شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی - سالانہ نظام اردو خطبات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-21

شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی - سالانہ نظام اردو خطبات

شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کا سالانہ نظام اردو خطبہ اختتام پذیر
رہنماؤں نے اردو کی لاش پر ہندی کے محل تعمیرکرانے کے خواب نہیں دیکھے تھے :گورنرعزیز قریشی
اگراردو مرجائے گی تو ہندوستان بھی مرجائے گا : پرو وائس چانسلرو ویک سنیجا

دہلی:شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی میں اپنی نوعیت کا منفرد نظام سالانہ اردو خطبات 2013ء کانہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ بعنوان "عصرحاضر میں اردو کی صورتِ حال اورحکومت کی ذمہ داریاں "کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ریاست اتراکھنڈ کے گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی نے بطور مہانِ خصوصی کی شرکت کی،اورمنتخب موضوع"عصرحاضر میں اردو کی صورتِ حال اورحکومت کی ذمہ داریاں " پرخطاب کیا۔ جب کہ نظام خطبات کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلرپروفیسرو ویک سنیجا نے کی۔ پروگرام کا باضابطہ آغاز قومی ترانہ پیش کر کے کیا گیا۔ اس کے بعد شعبہ اردو کے سابق صدرپروفیسر ابن کنول اورپروفیسر ارتضی کریم نے مہان خصوصی کا استقبال پھولوں کا گلدستہ پیش کر کے کیا۔ پروگرام کی نظامت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے شعبہ ارد دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر توقیر احمد خان نے مہان خصوصی ڈاکٹر عزیز قریشی کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا تعلق بھوپال سے ہے ،اعلی تعلیم اسی شہرسے حاصل کی۔ سیاست میں کانگریس کے اہم اراکین میں آپ کاشمار ہوتا ہے، مختلف عہدوں پر رہے ہیں ۔ اردو کے مختلف اداروں میں بھی اہم عہدوں پر فائزرہے ،اوراردوکے فروغ میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ عزیز قریشی کی کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے کہ آج ریاست اتراکھنڈ میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آ چکا ہے ۔ ریاست اتراکھنڈ کے گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی نے منتخب موضوع کے تحت گفتگوکرتے ہوئے اردو کے ساتھ ہوئی مختلف ادوار میں نا انصافیوں کابھی احاطہکیا،اورکہاکہ نواب محسن الملک کے دور میں بھی انگریزوں نے اردو کے خلاف مہم چلائی تھی،اس کا خمیازہ آج تک قسطوں میں ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ عظیم رہنماؤں نے سبھی آنکھوں کے آنسو پوچھنے کا خواب دیکھا تھا مگر وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ آج تک اردو کی آنکھیں نم ہیں ،اس زبان کے آنسونہیں پوچھے جاسکے ۔ ہندوستان کی سب سے طاقت ورزبان کا قتل کاسلسلہ شروع سے ہی چلتاآ رہا ہے،دفتری زبان کا درجہ ختم کر کے ہی اردوکو بن باس میں بھیج دیا گیا۔ رہنماؤں نے کبھی بھی اردو کی لاش پر ہندی کے محل تعمیرکرنے کے خواہش مند نہیں تھے ۔ نہروخاندان نے ہردور میں اردو کے تحفظ کے لیے مستحکم قدم اٹھائے ہیں ۔ جسے فراموش نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ والدین جب تک اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دیتے تو وہ اس کا حق ادانہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی زبان سے غداری کر رہے ہیں ۔ بطورزبان سبھی اسکولوں میں اردو کوپرائمری سطح سے ہی لازمی قرار دیاجاناچاہئے ۔ المیہ یہ ہے کہ اب تک نصاب کی سطح پر بھی اردو کے ساتھ سازش کی جا رہی ہے جونصاب مرتب کیے جائے جاتے ہیں اس میں سرے سے اردو کو نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ اردو والوں کا حق دیاجائے ،67برسوں سے اردو کے ساتھ نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے جونہایت ہی باعث افسوس بات ہے ۔ جن ریاستوں میں دوسرادرجہ اردو کو دیا گیا ہے وہ محض کاغذوں تک محدود ہیں عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے ۔ ریاستوں میں جو اردو اکادمیاں ہیں انہیں فعال بنایاجائے ،پیشہ وروں کو ہٹا کرعوامی شخصیات کو ان عہدوں پر تقررکرنا چاہئے تاکہ وہ عوام اورزبان کا درد محسوس کر سکں ۔ پرو وائس چانسلر پروفیسر و ویک سنیجانے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اردوکے فروغ کے لیے کاوشوں کاسلسلہ جاری ہے ،میں چاہتا ہوں کہ اس زبان کی ترقی کے لیے لائحہ عمل تیارکیے جائیں ۔ ہمارے جد بھی اردو اورفارسی پڑھا کرتے تھے اورمیں بھی اردوسے بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔ اردو کا زوال پذیرہونا ہمارے لیے شرم کا باعث ہے ۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے ہندوستان میں ہندوستانی بولی جائے،اس کا مطلب ہندی قطعی نہیں تھا،اس کا مطلب اردو ہی تھا ۔ النکار کے طورپر زندگی بسر کرنا ہے تو زبان اردو کو اختیارکرنا ہو گا،اگراردو مرجائے گی تویہاں کی تہذیب اورہندوستان بھی مرجائے گا۔ اساتذہ میں پروفیسر ابن کنول،پروفیسر ارتضی کریم،ڈاکٹرنجمہ رحمانی،ڈاکٹرابوبکرعباد،ڈاکٹر ارشاد نیازی،ڈاکٹر احمد امتیاز،ڈاکٹر رضاحیدر،ڈاکٹرمولابخش،ڈاکٹرمشتاق قادری،ڈاکٹرعلی احمد ادریسی،ڈاکٹر نوشاد عالم،ڈاکٹر شمیم،ڈاکٹرنصیر الدین اظہر،ڈاکٹر مجیب احمد خان،ڈاکٹر سید تنویر حسین،ڈاکٹرعلاء الدین وغیرہ قابل ذکرہیں ۔ ریسرچ اسکالرمیں دانش حسین خان،محمد ارشد،افسانہ حیات،کمیل ترابی،محمد شمیم،محمد توصیف،ناہیدہ،امیرفیصل،محمدسیماب، کے علاوہ کافی تعداد میں طالبہ وطالبات نے شرکت کی۔ پروگرام کے اختتام پر صدرشعبہ اردو پروفیسر توقیر احمد خان نے اظہار تشکراداکیا۔

سید عینین علی حق

Delhi university urdu department - yearly nizam urdu lecture

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں