مسلمانوں کی شناخت کو مٹانے کی کوششیں - اسرار الحق قاسمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-05

مسلمانوں کی شناخت کو مٹانے کی کوششیں - اسرار الحق قاسمی

گذشتہ چند صدیوں کے دوران عالمی سطح پر زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ بعض وہ قومیں جو چند صدیوں قبل ترقی یافتہ تھیں وہ زوال سے اس حدتک دوچار ہو گئیں کہ پسماندگی و بے بسی کی علامت بن کر رہ گئیں اور بعض ایسی قومیں جو چند صدی قبل پسماندگی و جہالت کے مہیب اندھیروں میں بھٹک رہی تھیں وہ پستی کی ا تھاہ گہرائیوں سے نکل کر ترقی و بلندی تک پہنچ گئیں ۔ وہ قومیں جنہیں گذشتہ چند صدیوں کے دوران اس حد تک عروج و زوال سے گذرنا پڑا ان میں قوم مسلم کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے ۔ چندصدیوں پہلے مسلمانوں کی صورتحال یہ تھی کہ اگر وہ ایک طرف جغرافیائی لحاظ سے یورپ کے بہت بڑے حصہ سمیت بقیہ دنیا کے طول و عرض میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے تو وہیں تعلیم کے میدان میں بھی دیگر تمام اقوام و ملل سے آگے تھے اور سائنس و تحقیق کی دنیا کے گویا وہ ایک اکیلے مالک تھے ۔ بغداد و اندلس ان کے ایسے تعلیمی مراکز تھے جہاں علوم و فنون حاصل کرنے کیلئے ساری دنیا سے علم کے پیاسے آتے تھے ۔ کیونکہ ان شہروں کے اداروں و یونیورسٹیوں میں دینی و عصری دونوں طرح کے علوم پڑھائے جاتے تھے اور زندگی کے ہر میدان کو سر کرنے کے ہنر سکھائے جاتے تھے ۔ اس لئے ان یونیورسٹی سے جہاں ایک طرف جید علمائے دین، فقہائ، مفسرین اور محدثین تیار ہوتے ہیں وہیں اعلی معیار کے طبیب، ریاضی داں ، نفسیات و طبعیات کے ماہرین، فلسفہ و جغرافیہ میں کمال رکھنے والے سائنسداں بھی پیدا ہوتے تھے ۔ رابرٹ بریفالٹ نے بھی مسلمانوں کی ترقی اور اس کے آج تک رونما ہونے والے اثرات کا اعتراف کیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے : یوروپ کی ترقی کا کوئی شعبہ اور گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلامی تمدن کا دخل اور اس کی ایسی نمایاں یادگاریں نہ ہو جنہوں نے انسانی زندگی پر زبردست اثر ڈالا" اس کے علاوہ مسلم ممالک میں جس تہذیب و معاشرت کو بالادستی حاصل تھی اس میں زندگی کو اخلاق و سلیقہ سے گزارنے اور انسانیت کے ادب و احترام کے طورو طریق اور اصول و ضوابط شامل تھے ۔ یہی وجہہ تھی کہ اس دور میں زندگی کے ہر میدان میں نہ صرف مسلمانوں کا طوطی بول رہا تھا بلکہ تمام قوموں کے درمیان ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر پچھلی چند صدیوں کے دوران جب وہی مسلمانوں کی نسلیں انحطاط کی شکار ہوئیں تو دنیا کے طول و عرض میں ان کا سیاسی و فکر اثر و رسوخ تو کیا باقی رہتا تعلیم و معاشرتی سطح پر بھی انہیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ دوسری طرف مغربی و استعماری قوموں نے گذشتہ چند صدیوں کے دوران جس برق رفتاری کے ساتھ مادی ترقی کی اور اس کے ذریعہ زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کرتے ہوئے وہ جتنا آگے نکل گئیں آج کوئی دوسری قوم ان کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتی۔ سیاست، تعلیم، معاش، ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں ان کی بالادستی اظہر من الشمس ہے ۔ حالت یہ ہے کہ آج عالمی سیاست کا رخ انہی ممالک کی جانب سے طئے ہوتا ہے ۔ اس لئے اپنی خطرناک سیاست کی بنیاد پر وہ جسے چاہتے ہیں ہیرو بنادتے ہیں اور اپنی شاطرانہ سازشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ جسے چاہتے ہیں زیرو کر دیتے ہیں ۔ ایسے ہی وہ اپنے مفاد کیلئے بعض ممالک کی پشت پناہی کرتے ہیں اور جو ان کے اشاروں پر رقصاں نہیں ہونا چاہتا اسے پسماندگی کے عمیق غاروں میں ڈھکیل دیتے ہیں ۔ اپنی طاقت اور سیاست کے سہارے وہ حکومتوں کو زیر و زبرکرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ یہی حال مغربی قوموں کی معیشت کا بھی ہے کہ ان کی کرنسی نہ صرف قیمتی ہے بلکہ ساری دنیا انہی کی کرنسی میں عالمی سطح پر تجارت کرنے پر مجبور ہے ۔ ان کی تجارتی کمپنیاں چھوٹے بڑے ممالک میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ تعلیمی اعتبار سے بھی یہ مشرقی قوموں سے آگے ہیں اور نئی نسل کو تعلیم دینے کا ان کے پاس پورا ایک نظام موجود ہے اور طلباء و طالبات کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرانے کے مواقع سے بھی وہ لیس ہیں ۔ ٹکنالوجی مغربی دنیا کا طرۂ امتیاز ہے ۔ اگرچہ دوسری قوموں نے بھی جدید ٹکنالوجی کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے مگر اس میدان میں جس قدر آگے یہ قومیں ہیں وہاں تک پہنچنے میں انہیں ایک طویل مدت درکار ہو گی۔ خاص طور سے دفاعی و عسکری حیثیت سے ان ممالک کی جدید ترین ٹکنالوجی کی طرح ٹکنالوجی کسی قوم کے پاس نہیں ہے ۔ میڈیا جسے دور جیدید میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے اس پر بھی مغربی قوموں ہی کی اجارہ داری ہے ۔ بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیوں ، اخباروں ، ٹی وی چینلوں اور ویب سائٹس پر انہی کا غلبہ ہے ۔ چنانچہ انہیں اپنے نظریات و افکار کو ساری دنیا میں پھیلانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ مسلمانوں کے عروج اور مغربی قوموں کے عروج کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہے کہ اپنی ترقی کے دور میں مسلمانوں نے جس تہذیب و تمدان کی اشاعت کی، اس میں انسانی اقدار کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ انصاف اور مساوات کا قیام مسلم سلاطین کا خصوصی وصف تھا لیکن مغربی اقوام کی ترقی کے دور میں انسانیت کے پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور صرف مادیت کو انسانی ترقی کا پیمانہ سمجھ لیا گیا ہے ۔ جس کا انسانی زندگی پر یہ اثرظاہر ہورہا ہے کہ بے شمار اعلی اوصاف کا حامل انسان موجودہ دور میں مشین بن کر رہ گیا ہے اور وہ اپنی اصلیت کو بھول کر شب و روز مادیت کے پیچھے دوڑنے لگا۔ مال دو لت کی بے جا ہوس اور تعیشات کی چاہت نے انسان کو جرائم اور بدعنوانی کی طرف دھکیل کر اسے پرامن زندگی سے محروم کر دیا ۔ اس پر مزید ستم یہ کہ مغربی قومیں اپنی بالادستی کو تادیر قائم رکھنے کیلئے دنیائے انسانیت کو زبردست خطرات سے دوچار کر رہی ہیں ۔ چنانچہ وہ ایک طرف اپنی سیاسی بالادستی کے سلسلہ کو آگے بھی جاری رکھنے کیلئے دنیا بھر میں سازشوں کا جال پھیلا رہی ہیں اور دوسری طرف خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کرنے اور انہیں فروخت کرنے کیلئے بڑی یعداد میں ہتھیار بھی بنا رہی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مصنوعات کیلئے فیکٹریاں اور کارخانے قائم کر رہی ہیں ۔ جس کے سبب آلودگیوں اور گرین گیسوں میں اضافہ ہورہا ہے اور گلوبل وارمنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2004ء کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک میں روس نے 2ہزار ملین ٹن گیس خارج کی جبکہ امریکہ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر 7ہزار ملین ٹن گیس خارج کی۔ یعنی امریکہ دنیا کو گلوبل وارمنگ کی طرف لے جانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ 1990 سے 2004ء کے درمیان امریکہ میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں ایک ہزار ملین ٹن کا اضافہ ہوا۔ جبکہ اس اثناء میں روس نے گیسوں کے اخراج میں ایک ہزار ملین ٹن کی کمی کی ہے ۔ اگر یہی سلسلہ آگے بھی جاری رہا تو دنیا کے سامنے گلوبل وارمنگ کا خطرہ اس قدر شدید ہو جائے گا کہ اس سے خلاصی پانا آسان نہ ہو گا۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ مغربی قومیں سیاسی اور دفاعی سطح پر غبلہ حاصل کر کے ماضی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ رہنے والی قوم مسلم کو نیچا دکھانے اور انہیں ہر سطح پر نقصان سے دوچار کرنے کی راہ پر رواں دواں ہیں ۔ خاص طور سے مغربی قوموں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ کسی قوم کی تہذیب کے خاتمہ کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے تشخص و شناخت کا خاتمہ اور جو قوم اپنے تشخص سے محروم ہو جاتی ہے وہ کب دنیا کے دھندلکوں میں گم ہو جائے اور کب اس کا وجود ختم ہو جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے کیلئے بہت زیادہ حساس ہوں اور ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ جیسی چیزوں سے بہت زیادہ چوکنا رہیں ۔ کیونکہ ان کے ذریعہ مغرب بڑی ہوشیاری سے مہذب اور باحیا گھرانوں میں اپنی تہذیب کو داخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ جو کوششیں بھی اسلامی تہذیب و معاشرت کی بقاء سے متعلق ہو سکتی ہیں انہیں اختیار کیا جانا چاہئے ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تہذیبی و معاشرتی مسئلہ کسی خاص علاقہ یا ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور جس رفتار کے ساتھ دیگر اقوام مغربی تہذیب کے نرغے میں آ کر اپنی شناخت کھورہی ہیں اسی طرح مغربی تہذیب دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی آغو میں لینے کیلئے بے تاب و بے قرار نظر آ رہی ہے ۔ اس لئے اگر تمام مسلم ممالک اس بارے میں مل بیٹھ کر سوچیں تو کوئی بہتر حل نکالا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں کو اس شیطانی تہذیب سے بچنے کیلئے خوف خدا اور دین پر مضبوطی سے قائم رہنا ضروری ہے ۔


Efforts of Erasing the identity of muslims - Column by : Maulana Asrarul Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں