ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:21 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-05

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:21


aik-bot-21
گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
کمرے میں کمار کے سامنے اپنی برہنگی دیکھ کر شانتا طیش میں آ گئی۔ مگر کمار نے بمشکل اسے سمجھایا کہ یہ ایک بدروح کی حرکتیں ہیں۔ پھر شانتا نے اس روح سے مدد مانگنی چاہی جس پر وہ ناکام رہی۔ دوسری طرف شاتو کے بت نے کمار کو حویلی چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا۔ کمار جب شانتا کو تسلی دے رہا تھا تب اچانک کہیں سے شانتا کا شوہر ونود آ گیا اور اس نے غصہ کے عالم میں اپنے دوست کمار پر حملہ کر ڈالا ۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

قسط : 1 --- قسط : 20

میں نے خود کو ونود کی گرفت سے چھڑانے کی بے حد کوشش کی لیکن وہ مجھے اس طرح دبوچ چکا تھا کہ میں جنبش بھی نہ کرسکا۔ وہ مجھے مسلسل مارتا رہا، گھونسوں سے لاتوں سے۔۔۔ اور میں اس کی مار کھاتا رہا، صرف اس لیے کہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے غلط فہمی کی بنیاد پر کر رہا ہے ۔
اس دوران شانتا مسلسل چیختی رہی۔۔۔۔۔۔۔"پاگل نہ بنو ونود۔۔۔۔۔۔ کمار صاحب کو چھوڑ دو۔۔۔۔۔"
لیکن ونود مجھے اس وقت تک مارتا رہا جب تک کہ میں بالکل بے دم نہ ہوگیا۔
اب وہ شانتا کی طرف مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حرافہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جیل تھا اور تو یہاں سہاگ رات منا رہی تھی۔"
"نہیں ونود۔۔۔۔۔۔۔۔"
شانتا بھی جواب میں چیخی
" تم پاگل ہوگئے ہو اور تم اپنی بیوی کی وفا پر بھی شک کررہے ہو اور اپنے دوست پر بھی۔"
" میں شک نہیں کررہا ہوں۔۔۔۔ "ونود بھی چیخا۔
" میں نے اپنی آنکھوں سے تم دونوں کو ہم آغوش دیکھا ہے ، تم دونوں آوارہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تم دونوں کو قتل کردوں گا۔"
"قتل کرو گے تو پھانسی پاؤگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شانتا نے سختی سے جواب دیا
"لیکن پہلے پوری بات سن لو۔"
"میں کچھ نہیں سنوں گا، بدمعاش عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ونود اتنا کہہ کر شانتا کی طرف بھی لپکا ، اس کے لپکنے کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے وہ اگلے ہی منٹ اپنے دونوں ہاتھوں سے شانتا کا گلا دبا دے گا۔۔۔۔۔ میں بے حد نڈھال ہوچکا تھا اور مجھ میں کھڑے ہونے کی بھی طاقت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود میں تڑپ کر اٹھا اور میں نے ونود کو پیچھے سے پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چلایا: "ونود تم واقعی پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔"
لیکن ونود نے مجھے پلٹ کر اتنی زور سے گھونسہ مارا کہ میں دوبارہ گر گیا۔
شانتا چلائی "ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دبادو میرا گلا تاکہ مجھے مکتی مل جائے ۔"
ونود شانتا کا یہ جملہ سن کر دیوانوں کی طرح قہہے لگانے لگا۔ اس نے کہا:
"میں تجھے مکتی دلانے ہی یہاں آیا ہوں ، بیسوا عورت۔۔۔۔۔۔۔۔"
اتنا کہہ کو ونود شانتا پر چیتے کی طرح جھپٹا۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے ہی لمحہ وہ فرش پر پڑا ہانپ رہا تھا ۔ نہ دکھائی دینے والے وجود نے اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر پٹخ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ونود کو اس عالم میں دیکھ کر میرے لبوں پر ایک سکون بھری مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اب میں سمجھ گیا کہ شانتا کی عاشق روح اس کمرے میں موجود ہے اور اس کی موجودگی میں ونود ہم ودنوں کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کراہتا ہوا اٹھا اور ونود کے قریب آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی فرش پر لیٹا ہانپ رہا تھا ۔ اس وقت اس کی حالت دیکھنے کے قابل تھی، ابھی چند لمحات قبل تک وہ شیر کی سی طاقت کا مظاہرہ کررہا تھا اور دیوانوں کی سی حرکت کررہا تھا لیکن وہ اب بالکل مُردوں کی طرح پڑا ہوا تھا ۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کس نے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا ہو ۔ اس کی آنکھوں سے ٹپکنے والی وحشت بھی اب بالکل ختم ہوچکی تھی اور اس کے چہرے پر جنون کے جو آثار تھے ان کا بھی اب کوئی پتہ نہ تھا۔
میں نے ونود سے پوچھا " یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ونود۔۔۔۔۔۔۔۔"
ونو د نے مردہ آواز میں جوا ب دیا " مجھے کچھ نہیں معلوم کمار"
اور میں فوراً سمجھ گیا کہ ونود نے اب تک جو کچھ کیا تھا وہ کسی سحر کے زیر اثر کیا تھا۔ مجھے اس پر رحم آنے لگا۔ اب شانتا بھی قریب آنے لگی تھی ۔
میں نے ونود سے سوال کیا: "تم جیل سے کیسے بھاگے۔"
" یہ بھی مجھے نہیں معلوم۔"
"اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت تم کہاں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے سوال کیا۔
"میں حویلی میں موجود ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ونود نے جواب دیا ۔
ونود کا یہ جواب ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ اب وہ ہوش میں ہے اور وہ اب تک جس سحر میں مبتلا تھا وہ ختم ہوچکا ہے ۔
"تم نے جیل سے بھاگ کر بہت برا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے کہا۔
" اس لیے آؤ میں تمہیں دوبارہ جیل پہنچا دو۔۔۔۔۔۔۔"
"مجھے کچھ نہیں معلوم کہ میں جیل سے کیسے بھاگا؟" ونود نے جواب دیا۔
" مجھے یہ بھی نہیں یاد کہ میں جیل سے یہاں تک کیسے آیا؟ مجھے کچھ یاد نہیں کہ مجھ پر آج کی رات کیا بیتی ہے؟"
"خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے اسے تسلی دی۔ " تم پریشان مت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا۔ تم میرے ساتھ چلو۔"
"کہاں چلوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ونود نے بہت آہستہ سے پوچھا۔
"جیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے جوا ب دیا "تم نے جیل سے بھاگ کر بہت بڑا جرم کیا ہے ، میں اگر تمہیں جیل واپس پہنچا دوں گا تو تمہارا یہ جرم ہلکا ہوجائے گا ، میں جیل کے حکام کو سمجھا دوں گا کہ تم نے جو کچھ کیا ہے وہ عالم بے ہوشی میں کیا ہے ۔"
"لیکن کمار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ونود نے ایک لمبی سانس لے کر کہا۔
"میں اب جیل نہیں جاؤں گا ، میں یہاں سے بھاگا جاتا ہوں، بعد کے حالات تم سنبھال لینا۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ناممکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے کہا "اول تو میں تم کو بھاگنے نہیں دوں گا اور دوم یہ کہ اگر تم بھاگ بھی گئے تو پولیس تمہیں ایک نہ ایک دن گرفتار ضرور کرلے گی اور تب بہت برا ہوگا۔"
ونود میرا یہ جملہ سن کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا:
"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مت روکنا، میں اپنے ساتھ شانتا کو بھی لے جانا چاہتا ہوں تاکہ ہمیں حویلی کے آسیب سے بھی نجات مل جائے اور موجودہ طوفانِ حوادث سے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اب شانتا نے گفتگو میں مداخلت کی ، اس نے کہا:
"ونود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن اتنا سمجھ لو کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جیسے ہی ہم حویلی سے باہر نکلیں گے پولیس ہمارے استقبال کے لیے موجود ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"انجام کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ "ونود نے کھڑے ہوکر کہا: " میں بہر حال حویلی چھوڑ دینا چاہتا ہوں"۔
اتنا کہنے کے بعد ونود نے شانتا کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: "آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔"
اور شانتا نے بھی اس کے ساتھ قدم بڑھا دئے۔

میں اس صورتحال کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ شانتا اور ونود دونوں کاحویلی سے باہر نکلنا بالکل ناممکن ہے کیونکہ دونوں خبیث ارواح کے اسیر ہیں لیکن پھر بھی میں نے ایک مرتبہ اور ان دونوں کو روکنے کی کوشش کی ۔لیکن ونود نے مجھے دھکا دے دیا۔
یہ رات واقعی میری زندگی کی عجیب و غریب رات تھی۔
اس ایک رات میں اتنے زیادہ واقعات ہوگئے تھے کہ میں خود کو ایک سیلابِ حوادث میں گھرا ہو محسوس کررہا تھا ، حالات نے مجھے اتنا مجبور اور بے بس بھی بنا دیا تھا کہ آج بھی جب میں ماضی کی اس تاریک رات کا تصور کرتا ہوںتو میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے ہیں۔
ونود جیل سے بھاگ کر آیا تھا اور اس کی حویلی خود میرے لیے ایک جیل بن چکی تھی ایک ایسی جیل جس سے نہ بھاگ سکتا تھا اور نہ جس میں رہ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واقعی یہ حویلی میرے لیے ایک عذاب بن چکی تھی۔

ونود جس وقت شانتا کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا تو ایک لمحہ کے لیے میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کیوں نہ میں ونود کو چلا جانے دوں؟ کیوں نہ میں ونود اور شانتا کو ان کے انجام کے حوالے کردوں ؟ کیوں نہ میں ونود کی راہ میں حائل ہونے کی بجائے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ لیکن اس خیال کے آنے کے فوراً بعد جیسے میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا۔
میں نے سوچا ونود بھی مصیبت میں ہے اور شانتا بھی، اس لیے مجھے ہر حال میں ان دونوں کی مدد کرنا چاہئے ۔ یہ جذبۂ وفا کی توہین ہے کہ میں ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دوں، چنانچہ ایک مرتبہ پھر میں نے ونود سے کہا:
"ونود۔۔۔۔۔۔۔ تم یہاں سے جاکر غلطی کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
لیکن ونود نے میرے کہنے کی ذرا بھی پروا نہ کی۔۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا:
"تم پاگل ہوگئے ہو کمار۔۔۔۔۔ میں اگر بھاگا نہیں تو مجھے پھانسی ضرور ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
او ر اتنا کہہ کر ونود شانتا کو لے کر کمرے کے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔میں حیران رہ گیا کہ کمرے میں موجو د روح نے شانتا کو باہر کیسے جانے دیا؟ کیوں کہ مجھے پورا یقین تھا کہ کمرے میں شانتا کی عاشق روح ضرور موجود ہے ۔
میں بھی گھبرا کر باہر نکل آیا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے کہ دور دور تک نہ شانتا کا پتہ تھا اور نہ ونود کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کالکا بدستور فرش پر بے ہوش پڑا ہوا تھا ۔ میں نے گھبرا کر شانتا اور ونود دونوں کو آوازیں دیں لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر دیوانگی سی طاری ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں دوڑتا ہوا حویلی کے پھاٹک تک آیا۔ لیکن پھاٹک بند تھا ۔ میں نے دونوں کو باغ میں تلا ش کیا لیکن باغ ہمیشہ کی طرح بالکل خالی پڑا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان دونوں نے اسی کنویں میں خود کشی کرلی ہو جس سے شاتو کا بت برآمد ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے کنویں کے چبوترے پر پڑھ کر ونود اور شانا کو آوازیں۔ لیکن میری آواز کنویں کی گہرائیوں میں گونج کر رہ گئی۔

ایک گھنٹے تک میں ان دونوں کو حویل کے ایک ایک کمرے میں اور ایک ایک گوشہ میں تلاش کرتا رہا ۔ لیکن ان کا پتہ چلتا تو درکنار مجھے ان کے قدموں کے نشان تک نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کو یا زمین نے نگل لیا ہو یا آسمان نے اوپر اٹھا لیا ہو۔۔۔۔۔
میں نے ہمت کر کے وہ تہہ خانہ بھی دیکھ ڈالا جس میں ونود کو ہڈیوں کا انسانی پنجر ملا تھا۔ اور جہاں اس نے پروفیسر تارک ناتھ کی لاش چھپائی تھی ۔ لیکن یہ تہہ خانہ بھی بالکل خال تھا۔ چمگادڑوں کے علاوہ اس میں کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔
ونود اور شانتا کی تلاش کے دوران کئی مرتبہ میری نگاہ شناتو کے بت پر پڑی ۔ بت بدستور اپنی جگہ پر موجود تھا اور ہمیشہ کی طرح مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے شانتا کی عاشق روح کو بھی آوازیں دیں لیکن روح نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

میں کہہ چکا ہوں کہ یہ میری زندگی کی عجیب و غریب رات تھی۔
ساری رات میں دیوانوں کی طرح ونود اور شانتا کو تلاش کرتا رہا۔ میں نے غلط نہیں لکھا ہے، واقعی مجھ پر دیوانگی سی طاری ہوگئی تھی۔اس تلاش میں ونود کے وفادار ملازم کالکا نے بھی میرا ساتھ دیا تھا ، کالکا کی حالت مجھ سے بھی زیادہ خراب تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
الغرض۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح صبح ہوگئی اور اس طرح تاریک رات کی جو دہشت میرے اعصاب پر حاوی ہوگئی تھی ۔ وہ ایک بہت بڑی حد تک ختم ہوگئی صبح کی ٹھنڈی ہوا نے میرے تھکے ہوئے اعصاب کو ایک تازگی بخش دی۔ میں آرام کرنے کے لیے حویلی کے بڑے برآمدے میں صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ اس جگہ سے مجھے شاتو کا خوب صورت بت بھی نظر آرہا تھا اور حویل کا داخلی پھاٹک بھی۔۔۔۔۔۔۔
کالکا نے جو میرے قریب ہی فرش پر بیٹھ گیا تھا مجھ سے کہا:
"مالک نے بی بی جی کے ساتھ اس منحوس کنویں میں چھلانگ لگا دی ہوگی ڈاکٹرصاحب۔۔۔۔۔۔۔"
"کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دونوں کیا ہوئے؟" میں نے جواب دیا
"بہر حال ہو سکتا ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو اور ان دونوں نے اپنی مصیبتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے خود اپنا ہی خاتمہ کرلیا ہو۔۔۔۔۔"
"دن اچھی طرح نکل آئے تو میں بستی جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کالکا نے کہا۔
" میں وہاں سے کچھ آدمی لاؤں گا جو کنویں میں اتر کر لاشوں کو تلاش کر سکیں۔"
"چلے جانا، اور ضرور چلے جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے جواب دیا "کم از کم اس طرح ہماری الجھن تو دور ہوجائے گی، ہمیں یہ تو پتہ چل جائے گا کہ ان لوگوں نے خود کشی کی ہے یا نہیں؟"
"لیکن ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔۔" کالکا نے کچھ سوچ کر کہا۔ "اگر ان دونوں نے کنویں میں چھلانگ نہیں لگائی ہے تو آخر یہ دونوں چلے کہاں گئے؟"
"سوال اہم ہے اور بہت اہم ہے ، کیوں کہ یہ دونوں حویلی سے باہر نہیں گئے ہیں ۔ اس لیے کہ جب میں ان کے پیچھے پیچھے حویلی کے پھاٹک تک گیا تھا تو میں نے دروازہ اندر سے بند پایا تھا اور تم جاکر خود دیکھ آؤ کہ یہ دروازہ اس وقت بھی اندر سے بند ہے"۔ میں نے تفصیل سے جواب دیا۔
کالکا اور میں کافی دیر تک ان دونوں کی گمشدگی پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ اور آخر ہم دونوں اسی نتیجے پر پہنچے کہ ان دونوں نے یا تو خود کشی کرلی ہے اور یا یہ دونوں باغ کی نیچی دیوار پھاند کر فرار ہو گئے ہیں۔ اب چونکہ دن اچھی طرح نکل آیا تھا اس لئے کالکا نے مجھے پہلے چائے پلائی اور مجھ سے کہا:
"میں بستی جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"
"میں بھی چلوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔" میں نے پوچھا۔
"کیا کیجئے گا ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔۔ " کالکا نے جواب دیا۔ "پھر یہ بھی ہے کہ اگر آپ بھی میرے ساتھ چلیں گے تو یہ حویلی بالکل خالی ہو جائے گی۔"

کالکا کی دلیل بالکل مضبوط تھی۔ اس لیے میں نے اس کے ساتھ چلنے کے لیے اصرار نہیں کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اب بری طرح دہشت کھاچکا تھا ۔ میں اس تصور سے ہی پریشان ہورہا تھا کہ کالکا چلا جائے گا تو یہ آسیب زدہ حویل بالکل خالی ہوجائے گی اور اس طرح حویلی میں میری تنہائی مجھے واقعی دیوانہ بنادے گی۔
کالکا جانے لگا تو ایک مرتبہ میرا دل چاہا کہ میں چیخ کر اس کو روک لوں لکن کوشش کے باوجود میں چلا نہ سکا ۔ میں نے ایسا محسوس کیا جیسے آواز میرے حلق میں پھنس کر رہ گئی ہو ۔ چنانچہ میں اسی طرح صوفے پر بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے سامنے کالکا نے پھاتک کھولا اور پھر میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
اب میں حویلی میں بالکل تنہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے نظریں اٹھا کر شاتو کے بت کی طرف دیکھا ۔ بت رات میں گرنے والی شبنم کے قطروں سے بالکل نہایا ہوا کھڑاتھا ۔ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت نظر آرہا تھا ۔ اتنا خوبصورت کہ چندلمحات کے لیے میں اس کی خوبصورتی میں بالکل ڈوب کر رہ گیا۔۔۔۔۔
میں دیر تک اپنی نیم باز آنکھوں سے شاتو کے بت کی طرف دیکھتا رہا۔
میرے ذہن میں بار بار یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک جاتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شاتو نے اپنے سحر کے تحت ونود اور شانتا کو غائب کردیا ہو۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شاتو اور شانتا کی عاشق روح میں کوئی سمجھوتہ ہوگیا ہو۔
میں بت کی طرف دیکھتا رہا اور طرح طرح کے خیالات کے سمندر میں غوطے کھاتا رہا۔
اسی طرح دو گھنٹے گزر گئے ، حویلی میں قبرستان کا سا سناٹا پھیلا رہا۔ خوف کی وجہ سے میں اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں انتہا سے زیادہ خوف زدہ ہوچکا تھا اور اب مجھ میں اتنی بھی ہمت باقی نہیں رہ گئی تھی کہ میں برآمدے سے کسی کمرے میں جاکر آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتا۔
گزری ہوئی ساری رات نے میرے سارے جسم کو توڑکر رکھ دیا تھا ۔
تقریباً دس بجے کالکا پانچ مزدوروں کو لے کر حویلی میں داخل ہوا۔ یہ مزدور کنواں صاف کرنے کا ہی پیشہ کرتے تھے ۔ اس لیے ان کے پاس ضروری سامان بھی تھا۔ انہوں نے آتے ہی اپنا کام شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی اپنی دلی بے چینی کے تحت منحوس کنویں کے قریب کھڑا ہو گیا۔

دو مزدور رسے کی مدد سے کنویں میں اتر گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک گھنٹے کے بعد انہوں نے اوپر آکر کہہ دیاکہ کنواں بالکل صاف ہے۔ انہوں نے کہا:
"کنویں میں آدمی ملنا تو الگ رہا ہمیں کوڑا تک نہٰں ملا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی چند دن قبل اسے صاف کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔"
ان مزدوروں نے ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ واقعی ابھی چند دن قبل ونود نے اس کی صفائی کروائی تھی اور اپنے لیے ایک مصیبت مول لی تھی۔ میں ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک مزدور نے کہا:
" یہ کنواں بہت پرانا معلوم ہوتا ہے ۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت پرانا" کالکا نے جواب دیا : "لیکن تم نے خاص طور پر یہ بات کیوں کہی ہے۔"
"اس لیے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" مزدور نے کہا "مجھے اس کنویں میں پانی کے اندر دیوار میں ایک بند دراوزہ نظر آیا ہے ۔"
"بند دروازہ۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"جی ہاں سرکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مزدور نے جواب دیا:
" میں نے یہ دروازہ ٹٹول کر دیکھا بھی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ دروازہ لوہے کا ہے۔"

مزدور نے بالکل نیا انکشاف کیا تھا اسلیے میں نے ان دونوں مزدوروں کے علاوہ باقی سب کو اجرت دے کر رخصت کردیا۔ اس کے بعد میں نے ان سے کہا:
" تم دونوں دوبارہ کنویں میں اترو اور یہ دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"
"آپ تو بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ ہم یہ دروازہ کنویں سے پانی نکالے بغیر کیسے کھول سکتے ہیں۔ اور مان لیجئے کہ اگر ہم یہ دروازہ کسی طرح سے توڑ بھی دیں تو دروازہ کھلتے ہی پانی ایک ریلا مار کر اندر داخل ہوجائے گا۔ اور پانی کے ساتھ ہی ہم بھی کنویں کے کمرے میں یا سرنگ میں داخل ہوکر پھنس جائیں گے۔"
"تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے کچھ سوچ کر کہا:
"ہمیں پہلے اس کنویں کا پانی نکالنا چاہئے" اتنا کہہ کر میں نے کالکا کی طرف دیکھا اور کالکانے کہا:
"ونود بابو نے پانی نکالنے والا انجن منگوایا تھا۔ یہ انجن رکھا ہوا ہے کیوں نہ ہم اس کی مدد سے پانی نکلوا دیں۔"
ایک گھنٹے کے اندر پمپ کے ذریعے کنویں سے پانی نکالا جانے لگا۔

کنویں میں ایک دروازے کی موجودگی کی اطلاع اتنی سنسنی خیز تھی کہ میں عارضی طور پر سب کچھ بھول گیا تھا ۔ میری تمام تر توجہ صرف کنویں پر مرکوز ہوکر رہ گئی تھی اور چونکہ پانی نکلنے کی رفتار بہت تیز تھی اس لیے کنویں کا پانی بہت تیزی سے کم ہو رہا تھا۔
پانی نکلنے کے دوران بھی ایک دو مرتبہ میں نے شاتو کے بت کی طرف دیکھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بڑی خوفزدہ نظروں سے دیکھا لکن ہمیشہ کی طرح بت بالکل ساکت و جامد کھڑا ہوا تھا ۔ البتہ میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ جیسے بت کی مسکراہٹ پہلے سے زیادہ پر اسرار ہو گئی ہے ۔
تین گھنٹے کے بعد پانی اس حد تک کم ہوگیا کہ ہمیں دروازے کا ایک حصہ نظر آنے لگا اور جیسے ہی ہم سب کے دل دھڑکنے لگے۔
کنویں کا یہ بند دروازہ یقینا حویلی کی گم شدہ تاریخ کے ورق پلٹنے جارہا تھا۔

میں ابھی کنویں کی الجھن میں پھنسا ہوا تھا کہ اچانک میری نگاہ حویلی کے پھاٹک کی طرف اٹھ گئی، پھاٹک میں ایک موٹر داخل ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔میں پھاٹک کی طرف لپکا۔۔۔۔لیکن اس اثناء میں یہ موٹر میرے بالکل قریب آکر رک گئی۔
میں اسے پولیس کی موٹر سمجھا تھا لیکن جب میں نے اس میں اس وکیل کو بیٹھے ہوئے دیکھا جس کو میں نے ونود کے لیے مقرر کیا تھا تو جیسے میرے جان میں جان آگئی۔
وکیل نے موٹر سے اتر کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتا اس نے خود ہی مجھ سے کہا" میں نے آج عدالت میں مسٹر ونود کی ضمانت کی درخواست داخل کردی ہے۔"
"لیکن وکیل صاحب۔۔۔۔۔"
میں نے وکیل کو ونود کے فرار کی خبر سنانی چاہی لیکن وکیل نے میری بات کاٹ دی اور مجھ سے کہا:
" میں آج صبح مسٹر ونود سے ملنے جیل بھی گیا تھا۔"
اور جیسے میں سر سے پیر تک کانپ گیا کیونکہ وکیل نے مجھ سے مزید کہا:
" مسٹر ونود نے وکالت نامہ پر دستخط کردئے ہیں، اور انہوں نے آپ کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ آپ شانتا کو سمجھاتے رہیں۔"

یہ ایک بالکل نیا انکشاف تھا۔۔۔۔۔۔۔
میں سکتہ کے عالم میں وکیل کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا ۔ میں وکیل سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ رات کو ونود جیل سے بھاگ کر یہاں آیا تھا اور شانتا کو لے کر غائب ہوگیا ہے لیکن میری زبان پر جیسے تالا لگ گیا تھا۔
کوشش کے باوجود میں وکیل سے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔

***
اس کے بعد کیا ہوا؟ ونود اگر جیل میں تھا تو ونود بن کر حویلی میں کمار سے لڑنے والا کون تھا؟ شانتا کیا ہوئی؟ آسیب زدہ حویلی پر اور کیا گزری؟ کنویں کا پراسرار دروازہ کیسے کھولا گیا؟ یہ سب جاننے کے لیے اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:21

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں