کتاب کی واپسی - انشائیہ از مکرم نیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-05

کتاب کی واپسی - انشائیہ از مکرم نیاز

kitab-ki-wapsi

روایت ہے جدید زمانے کی کہ ابلیس کے ایک ماہانہ اجلاس میں "بہترین کارکن" کا ایوارڈ دیے جانے کا فیصلہ ہو رہا تھا ، معتقدین اپنے اپنے کارنامے بیان کررہے تھے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور تاحال کیے جارہے ہیں۔ آخر میں جب سب سے کم عمر مرید کی باری آئی تو وہ چند لمحے شرماتا رہا پھر سر جھکا کر مدھم لہجے میں بولا:
"میں نے اس تمام عرصے میں صرف ایک شاگرد بنایا۔"
اجلاس میں اچانک خاموشی چھا گئی اور تمام شرکا حیرت زدہ ہوکر اس نو آموز معتقد کو گھورنے لگے جس نے ہچکچاتے ہوئے دوبارہ اپنی زبان یوں کھولی:
"اور میں نے اپنے شاگرد کو کتاب لے کر نہ لوٹانے کا عادی بنا ڈالا"۔
شیطان اعظم کے تالیاں پیٹنے کی آواز آئی اور اسی نوعمر مرید کو "بسٹ ورکر" ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا۔ اجلاس میں دائیں بازو کی بنچوں سے حزب مخالف نے اعتراض کیا کہ یہ کون سا عظیم کام ہوا؟ ہو سکتا ہے کتاب لے کر نہ لوٹانا شاگرد کی اپنی مجبوری رہی ہو یعنی غریبی یا مفلسی کے سبب وہ کتاب خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ جواباً شیطان نے فرمایا:
"نادار یا مالدار طالب علم اگر باذوق اور بامروت ہو اور حصول علم کی سچی لگن رکھتا ہو تو وہ کبھی علم کا ذریعہ اپنے پاس روکے نہیں رکھتا۔ مانا کہ تم سب دریا کا بہاؤ غلط سمت موڑتے رہے مگر میرے اس نوخیز چیلے نے کمال یہ کیا کہ دریا کے درمیان ڈیم تعمیر کر ڈالا۔"
اس وضاحت نے شاید سبھی کو مطمئن کردیا تھا لہذا وہ سب اپنے نو عمر ساتھی کو داد دینے لگ گئے۔


بہت عرصے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ مانگنے والوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو کتاب لے کر لوٹاتے نہیں اور دوسرے وہ جو کتاب لے کر حسب وعدہ لوٹا دیتے ہیں (چاہے طویل وقفے بعد سہی) لیکن جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں کیوں کہ کتاب جب آپ کو واپس ملتی ہے تو وہ ناقابل مطالعہ ہوتی ہے اور اس کے وہ زرین صفحات جس سے کہ آپ کو اپنے مضمون کے لئے مواد حاصل کرنا ہوتا ہے، ثابت و سالم نہیں رہتے۔ جب واپس ملنے والی کتاب کا کچھ ایسا حشر ہو سکتا ہے تو مفقود الخبر کتاب نہ جانے کتنے دردناک اور اذیت ناک مراحل سے گزری ہوگی اس کا اندازہ ممکن نہیں۔
اور جب کتاب واپس ملنے پر اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر آپ کا خون ابال کھاتا ہے تو کتاب واپس نہ ملنے پر کتاب لے کر نہ لوٹانے والوں کے تئیں آپ یقینا بے شمار "بے نقط القاب" تجویز کرتے ہیں ، جن کا اظہار طوالت کے پیش نظر ناممکن ہے۔ کتاب کی واپسی کے پے درپے تقاضوں کے جواب میں کتاب لے کر نہ لوٹانے والے اکثر اوقات یہ جملہ کمال معصومیت سے دہراتے ہیں :
"معاف کرنا دوست! بس بھول ہی گیا۔"
لیکن آفرین ہے ان کی یادداشت پر کہ کسی کو دی گئی اپنی ذاتی کتاب ہر حال میں واپس وصول کرنا وہ کبھی فراموش نہیں کرتے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات پیشہ ور سیاست دانوں کے زمرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں چونکہ سیاست داں عوام سے کیا گیا وعدہ بھلے ہی بھول جائے مگر اپنے مفاد کے حصول سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتا۔ لہٰذا سیاست دانوں سے متعلق جتنے چٹکلے ، محاورے اور ناقابل بیان قصے وابستہ ہیں وہ بلا جبر و اکراہ کتاب لے کر نہ لوٹانے والوں سے بھی منسوب کیے جا سکتے ہیں۔


کتاب لے کر نہ لوٹانے والوں سے ہزاروں شکایتیں ایک طرف مگر دوستی بر بنائے وضع داری ہم ان سے نبھاے جاتے ہیں (نبھانا ہی چاہئے ورنہ پھر دشمن اتنے برے نہیں معلوم ہوتے جتنے کہ وہ دراصل ہوتے ہیں)۔ ایک دفعہ ہم ایسے ہی اپنے ایک دوست کے گھر بیٹھے حسب استطاعت ان سے اپنی کتاب کی واپسی کا رونا رونے کے بعد گپ شپ میں مصروف تھے۔ اسی دم پڑوس کا کوئی لڑکا نازل ہوا ، ہمارے دوست نے جلدی سے وہ کٹورا جس میں موجود ایک نئی قسم کی میٹھی ڈش سے ہم کچھ دیر قبل فیض یاب ہوچکے تھے تشکرانہ جملوں کے ساتھ اس لڑکے کے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر ہماری ظریفانہ رگ پھڑکی اور ہم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا:
"کیوں یار! میری بیشتر کتابوں کی طرح اس خوبصورت نقش و نگار کے جاذب نظر چینی کٹورے پر اپنا غاصبانہ قبضہ کیوں نہ جمایا؟"
ہمارے دوست نے پہلے ہمیں ایک تیکھی مسکراہٹ سے نوازا ، چند لمحے غور کیا پھر بولے:
"پہلی بات تو یہ کہ کٹورا کچھ اخلاقی مجبوری اور کچھ پڑوسی کے متوقع جارحانہ مطالبے کے مد نظر فوراً واپس کرنا پڑتا ہے۔ دوم یہ کہ کٹورے کا تعلق ضروریات زندگی سے راست نہیں بلکہ وہ اشیائے باورچی خانہ میں شمار ہوتا ہے۔ جب کہ کتاب راست انسانی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ وہ انسانی دماغ کو سنوارتی ، نکھارتی ہے، بے وقوف کو عقلمند بناتی ہے۔"
"بے شک! بجا فرمایا۔"
ہم نے فوراً ٹکڑا لگایا: "جس کے پاس جو چیز نہ ہو وہ اسی میں زیادہ دلچسپی دکھاتا ہے۔"


کتاب لے کر نہ لوٹانے والوں کی ایک قسم اکثر و بیشتر عوامی لائبریری میں بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں تازہ ترین کتاب کی دستیابی کی تازہ ترین صورتحال کے متعلق آپ جب بھی دریافت کریں یہی معلوم ہوگا کہ "کتاب گئی ہوئی ہے۔"
کب آئے گی؟
اس سوال کا جواب نہ لائبریرین آپ کو دے سکتا/سکتی ہے۔ نہ دوسرے قارئین۔ لہٰذا آپ اس ان دیکھے قاری کو جس کا پیشہ ہی بالعموم کتاب لے کر نہ لوٹانے کا ہوتا ہے، ایسے ایسے خطابات سے نوازنے کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں جو دائرہ اخلاق سے باہر اور سنسر کی زد میں آتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہیں جو اکثر لائبریری سے سلسلہ وار ناول کے حصے ترتیب وار لے آتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے تلخ تجربوں کا ذکر یوں بیان کیا کہ ناول کے اگلے حصہ کے لئے انہیں کبھی صرف ایک ہفتہ انتظار کرنا پڑا تو کبھی مہینہ بھر وہ دوسرے حصہ کی صورت دیکھنے کو ترس گئے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ مطلوبہ کتاب دیڑھ سال تک ان سے کسی بے وفا محبوبہ کی طرح روٹھی رہی۔ ناچار کوفت دور کرنے کی خاطرجب کبھی وہ کسی دوسرے سلسلہ وار ناول کی طرف متوجہ ہوئے تو انکشاف ہوا کہ اس کی تمام جلدیں تو موجود ہیں، بس کچھ نہیں ہے تو وہ ہے ناول کی پہلی جلد!
لہٰذا تھرمامیٹر پر بالائی سطح کی جانب تیز رفتاری سے لپکتے اپنے شعلہ بار ٹمپریچر کا بدلہ ایک دفعہ انہوں نے اس طرح لیا کہ کتاب لے کر نہ لوٹانے والے کے مقابل وہ سیر کو سوا سیر کی عملی تفسیر بن گئے۔ یعنی طویل عرصہ بعد جب ناول کے چوتھے حصہ کی واپسی کے ساتھ پانچویں حصہ کی طلب میں طلبگار وارد ہوا تو ہمارے دوست اس کی نظروں کے عین سامنے پانچواں حصہ طویل ترین مدت کے لئے لے اڑے اور فرد مقابل حیرت اور صدمے کے عالم میں غرق سوچتا رہ گیا کہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود گر پڑنے کا محاورہ شاید اسی طرح کے کسی موقع پر بزرگوں نے ایجاد کیا ہوگا۔


موبائل لائبریری یعنی گشتی کتب خانہ کو آپ نے دیکھا یا اس کے بارے میں سنا ضرور ہوگا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض کتابوں کے واپس وصول نہ ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ گشتی کتب ہوتی یا کہلاتی ہیں جو ایک ہاتھ سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اس طرح لاتعداد ہاتھوں ، بلا معاوضہ اور بنا کسی قانونی حدود کے سفر کرتی ہیں۔ ویسے بعض کتابیں کیوں؟ کہنا چاہئے کہ اردو کی ہر کتاب اپنی ذات میں ایک موبائل لائبریری ہوتی ہے۔ بجز نصابی کتب کے جو یا تو مستقل روی فروض کے ہاں ڈیرا ڈالے رہتی ہیں یا زیور طبع سے آراستہ ہو کر کتب فروشوں کے پاس پہنچنا ان کے نصیب میں کبھی ہوتا نہیں (بالاتفاق نصیب سنور بھی جائے تو اونچے داموں کے باعث مستحق طلبا کی دسترس میں وہ پھر بھی نہیں آتیں)۔


کتاب لے کر نہ لوٹانے والوں کی بعض اوقات مجبوری یہ ہوتی ہے کہ خود ان کے ہاں سے کتاب کوئی دوسرا پار کر لے جاتا ہے۔ اس کا عملی سابقہ اس طرح پڑا کہ کتاب لے کر نہ لوٹانے کی دانستہ یا نادانستہ عادت سے مجبور ہمارے دوست نے کتاب کی واپسی کے لئے ہمیں دوسرے دوست کے ہاں روانہ کیا ، دوسرے نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے چوتھے کے گھر کا درواز ہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا جہاں سے بھی ہم ناکام لوٹے۔ آخر کتاب کی واپسی سے نا امید ہوکر بوریت کے مارے ہم اپنے پڑوسی کے ہاں سے ایک کتاب مطالعے کے لئے مانگ لائے، دوران مطالعہ ایک مخصوص صفحہ پر اپنا نام دیکھ کر اچانک انکشاف ہوا کہ وہ تو ہماری مطلوبہ کتاب ہے جس کی تلاش میں ہم سرگرداں تھے۔ اب پڑوسی لاکھ ہمیں کتاب لے کر نہ لوٹانے والے کا طعنہ دیتا رہے مگر اپنی ہی کتاب ہم دوسرے کو لوٹائیں بھی تو کیوں کر؟


کتاب کی واپسی کی امید میں بے بسی، بیزاری اور بدمزگی جیسے الفاظ سے بخوبی آشنا ہونے کے بعد ایک دن ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے دوستوں کو طنز کی کڑوی گولی محبت اور اخلاص کی ظاہری پرت کے ساتھ پیش کی جائے۔ یوں جب بھی ہمارے کسی دوست نے ہماری کوئی کتاب برائے مطالعہ طلب کی تو ہم فوراً کتاب کے اندرونی صفحہ پر یہ چند الفاظ تحریر کرکے بطور ہدیہ ان کی خدمت میں پیش کرنے لگے:
"اپنے عزیزدوست کی خدمت میں خلوص کے ساتھ۔"
مگر معاملہ عجب پلٹا کھا گیا، ہمارے دوست کیا خاک سدھر پاتے اس کے بجائے وہ خود اس مسئلہ میں گرفتار دکھائی دینے لگے، جس کا پہلے پہل ہم شکار تھے۔ تفصیل اس اجمال پرملال کی یوں ہے کہ ہمارے ہدیے کی کتابیں اکثر ایسے دوستوں کے کتب خانے کی زینت بنی نظر آئیں جن کی خدمت میں مذکورہ کتب ہم نے پیش نہیں کی تھیں ، یعنی "الف" کو دی گئی کتاب کبھی "ب" کے ہاں دستیاب ہوئی تو "ج" کو نذر کی گئی کتاب "د" کے پاس موجود نکلی۔ اور ایک دفعہ تو غضب یہ ہوا کہ تحفتاً پیش کی گئی ایک کتاب ہمیں ایسی جگہ سے دستیاب ہوئی جہاں سے چھٹی کے دن ہم پرانی کتابیں سستے داموں خرید لاتے ہیں۔ اس موقع پر ہم نے وہی نسخہ آزمایا جو ایک مرتبہ مشہور ادیب جارج برنارڈ شا نے اپنایا تھا۔
واقعہ یہ تھا کہ ردی فروش کے ہاں پرانی کتابوں کا ڈھیر گھنگالتے ہوئے اچانک برنارڈ شا کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی جس کے اندرونی صفحہ پر ہی ان کی ایک مختصر تحریر اور اس کے نیچے ان کے دستخط کے ساتھ چند سالہ پرانی تاریخ درج تھی۔ برنارڈ شا نے کتاب خریدی، پرانی عبارت کے نیچے کچھ لکھا، تازہ تاریخ کے ہمراہ دستخط ثبت کیے اور اپنے اسی دوست چارلس کے نام کتاب ارسال کردی۔
پرانی تحریر تھی:
"برنارڈ شا کی جانب سے اپنے دوست چارلس کی خدمت میں خلوص کے ساتھ۔"
اور نئی عبارت یوں تراشی گئی:
"برنارڈ شا کی جانب سے اپنے دوست چارلس کی خدمت میں مکرر خلوص کے ساتھ!"

***
(بشکریہ: ماہنامہ 'شگوفہ' حیدرآباد، دسمبر 1994)

Kitab ki wapsi. Light Essay by: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں