سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے بچوں کی خانگی اسکولوں میں تعلیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-17

سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے بچوں کی خانگی اسکولوں میں تعلیم

سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے بچے کن اسکولوں میں پڑھتے ہیں ؟ آر۔ ٹی ۔ آئی کے ذریعہ ہوا حقائق کا انکشاف کرشنگری (الطاف احمد /ایس۔ این۔ بی) خودسر کاری اسکول اساتذہ کے 80 فیصدبچے خانگی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کئے گئے سروے سے محکمہ تعلیم پریشان ہے۔ سر کاری اسکول میں خد مات انجام دینے والے اساتذہ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم اور انگریزی مہارت دلا نے کیلئے خانگی اسکولوں کا انتخاب کیوں کر تی ہے ؟ کیا سر کاری اسکول کے اساتذہ اسکول کے نصاب کو اچھی طرح نہیں پڑھا سکتے ؟ دیکھا گیا ہے کہ اکثرسر کاری پرائمری اسکول کے طلباء معمولی حساب یعنی جمع، تفریق،ضرب اور تقسیم سے بھی نا واقف ہو تے ہیں۔ انگریزی کے آسان الفاظ بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ۔ یہ ایسے ہی سر سری شکایات نہیں ، بلکہ اثر نامی ایک ادارہ باقاعدہ سالانہ سروے اور دلائل و شوائد کے نتیجہ میں ان باتوں کا انکشاف کر تے آ رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم ابھی بھی خواب غفلت سے جاگنے کیلئے تیار نہیں۔ اچھے اساتذہ کی تلاش کا بہا نہ بنا کر حکومت کی جانب سے اساتذہ اہلیتی امتحانات منعقد کرائے گئے ، مگر بے سود، اس امتحان میں ابھی تک بہت سارے امیدوار سو سے زیادہ نمبرات حاصل نہ کر سکے۔ اس حال میں سر کاری اسکول کے اساتذہ میں سے کتنے اپنی اولاد کو سر کاری اسکولوں میں داخلہ کراتے ہیں ؟ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی جانکاری سے یہ پتہ چلا ہے کہ اسّی فیصد اساتذہ اپنی اولاد کو سر کاری اسکولوں میں داخلہ کرانے سے گریز کر تے ہیں ۔ پرائیویٹ اسکولوں کو ترجیح دیکر وہاں اپنے بچوں کا داخلہ کرا دیتے ہیں۔ اسی طرح پرائمری اسکولوں میں سروشکشا ابھیان اسکیم کے متعلق کئے گئے سوال سے یہ پتہ چلا ہے کہ ہر اسکول کو ایک ٹی ۔ وی، انگریزی سیکھنے کیلئے بیس منٹ پر مشتمل ہیلوانگلش نامی ڈی ۔ وی ۔ ڈی اورایک ڈی ۔ وی ۔ ڈی پلیر دیا جاتا ہے۔ مگر یہ جان کر آپ کوحیرت ہو گی کہ ڈی ۔ وی ۔ ڈی کے ان اسباق کو بھی با قاعدہ گرامر کے ساتھ پڑھا نے کی استعداد ہمارے اساتذہ میں نہیں۔ چند ماہ قبل ضلع ترو ولّور کے سندرسیکرن نے وزیر اعلی جئے للیتا کو ایک مکتوب لکھا ہے اس میں انہوں نے حکومت کو اسکول چائس کیامپئن کے نام سے ایک قیمتی مشورہ دیا ہے۔ اس کے مطابق حکو مت کو چاہئے کہ وہ ایک طالب علم پر جتنا خرچ کر تی ہے ، اسکا ایک و وچر بنا کر والدین کو دے دے، تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی سر کاری اسکول میں اپنی اولاد کا داخلہ دلا سکیں ۔ اس اسکیم کا یہ فا ئدہ ہو گا کہ اگر کسی اسکول میں تعلیم میں کو ئی کمی ہو یا کسی قسم کی دوسری شکایت ہو تو والدین اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی دوسرے اسکول کے انتخاب کے حقدار ہونگے۔ اور وہاں پر بھی وہی پیوستہ و وچر کام آ جاگا۔ اس طرح سابق اسکول اس و وچر سے محروم، اور نئے اسکول میں وہ ووچر کا م آئیگا۔ اسکے ذریعہ سے اساتذہ اور اسکولوں کے در میان تعلیمی معیار میں مسابقتی ڈور شروع ہو گا ۔ جس سے طلباء کیلئے تعلیم کے بہترین مواقع پیدا ہونگے۔ یہ طریقہ کار دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ اس کے متعلق حکو مت محکمہ تعلیم سے گفتگو کر سکتی ہے۔ اس طرح چندرسیکرن نے اپنی عرضی میں حکو مت سے موجودہ تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلی کی جانب اشارہ کیا ہے۔

Education of children of govt. school's teachers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں