مشورے کا حکم اور اس کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-04

مشورے کا حکم اور اس کی ضرورت

advice
مشورے کا حکم اور اس کی ضرورت - غرض و غایت نتائج و فوائد :
مشورہ کی غرض و غایت انسان کو مہلک اور برباد کرنے والی غلطیوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
معاملات کی اصلاح اور نظام عالم کو ایسی ترتیب پر قائم رکھنا ہے جو مختلف القوی،متضاوت العقول کے باہم اجتماع کے مناسب ہو جب کہ یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ انسان کے تمام افراد با اعتبار عقل کے مساوی نہیں ہیں بلکہ ان کی عقول میں اس قدر تفاوت ہے کہ ایک اگر اپنی مافوق الفطرت عقل و تمیز اور ادراک و شعور کی وجہ سے ابناء جنس میں حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھاجاتا ہے تو دوسرا اس درجہ نیچے گرا ہوا ہے جس کو بمشکل حیوانات اور غیر ذوی العقول سے جدا کرسکتے ہیں ۔ ان کے افعال و اطوار اور بہائم کے طبعی و خلقی افعال میں بہت ہی کم فرق محسوس ہوتا ہے ۔
اور یہ بھی مسلم ہے کہ عقل انسانی با عتبار اصل فطرۃ کتنی ہی بلند واقع ہوئی ہو مگر اس کا نشوونما اس کی ترقی اور ارتقاء کا آلہ حقیقی تجربہ اور ممارسۃ معاملات ہے دانشمند سے دانشمند بھی بلا تجربہ ناقص اور اس کی رائے غیر قابل قبول ہوتی ہے ۔ وہ اپنی عقل سے خطاء و صواب کے راستے بے شک بتلاتا ہے لیکن جو باتیں تجربہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ بغیر عالم کے تغیرات اور واقعات و حالات پر فلسفیانہ و حکیمانہ نظر ڈالے حاصل نہیں ہوتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک خود مبتلا ہو کر سر دوگرم سے واقف نہ ہوجاوے ہرگز اس کی رائے صائب نہیں ہوسکتی ۔ اس کی مثال ایسی سمجھو کہ ایک نہایت دانشمند و زیرک فنون جنگ کی کتابوں کا عالم و حافظ بلکہ کسی مکتب حربیہ کا پروفیسر یا پرنسپل میدان جنگ سے دوردراز بیٹھے ہوئے معرکہ آرائی کی تدبیریں بتلاتا ہے اور ہر ایک نشیب تجربہ کئے ہوں )لفظ حلیم ح لم بکسر الحا ء بمعنی دانش و عقل سے مشتق ہے آپ کا حصر کے ساتھ ارشاد فرمانا کہ دانشمند صرف وہی ہے جس نے تجربے کئے ہوں، ٹھوکریں کھائی ہوں صاف بتلاتا ہے کہ بغیر لغزشوں کے آدمی پختہ کار نہیں ہوتا اس کے اخلاق و ملکات ناقص و نا تمام رہتے ہیں۔ اور اگر حلم کو تحمل و بردباری کے معنی میں لیاجائے تب اس ارشاد میں ایک دوسرا مدعیٰ ثابت ہوگا جو اپنی اہمیت و صحت میں معنی اول کے ہم سنگ ہے اور جس سے آپ کے ارشادات کا جوامع الکلم ہونا اور بھی روشن ہوجائے گا یعنی کسی شخص میں اصل فطرۃ سے اگرچہ حلم و بردباری موجود ہو لیکن اس کو ایسے مواقع اور واقعات سے سابقہ نہیں پڑا جن سے ان کے تحمل کے عمق اور بردباری کی تہ کااندازہ ہوسکے ایسے شخص کو حلیم اور برد باد نہ کہنا چاہئے ۔ حلیم وہی شخص ہوسکتا ہے جو کڑی سے کڑی بات پر بھی جنبش نہ کرے چیں بجیں نہ ہو۔ اور در حقیقت یہ حالت بغیر تجربہ اور ٹھوکریں کھائے حاصل نہیں ہوسکتی۔ بہت سے شخص دیکھنے میں کوہ وقار معلوم ہوتے ہیں لیکن چھوٹے سے خلاف طبع کا تحمل انہیں دشوار ہوجاتا ہے ۔ بہت سے ایسے ہیں جو بڑے سے بڑے معاملہ میں تحمل کرلیتے ہیں ۔ لیکن کبھی کسی چھوٹے اور غیر معتد بہ امر میں اپنی حالت سے نکل جاتے ہیں پھر معاملات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اس لئے تجربہ ہی ایسی چیز ہے جو حلیم کو حقیقی حلیم بناتا ہے ۔

ماخوذ:
کتاب "اسلام میں مشورہ کی اہمیت"
مولفین: مولانا حبیب الرحمان عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع

Importance of advice in Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں