی ضابطے وضع کر دئیے جائیں تاکہ صرف جینوئن لوگ ہی ادب اور آرٹ کے میدانوں میں داخل ہوں اور کسی ناول نگار، کسی کارٹونسٹ، کسی طنز نگار، کسی مصور اور کسی فلم ساز کو متنازعہ تخلیقات پیش کرنے کی جرات نہ ہو سکے اور تخلیقی ادب اور آرٹ کا تقدس برقرار رہے ۔

اس ضمن میں سب سے پہلے میری تجویز یہ ہے کہ ادب اور آرٹ کی تخلیق کیلئے سرکاری لائسنس مقرر کر دیاجائے آخر جب آٹے دال اور سبزی بیچنے سے لے کر رکشا چلانے تک سبھی طرح کے چھوٹے بڑے کام دھندوں کیلئے لائسنس اور اجازت نامہ لینا لازمی ہے تو ادب اور آرٹ کی تخلیقی جیسا ذمہ داری کا کام بلا لائسنس کیوں ہونے دیا جا رہا ہے ۔ دوسری زبانوں کے ادب کی میں بات نہیں کرتا، صرف اردو ادب کو سامنے رکھ لیجئے تو آپ پائیں گے کہ اس زبان میں ادیبوں کیلئے ضابطے وضع کرنا بہت ضروری ہیں ۔ اور اردو ادب میں بھی صرف شاعری کو ہی قانون کے دائرے میں رکھ دیاجائے تو یہ اردو ادب کی بڑی بھاری خدمت ہو گی۔ جیسے ہی آپ شاعری کا لائسنس شروع کریں گے تو شاعروں کی تعداد گھٹ کر نصف چوتھائی سے بھی کم رہ جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ لائسنس ایک ایسی ا تھاریٹی کی طرف سے پوری جانچ پڑتال کے بعد جاری ہونے چاہئیں جو اردو کے جینوئن قارئین، ناظرین اور سامعین پر مشتمل ہو۔

لیکن بات صرف لائسنس جاری کرنے تک نہ محدود رکھی جائے ۔ ادبی تعزیرات کا قانونی نفاذ بھی سختی کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ سبھی مشاعروں اور ادبی رسالوں پر نظر رکھی جائے کہ کوئی سماج دشمن عناصر قانونی لائسنس کے بغیر تو شاعری نہیں کر رہا ہے ۔ اگر ہاں تو ناجائز شاعری کرنے والے کو فوراً نزدیکی پولیس تھانے کے حوالے کر دینا چاہئے ۔ علاوہ ازیں اس پر نظر رہنی چاہئے کہ لائسنس یافتہ شاعر اپنے کلام میں فنی رموز کا پورا خیال رکھے ۔ جس شاعرکی غزل میں ایطائے جلی یا خفی پایا جائے یا پھر اجماع ردیفین، تنافر، شتر گربہ اور تکرار قبیح جیسی حرکتیں نظر آئیں تو غزل کا مطلع یا کوئی شعر دو لخت نکل آئے تو اسے فوراً اندیشہ نقش امن کے تحت گرفتار کر کے لائسنس واپس لے لیا جائے ۔ بلکہ بے بحر و بے وزن مصرعہ کہنے والے شاعر پر تو نقد جرمانہ بھی ہونا چاہئے اور ہاں ایک بات اور ترنم سے شعر سنانے کا پرمٹ شاعر کیلئے الگ سے جاری کیا جانا چاہئے ۔ یعنی یہ نہیں کہ جس کے بھی جی میں آئے وہ ترنم سے شروع ہو جائے ۔ ترنم کے پرمٹ جاری کرنے کیلئے ماہرین موسیقی کے بورڈ بنائے جاسکتے ہیں جو ترنم کے نمونے سامنے رکھ کر ہی پرمٹ جاری کرنے کی پرمیشن دیا کریں ۔ پرمٹ میں ترنم کی کوالٹی اور شعر کو گانے کی رفتار دیکھ کر یہ بھی درج کر دیا جانا چاہئے کہ پرمٹ ہولڈر شاعر ایک مشاعرے میں زیادہ سے زیادہ کتنے شعر یا غزلیں ترنم سے سنا سکتا ہے ۔ ایک بار یہ لائسنس اور پرمٹ سسٹم شروع ہو جائے پھر دیکھئے آل انڈیا مشاعروں کے اسٹیج پر پہنچاکریں گے دو درجن شاعر مگر واپس اتریں گے نصف درجن سے بھی کم۔ باقی جو ہیں وہ سب حوالات کی ہوا کھا رہے ہوں گے ۔

اس سسٹم میں شاعری کی صرف ایک چیز ایسی ہے جس کے بارے میں ابھی میں کوئی حتمی تجویز سامنے نہیں رکھ سکتا۔ وہ چیز ہے نثری شاعری۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ نثری نظموں پر مکمل پابندی لگادی جائے ، مگر کچھ لوگوں ، خاص طورپر دانشور حضرات سے خطرہ ہے کہ وہ اسے آزادی اظہار پر سیدھا حملہ قراردیتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے ہیں ۔ لہذا فی الحال میری محتاط رائے یہ ہے کہ نثری شاعری کا لائسنس عام شاعری کے مقابلے میں ذرا زیادہ احتیاط سے جاری ہونا چاہئے ۔ اول تو یہ دیکھ لیا جائے کہ نثری نظم کہنے والا شاعر کبھی دماغی مریضوں تو نہیں رہ چکا ہے ۔ دوسرے یہ بھی طئے کر دیا جائے کہ وہ ایک دن میں ایک اور پورے ہفتے میں پانچ سے زیادہ نثری نظمیں نہیں کہے گا۔ جو شاعرایک دن میں ایک سے زیادہ نثری نظم کہتا پایاجائے اسے رفع شر کیلئے دفعہ 144 کے تحت بند کر دیاجائے ۔

اسی طرح کے ضابطے فکشن نگاروں اور نقادوں کیلئے بھی وضع کئے جاسکتے ہیں ۔ لائسنس لئے بغیر کسی کو افسانہ یا ناول لکھنے یا کسی تخلیق پر تبصرہ اور بحث کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ ناولوں کی ضخامت اور وزن کی حدیں بھی مقرر ہونی چاہئیں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ڈاک کے محکمے میں پارسلوں کے مختلف اوزان و حجم کے مطابق مختلف شرحیں مقرررہتی ہیں ۔ یہ نہیں کہ جس کے جی میں جتنا آیا اتنا طویل ناول لکھ کر قاری کو عذات میں مبتلا کر دیا۔ نقادوں پر بھی پابندی ہونی چاہئے کہ وہ کوئی ادبی تھیوری تب تک پیش نہ کریں جب تک کسی لیباریٹری میں اس کا (تھیوری کا) ٹسٹ نہ لے لیا جائے ۔ مزید یہ کہ وہ نوآموزادیبوں کی کتابوں کے فلیپ لکھتے وقت تعریب و توصیف میں منفرد لب و لہجہ، انفرادی اسلوب جیسے گھٹے پٹے الفاظ نہ لکھیں ، جنہیں پڑھ پڑھ کر قارئین عاجز آ چکے ہیں ۔ مشکل دراصل یہی ہے کہ ادیبوں اور مصنفوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین تو سب کو کی جاتی ہے مگر قارئین کے بھی کچھ انسانی ہو سکتے ہیں ۔ اس کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔

امید ہے یہ تجاویز آپ کو پسند آئیں گی۔ ویسے پسند نہ آئیں تب بھی کوئی بات نہیں ۔ راقم الحروف کسی سے ڈرتا تھوڑی ہے !

Zuban Sambhaal kar - article by : Nusrat Zaheer

1 تبصرہ:

  1. واہ واہ بہت عمدہ تجاویز ہیں اس طرح صرف شعرا پر نہیں بین الاقوامی مشاعروں پر بھی قدغن لگ جائے گی ان تجاویز کو ایک عالمی ادبی ٹنظیم کے ذریعے منظور کروانا چاہئے تا کہ سب کے لئے قابل قبول ہو ں شکریہ

    جواب دیںحذف کریں