ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا دیوانے کا خواب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-21

ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا دیوانے کا خواب

اس وقت قومی سیاست میں ایک بھونچال ہے ۔ سیاسی پارہ میں دن بدن حدت آ رہی ہے ۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے تعلق سے پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے ذریعہ معروف انگریزی روزنامہ "دی ہندو" میں لکھے گئے مضمون پر زعفرانی پارٹی نہ صرف پوری طرح بوکھلائی ہوئی ہے بلکہ آپے سے باہر نظر آ رہی ہے ۔ پارٹی کے سینئر لیڈران جہاں پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس مارکنڈے کے استعفیٰ کا حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں وہیں جسٹس مارکنڈے جیسا خود دار اور مرد آہن شخص سیاست کے رنگ میں نہ رنگنے کے بجائے اپنے موقف پر قائم ہے ۔ اسی دوران بی جے پی اور کانگریس میں بھی زبانی جنگ شروع ہو گئی ہے کیونکہ حکومت نے پی سی آئی کے چیرمین کے استعفیٰ کے تعلق سے بی جے پی کے تمام مطالبات کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ بی جے پی کا جسٹس مارکنڈے کاٹجو پر الزام ہے کہ وہ کانگریس کی زبان بول رہے ہیں اور حکومت کے ذریعہ دئیے گئے عہدوں کے مدنظر مودی کے خلاف مضمون لکھ کر کانگریس کا شکریہ ادا کر رہے ہیں ۔ جبکہ کانگریس نے بی جے پی کے سینئر رہنما ارون جیٹلی پر الزام لگایا ہے کہ وہ مودی کی حمایت میں اس لئے کو دے کیونکہ ان کی راجیہ سبھا کی کرسی مودی کی ہی مرہون منت ہے اس لئے مودی کے دفاع میں جیٹلی اور پھر جیٹلی کے نقش قدم پر بی جے پی کا چلنا یقینی ہے ۔ بہرحال مذکورہ الزام میں کتنی سچائی ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا جلد بازی ہو گئی۔ کیونکہ
لے گا زمانہ خون کی ہر بوند کا حساب
قاتل کو قتل عام سے تھکنے تو دیجئے
مگر جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا ہے وہ صد فیصد صحیح اور درست ہے ۔ مسٹر مارکنڈے کاٹجو نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جو غلط ہو اور وہ غلط کہہ بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک مشہور اورمعروف قانون داں ہی نہیں بلکہ عدالت عظمی کے جج کے عہدہ سے سبکدوشی کے بعد پی سی آئی جیسے معزز ادارے کے سربراہ بھی ہیں ۔ نیزقانون کی باریکیوں سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ دراصل اس وقت این ڈی اے کنوینر شرد یادو کارپوریٹ گھرانوں کے اشارے پر مودی کو وزیراعظم کے عہدہ کے مضبوط دعویدار کے طورپر پروجکٹ کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں ۔ اسی کے مد نظر مودی کیلئے زور و شور سے اندر اور باہر خانے لابنگ ہورہی ہے ۔ کوشش یہ ہورہی ہے کہ عوام اور معاشرہ اس چیز کو تسلیم کرلے اور ان کی رگ رگ میں یہ بات رچ بس جائے کہ مودی وزارت عظمی کے عہدے کے سب سے مضبوط امیدوار ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ لائق و فائق ہیں ۔ بی جے پی کی طرف سے ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ مودی کا نام سرخیوں میں رہے ۔ اسی کے مدنظر بی جے پی کے قدآور رہنما بشمول یشونت سنہا اور رام جیٹھ ملانی جیسے لوگ یہ بیان دے رہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدہ کیلئے سب سے بہتر امیدوار نریندر مودی ہیں لیکن جب قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) کی سب سے اہم حلیف جنتادل (متحدہ) کی جانب سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور شیوسینا کی جانب سے یہ بیان آتا ہے کہ وزیراعظم کے عہدہ کیلئے سب سے مضبوط امیدوار ایونا میں حزب اختلاف کی رہنما سشما سوراج ہیں تو اس پر بی جے پی کی طرف سے فوراً یہ صفائی دی جاتی ہے کہ یہ پارٹی لیڈران ان کی ذاتی رائے ہے اور یہ پارٹی کا موقف نہیں ہے ۔ نیز بی جے پی کے صدر پارٹی لیڈران کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوار پر پارٹی لیڈران و کارکنان خاموش رہیں جس پر پھر انہی کی پارٹی کے لیڈران چٹکیاں بھی لیتے ہیں ۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گجرات کا مسلمان آج بھی سمہا ہوا ہے اور مودی حکومت کی آمریت جگ ظاہر ہے ۔ مودی کی اقلیت دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی حکومت نے اقلیتوں کو دی جانے والی اسکالرشپ کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ اگرچہ فیصلہ مرکز اور اقلیتوں کے حق میں آیا ہے لیکن مودی کی مسلم دشمنی کی ایک اور حقیقت سامنے آ گئی۔ جب 2002ء میں نقصان زدہ مساجد اور درگا ہوں کی مرمت کے تعلق سے عدالت نے مودی حکومت کو فرمان جاری کیا تو اس پر بھی مودی حکومت نے عدالت کے اس فیصلے کو غیر آئینی بتاتے ہوئے اسے چیلنج کیا۔ کل ملا کر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ 2002 کے گجرات فساد میں مودی حکومت کا بالواسطہ یا بلا واسطہ ہاتھ ضرور تھا اور اگر نہ ہوتا تو پھر سنجیو بھٹ اور راہل شرما جیسے وطن دوست اور آئین و قانون کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے والے جانباز پولیس اہلکاروں کو سچ بولنے کی سزا نہ دی جاتی۔ قومی پیمانے پر مسلمان ہی نہیں بلکہ برادران وطن آج بھی مودی کے زبردست مخالف ہیں اور وہ کبھی بھی انہیں معاف نہیں کر سکتے ۔ گجرات کے مسلمانوں کو اس قدر ڈرا اور دھمکایا گیاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر گجرات فساد کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں پھر نہ کہیں 2002 جیسے اندوہناک مناظر کا دوبارہ سامنا کرنا پڑجائے ۔ اس لئے خاموشی میں ہی عافیت ہے ۔ ہاں ! یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ کچھ زر خرید مسلمان مودی کے حامی ضرورہیں ۔ مگر ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی مودی نوازی پر کوئی فرق بھی ہندوستان کے سیکولر عوام کو نہیں پڑنے والا ہے ۔ ہندوستان مودی کو گجرات کے ہٹلر کے روپ میں دیکھ رہا ہے اگرچہ مودی گجرات جیت گئے ہیں مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ Gujrat is not India جس طرح ہٹلر کے گناہ نہیں معاف کئے جاسکتے اسی طرح مودی لاکھ سدبھاؤنا کر لیں انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مودی اپنی سدبھاونا میں بھی ٹوپی جسے سر کا تاج اور علماء کی شان کہا جاتا ہے کو پہننے سے انکار کر چکے ہیں ۔ مودی احمد پٹیل جیسے قدآور سیاسی رہنما کو میاں کے لقب سے مخاطب کرنے میں گریز نہیں کرتے کیا یہ ثبوت مودی کی مسلم دشمنی کیلئے کافی نہیں ہیں ۔ ان حقائق کے باوجود ابھی حال ہی میں سینئر سیاسی رہنما سید شہاب الدین کے بیان کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی جانب سے یہ بیان آیا کہ مودی کے تعلق سے کم ازکم گجرات کی سطح پر مسلمانوں کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے ۔ حالانکہ مولانا نے اپنے بیان پر صفائی دی ہے لیکن مولانا جیسے سینئر مذہبی رہنما سے اور وہ بھی جمعیۃ علماء ہند جیسی قدآور تنظیم کا جنرل سکریٹری رہتے ہوئے اس طرح کے بیان کی امید نہیں تھی۔ ویسے بھی ماضی میں مولانا کو آر ایس ایس کے پرچارک اندریش کمار کے ساتھ بابری مسجد کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں دیکھا گیا تھا جس پر اردو اخبارات نے سخت موقف کا اظہار کرتے ہوئے اس فوٹو کو عام کیا تھا۔ 2002ء میں گجرات میں جو کچھ ہوا اس کیلئے مودی کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یوروپی یونین کی مودی کی ضیافت کے باوجود امریکہ نے صاف کیا ہے کہ مودی کے ویزا کے تعلق سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ مطلب عالم سطح پر آج بھی مودی کے گنا ہوں کو نہیں بھلایا گیا ہے اور نہ ہی بھلایا جاسکے گا۔ مطلب مودی کو معاف کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اسلام کا واضح اصول ہے کہ ایک نفس کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک نفس کا احیاء پوری انسانیت کے احیاء کے مترادف ہے ۔ گجرات میں تو کم و بیش 2ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا اور اس طرح لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی کہ ایسا منظر دیکھ کر روح کانپ اٹھے اور کلیجہ منہ کو آ جائے ۔ اور جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا ان کو ہماری نصیحت ہے کہ وہ اس دیوانے کے خواب کو نہ پالیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ نیز آئین اور قانون پر یقین رکھتے ہوئے اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ زندگی گذاریں ۔ ساتھ ہی حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایسے افسران کو وزارتوں سے بے دخل کرے جو ملک کے سیکولرازم کی راہ میں سب سے بڑا روڑہ ہیں ۔

طارق انور

To make India a hindu rashtra is a madman's dream

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں