السلام علیکم ذیل سنگھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-07

السلام علیکم ذیل سنگھ

بعض حضرات کو مائک سے چپک جانے کی عادت ہوتی ہے ۔ اس قبیل کے لوگ مائک کو ہتھیار کے طورپر استعمال کر کے سامعین کو یرغمال بنالیتے ہیں۔ (خدا کرے کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں نہ ہو) شاعر کا کلام یا مقرر کی تقریر دلچسپ جامع اور مختصر مفید ہونی چاہئے کہ جب وہ رخصت ہونے لگے تو سامعین مزید اس کا کلام یا تقریر سننے کے خواہشمند ہوں اور اسے دوبارہ بلانے کیلئے اصرار کریں ۔ جن شاعروں کے کلام میں جان ہوتی ہے انہیں سامعین سے بار بار زبردستی داد مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ عمدہ کلام پر لوگ خود داد دینے پر مجبور ہو جایت ہیں اور ان کے منہ سے "واہ" "بہت خوب" اور "دوبارہ ارشاد" جیسے الفاظ بے ساختہ نکل جاتے ہیں ۔ بصورت دیگر شاعر یا شاعرہ کو بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ "آپ کی دعائیں چاہتا!چاہتی ہوں " یا"یہ شعر آپ کی خاموشی کی نذر کر رہا ہوں "۔
ایک شاعرمایوسی کے عالم میں کہنے لگے "آپ لوگ اپنے ہونے کا ثبوت دیں "۔ سامعین میں سے کسی نے کہا "ہونے کا یا سونے کا"۔ کلام ایسا ہوکہ لوگ خود داددینے پر مجبور ہو جائیں ۔ جبر و اصرار کر کے داد حاصل کرنا سامعین سے زیادتی ہے اور اچھے کلام پر سامعین کی خاموشی شاعر پر ظلم اور اس سے نا انصافی ہے ۔ عمدہ کلام پر داد نہ دینا بھی ایک قسم کا بخل ہے ۔ شاعری پہلے صرف شاعر ی ہوا کرتی تھی۔ اس میں ادکاری نہیں ہوتی تھی لیکن اب شاعری میں اداکاری کا بھی دخل ہو گیا ہے ۔
بعض اوقات تو سامعین کو مجبوراً شاعرسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جناب مائک پر رہئیے ! اس لئے کہ وہ جھومتے اور بل کھاتے ہوئے مائیک سے کافی دور نکل جاتے ہیں ۔ جس کے سبب سامعین تک ٹھیک سے آواز پہنچ نہیں پاتی۔ جس طرح لذیذ کھانوں میں نمک مرچ مسالہ اور لیمو کی مناسب اور صحیح مقدار ضروری ہوتی ہے اس طرح بڑے مشاعروں میں ایک دو مزاحیہ شعراء کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ ایک طنز و مزاح سے بھرپور کلام ماحول میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ۔ مثلاً ایک شاعر طنز کرتے ہوئے یوں کہتا ہے ۔
خواہش ہے کہ ان کی میک اپ سے مثل حور ہو جائے
کہاں یہ ممکن کہ کشمکش پھر سے انگور ہو جائے

سامعین اور مقررین یا شعراء کے درمیان ہونے والے مکالمے اور ریماکس بھی بعض اوقات بڑے مزیدار اور دلچسپ ہوتے ہیں ۔ مشاعرہ کی کامیابی میں ناظم مشاعرہ کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور مشاعرہ کے معیار کے تعین کا دارومدار بھی شاعروں کے ساتھ ساتھ ناظم مشاعرہ کی مناسب حکمت عملی، خوش اسلوب کارکر دگی اور حاضر جوابی پر منحصر ہوتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر شعر و سخن کی محفل میں ناظم مشاعرہ ایک طرح سے مرکزی کردار ہوتا ہے ۔
ایک مرتبہ ہندوستانی سفارت خانہ کی جانب سے منعقدہ ریاض کے سالانہ مشاعر میں ایک شاعرہ اپنا کلام سنا رہی تھیں ۔ سامعین سے ہال کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ سامعین کی نشسیں دائیں اور بائلیں جانب دو حصوں میں بٹی ہوئی تھیں اور ان دونوں کے درمیان گزرگاہ کے طورپر جگہ چھوڑی گئی تھی۔ بن سنور کر مائیک پر آئی ہوئی شاعرہ نے شکایتا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جانب کے لوگ غور سے سن رہے ہیں ۔ انور جلال پوری ناظم مشاعرہ تھے انہوں نے برجستہ کہا محترمہ کچھ لوگ مشاعرہ سننے کیلئے اور کچھ دیکھنے کیلئے آتے ہیں ۔ اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ایک مزاحیہ شاعر کو ناظم شاعرہ نے اس طرح مدعو کیا "خواتین وحضرات اب آپ کے سامنے میں ایک بہت بڑے لٹیرے کو پیش کرنے جا رہا ہوں۔ میری مراد فلاں شاعر سے ہے جو اپنے مفرد انداز اور مخصوص کلام سے جہاں بھی جاتا ہے مشاعرہ لوٹ لیا کرتا ہے ۔ تشریف لائے جناب...."
ریاض کے ایک مشاعرہ میں معروف شاعر، ادیب اور حکومت آندھراپردیش کے سابق چیف سکریٹری نریندر لوتھر تقریر کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ مجھے دو ہی بچے ہیں ۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹی ہمیشہ کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔ پڑھنے لکھنے کی بڑی شوقین ہے۔ البتہ بیٹا جوہے وہ تھوڑا سا...(توقف کرگئے شاید کسی مناسب لفظ کی تلاش میں تھے کہ )ڈائس پر موجود ممتاز ادب و شاعر طالب خوند میری( مرحوم ) نے برجستہ کہاکہ "نکلا ہوا ہے "۔ یہ سن کر لوگ ہنسی پر قابو نہیں پاسکے اور نریندر لوتھر ہلکی سے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ طالب خوندمیری کی جانب اس طرح دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ تمہیں بعد میں دیک لوں گا۔ مقررین اور سامعین کے مابین ہونے ہوالے مکالمے میں دلچسپ ہوا کرتے ہیں ۔ ایک صاحب تقریر کیلئے ڈائس پر آئے اور مائک سنبھالتے ہوئے کہنے لگے کہ میں پہلی بار تقریر کر رہا ہوں اگر کچھ غلطی ہو جائے تو آپ لوگ معاف کر دینا۔ فوراً سامعین میں سے پانچ چھ لوگوں نے بیک وقت کہا کہ آپ ہمیشہ یہی کہتے ہیں ! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کانوکیش تھا۔
سابق صدر جمہوریہ ہند گیانی ذیل سنگھ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کے دوران اساتذہ اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اساتذہ بڑی دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں اور طلبہ کی تعلیم و تربیت اپنی اولاد کی طرح کریں اور طلبہ کو چاہئے کہ وہ استادوں کا اپنے والدین کی طرح احترام کریں اور تعلیم پر پوری توجہ مرکوز کریں ۔ اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھیں اور اگر کوئی سیاستداں ان کے پاس آتا ہے تو دور ہی سے سلام کریں ۔ ابھی ان کا یہ جملہ پوری طرح مکمل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ جلسہ گاہ کے آخری حصے سے ایک منچلے طال علم نے زور دار برجستہ آوازلگائی "السلام علیکم ذیل سنگھ"۔

Assalamu Alaikum Zail Singh - Humoros Article by: Zakaria Sultan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں