بڑھتی ہوئی صہیونی جارحیت اور عرب حکمراں - اسد رضا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-03

بڑھتی ہوئی صہیونی جارحیت اور عرب حکمراں - اسد رضا

صہیونی ظلم و تشدد، عرب علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ، فلسطینیوں پر قہر، قبلہ اول کو تباہ کرنے کی سازشیں ، فلسطینی سرزمین پر زبردستی یہودی کالونیوں کی تعمیر پر اب کسی کو حیرت نہیں ہوتی، لہذا اس خبر پر بھی ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا کہ شام پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ اس حملہ میں راجدھانی دمشق کے شمال مغرب میں واقع فوجی ریسرچ سنٹر میں چند افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے ۔
البتہ ہمیں حیرانی اس بات پر ضرور ہوئی کہ شام پر اس صہیونی حملے کی مذمت دو غیر عرب ملکوں روس اور ایران نے تو کی، مگر کسی عرب حکمراں ، کسی شاہ، کسی خلیفہ اور کسی امیر نے صہیونی ریاست کی اس جارحیت کے خلاف منہ نہیں کھولا۔ وہ عرب لیگ بھی خاموش رہی، جس نے امریکی اشارے پر شام کے خلاف فوراً اپنے رکن ممالک کی میٹنگ طلب کر لی تھی۔ بہ الفاظ دیگر عرب لیگ نے اپنے ہی ایک عرب بھائی یعنی شام کی مذمت کرنے میں تو قطعی تاخیر نہیں کی لیکن اسرائیل کے خلاف کچھ بولنے سے گریز کیا۔
اس سے بھی زیادہ حیرتناک اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ صہیونی انتہا پسند، مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی مسجد اقصی کو شہید کرنے کی کھلے عام سازشیں کر رہے ہیں اس تاریخی مسجد کے نیچے کھدائی کر کے سرنگین بنا رہے ہیں تاکہ سرنگوں میں بارودبھرکر مسجد اور نمازیوں کو کسی دن شہید کر دیا جائے لیکن وہ عرب حکمراں خاموش ہیں ۔ حال ہی میں ایک اسرائیلی فلم میں قبلہ اول کی ممکنہ شہادت کا منظر دکھایا گیا ہے ۔ آئے دن نہتے اور مناسب غذا اور دوا سے محروم فلسطینی بچوں ، عورتوں ، جوانوں اور ضعیفوں کو اسرائیلی فوج اپنی گولیوں کا نشانہ بناتی رہتی ہے ۔ لیکن کچھ عرب حکمراں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے پیٹرو ڈالر اور ہر قسم کی دولت و ثروت سے نواز رکھا ہے ان کے پاس شام کے باغیوں کی مدد کیلئے اربوں ڈالر ہیں لیکن بے گھری، بے روزگاری اور مہنگائی و مفلسی سے نبرد آزما فلسطینیوں کی مدد کے سلسلہ میں وہ جذبہ نظر نہیں آتا۔

ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عراق، لیبیا اور اب شام میں قیام جمہوریت اور ڈاکٹیٹر شپ کے خاتمہ کیلئے تو بعض عرب ممالک مثلاً قطر وغیرہ کے حکمراں مدد کر رہے ہیں لیکن یہ حکمراں خود اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اور اپنے یہاں جمہوری ریفارمس کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ہم بشرالاسد کی ڈکٹیٹر شپ کے حق میں نہیں ہیں لیکن قطر اور عرب شا ہوں سے یہ سوال ضرورت کرتے ہیں کہ "حضور! شام میں ڈکٹیٹر شپ کو ختم کرنے سے قبل اپنے ملک میں بھی تو جمہوری نظام لا کر بشر الاسد کیلئے ایک مثال پیش کیجئے ۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تھے کم سے کم دوسروں کو نصیحت اور اپنے کو فضیحت کی مثال کیوں بنتے ہیں ۔ شام میں باغیوں کی حمایت کرنے والے آخر بحرین میں جمہوریت نوازوں کی تحریک کو کچلنے میں کیوں مدد فرما رہے ہیں ؟ یہ دوہرا معیار جو سراسر غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے ، بعض عرب ممالک حکمراں کس وجہہ سے اپنائے ہوئے ہیں ؟
ہادی برحق نبی آخر الزماں ؐ نے ہمیشہ حق اور سچائی کا ساتھ دیا اور منافقین و کاذبین اور دوہرا معیار اپنانے والوں کو عذاب الہیٰ سے ڈرایا نیز ان کی کھل کر مخالف کی لیکن افسوس آج اُسی مقدس سرزمین کے وہ حکمراں جو خود کو حضور اکرمؐ کا تابع قراردیتے ہیں نہ صرف دوہرے معیار اپنا رہے ہیں بلکہ یہود و نصاری کے اشاروں پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا کام کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل کے خلاف عرب حکمراں متحد کیوں نہیں ہوتے ؟ جس طرح شام کے خلاف وہ عرب لیگ کے بینر تلے یکجا ہو گئے اور صہیونی وا مریکی حکمرانوں کے سُر میں سُر ملانے لگے ، ویسے ہی وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار آخر کیوں نہیں بنتے ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جوکروڑوں ڈالر عرب حکمراں شام کے باغیوں کو دے رہے ہیں وہ رقم ان مظلوم و محروم فلسطینیوں کو دی جاتی، جو پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ دراصل عرب عوام تو دل و جان سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں لیکن بیشتر عرب حکمراں امریکہ کے اشارے پر چلتے ہیں کیونکہ ان امریکہ نے انہیں یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ جس دن وہ انکل سام کی حکم عدولی کریں گے اُس دن اُن کے تخت وتاج اور سلطنتیں چھین کر عوام کو سونپ دئیے جائیں گے ۔ اس دھمکی کے پیش نظر امریکی انتظامیہ جب عرب شا ہوں ، سلطانوں ، امیروں اور خلیفاؤں سے کہتا ہے کہ وہ لیبیا، عراق، ایران اور شام کے خلاف کھڑے ہوں تو اکثر عرب حکمرانوں کو اس دباؤ میں آنا پڑتا ہے ۔ آج شام کو دوسرا عراق اور لیبیا بنانے کی کوشش میں اگر کئی عرب ممالک شامل ہیں تو اس کا سبب امریکی دباؤ ہی ہے ۔ اسی طرح امریکی دھمکیوں میں آ کر ہی بیشتر عرب ممالک کھل کر اسرائیلی جارحیت کے مقابل نہیں آتے ۔ اسی لئے جب اس ہفتہ اسرائیل نے شام کے جمرایہ میں واقع دفاعی تحقیقی مرکز کو اپنے راکٹوں سے تباہ کیا تو اکثر عرب حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا۔
لہذا اب ساری دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت یہ تسلیم کرنے لگی ہے کہ صہیونی ظلم و جبر اور فلسطینیوں کی حالت زار اور تباہی کیلئے جتنا اسرائیلی حکمراں ذمہ دار ہیں اس سے کم ذمہ دار وہ عرب حکمراں بھی نہیں ہیں جو عراق، افغانستان، لیبیا اور اب شام سے متعلق مغربی اور امریکی سازشوں میں شامل رہے ہیں اور اسرائیل کو درپردہ تعاون دیتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ماضی میں میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب، صہیونی حکمرانوں کو ایران پر حملوں کیلئے تعاون دے سکتا ہے ۔
تاہم سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کی تھی۔ شام پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے بارے میں بھی یہ اطلاع میڈیا نے دی ہے کہ اسرائیلی طیارے لبنان کی جانب سے شامی سرحد میں داخل ہوئے تھے ۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ جب بحرین میں جمہوری تحریک کو کچلنے کیلئے سعودی فوج کار روائی کر رہی تھی تب بھی امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی ایران پر الزام لگایا تھا کہ وہ بحرین میں جمہوریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے ۔
یہی انہیں ان اسلام مخالف اور اسلام دشمن ممالک نے شام اور بحران میں بغاوٹوں کی آڑمیں مسلکی تشدد کو بھی ہوا دینے کی کوششیں اور سازشیں کی تھیں ۔
مثال کے طورپر بحرین میں جمہوری تحریک کو شیعہ تحریک اور شام میں عوامی تحریک کو سنی تحریک کہا گیا۔ لہذا عالم اسلام بالخصوص مسلم حکمرانوں پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ عراق، افغانستان، پاکستان اور دیگر عرب ممالک میں مسلکی تشدد کو امریکی و صہیونی ایجنٹ ہوا دے رہے ہیں اور اسے روکنے نیز فلسطینیوں کو آزادی و خود مختاری دلانے کیلئے اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب حکمراں متحد ہوں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح ریاست ہائے متحدہ عرب United States of Arab تشکیل دیں ۔ عرب ممالک کے خارجہ اور دفاع کے محکمے نیز سکہ ایک ہوں ، لیکن داخلی طورپر وہ خود مختار ریاستیں رہیں ۔ متحدہ عرب ممالک ہی اسرائیلی جارحیت کو روک سکتے ہیں اور صہیونی حکمرانوں کو "جیو اور جینے دو" کا اصول اپنانے کیلئے مجبور کر سکتے ہیں ۔

یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی عرب حکمراں اپنے تخت و تاج سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نہیں ہو گا لیکن وہ برطانیہ اور جاپان کے شاہ و ملکہ کی طرح اپنے اپنے ممالک میں شہنشاہیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی پارلیمانی نظام حکومت کو رائج کر سکتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے بھی فرمایا "سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ" بہرحال عرب حکمرانوں کو صہیونی جارحیت اور ظلم و تباہی کو روکنے کیلئے باہمی ، سیاسی و مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پیشرفت کرنا ہو گی۔ انہیں اور ہم سب مسلمانوں کو ختم المرسلین ؐ کا یہ پیغام نہیں بھولنا چاہئے کہ "تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں "۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بالخصوص عرب حکمرانوں کو اس پیغام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

Growing jewish aggression and arab Rulers - Column Analysis by : Asad Raza

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں