بالی ووڈ اور جنوبی ہند کا سینما (2015 تا 2025) ، ایک تقابلی، تحقیقی اور غیرجانبدار مطالعہ
تمہید:
2014ء کے بعد ہندوستان میں سیاسی اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ یہ خیال عام ہوا کہ فلمی صنعت، خصوصاً بالی ووڈ، میں ایسی فلموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو پاکستان مخالف یا مسلم مخالف بیانیے پر مبنی ہیں، اور یہ فلمیں عوامی سطح پر غیر معمولی مقبولیت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ یہ تصور وقت کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط مفروضہ بیانیے کی صورت اختیار کر گیا، مگر اس مفروضے کو باقاعدہ اعداد و شمار اور فلمی مواد کی روشنی میں کم ہی جانچا گیا ہے۔
راقم الحروف مکرم نیاز کا زیرِ نظر مطالعہ، اسی مفروضے کو جانچنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے، جس کے تحت ہندوستانی فلموں میں پاکستان/مسلم مخالف رجحانات کی موجودگی/فروغ کے ساتھ بالی ووڈ اور جنوبی ہند (تمل، تلگو، کنڑا اور ملیالم) کے سینما کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
مطالعے کا دائرہ کار: یہ تحقیق درج ذیل حدود میں کی گئی ہے۔۔۔
مدت: سنہ 2015 تا سنہ 2025 (جملہ 11 سال)
ہر سال کی وہ پانچ فلمیں جو باکس آفس کے لحاظ سے سب سے زیادہ کامیاب رہیں۔
بالی ووڈ: کل 55 فلمیں
جنوبی ہند: کل 55 فلمیں
یوں مجموعی طور پر ایک سو دس فلموں کا مطالعہ اس اہم تحقیق کی بنیاد بنا ہے۔
فہرست بالی ووڈ (55) فلمیں:
2025: چھاوا، سیارہ، دھرندھر، مہااوتار نرسمہا، وار-2 // 2024: ستری-2، بھول بھلیاں-3، سنگھم اگین، فائٹر، شیطان // 2023: جوان، پٹھان، اینیمل، غدر-2، ٹائیگر-3 // 2022: برہمسترا، بھول بھلیاں-2، دی کشمیر فائلز، گنگوبائی کاٹھیاواڑی، سمراٹ پرتھوی راج // 2021: سوریہ ونشی، 83، انتِم: دی فائنل ٹروتھ، تڑپ، بیل باٹم // 2020: تنہاجی: دی ان سنگ وارئیر، باغی-3، شبھ منگل زیادہ ساودھان، ملنگ، چھپاک // 2019: وار، کبیر سنگھ، بھارت، مشن منگل، ہاؤس فل-4 // 2018: سنجو، پدماوت، ریس-3، باغی-2، ٹھگز آف ہندوستان // 2017: ٹائیگر زندہ ہے، گول مال اگین، جڑواں-2، رئیس، ٹیوب لائٹ // 2016: دنگل، سلطان، یہ دل ہے مشکل، ہاؤس فل-3، ائر لفٹ // 2015: بجرنگی بھائی جان، پریم رتن دھن پایو، باجی راؤ مستانی، دل والے، تانو ویڈز منو ریٹرنز
فہرست جنوبی ہند سینما (55) فلمیں:
2025: پشپا-2، دیوارا، وٹلاپّو، ٹھگ لائف، کانتارا-چیپٹر 2 // 2024: کالکی 2898 اے ڈی، گوٹ (دی گریٹسٹ آف آل ٹائم)، ہنو-مین، دیوارا پارٹ-1، منجمل بوائز // 2023: جیلر، لیو، پشپا-دی رائز، سالار، کانتارا // 2022: آر آر آر، کے جی ایف-چیپٹر 2، وکرم، کارتھیکیا-2، پونین سیلون-1 // 2021: پشپا-دی رائز (ابتدائی مسابقت)، وکیل صاب، ماسٹر، اکھنڈا، جئے بھیم // 2020: الاویکنتھاپورملو، سریلرو نیکیورو، دربار، بھشما، جانو // 2019 (کووِڈ — محدود ریلیز):ساہو، بگِل، مہارشی، لوکیشا، لوسیفر // 2018: باہوبلی-2، رنگستھلم، کے جی ایف-چیپٹر 1، 2.0، بھارت انے نین: // 2017: باہوبلی-2 (ابتدائی مسابقت)، مرسل، ویویکم، ٹیکا، ولا // 2016: کبالی، جننتھ گڑھ، سری منتھو، اپرچیت 2، پُلی // 2015: باہوبلی-دی بگننگ، ودلام، آئی، ینائی ارندھال، تھانی اوروون
عددی و موضوعاتی تقابل: (بالی ووڈ)
اعداد و شمار سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ عام تصور سے خاصی مختلف ہے۔ بالی ووڈ کی پچپن کامیاب ترین فلموں میں سے: صرف چند فلمیں ایسی ہیں جن میں پاکستان کو بطور مخالف ریاست پیش کیا گیا۔ کچھ فلمیں ایسی ہیں جن پر مسلم کرداروں یا تاریخی بیانیے کے حوالے سے اعتراضات سامنے آئے۔ اکثریت ایسی فلموں کی ہے جو مکمل طور پر غیر سیاسی، غیر فرقہ وارانہ اور خالص تفریح یا سماجی موضوعات پر مبنی ہیں۔
متذکرہ بالا 55 فلموں میں سے واضح اور مرکزی سطح پر پاکستان مخالف بیانیہ، حالیہ فلم 'دھرندھر' کے بعد صرف 'غدر-2' میں ہے؛ باقی فلمیں بالواسطہ یا جینرا کی مجبوری کے تحت اس فہرست میں آتی ہیں۔
غدر-2 (2023): مرکزی پلاٹ براہِ راست ہندوستان/پاکستان دشمنی پر مبنی، پاکستان بطور مخالف ریاست پیش کیا گیا۔
ٹائیگر-3 (2023): جاسوسی تھرلر، پاکستان میں سیٹ ایکشن، اسٹیٹ لیول تنازع کا پس منظر۔
پٹھان (2023): جیوپولیٹیکل اسپائی تھرلر، اگرچہ براہِ راست پاکستان مخالف نہیں، مگر خطے کی دشمن ریاستی شبیہ سے اس فلم کو جوڑا گیا ہے۔
وار (2019): انٹیلی جنس/دفاعی دشمن کے تصور میں خطے کی ریاستیں بطور مخالف پس منظر پیش کی گئیں۔
بیل باٹم (2021): ہائی جیکنگ اور سفارتی بحران، پاکستان بطور سیٹنگ/ریفرنس۔
اور ۔۔۔ مسلم مخالف بیانیے یا منفی مسلم نمائندگی سے منسلک سمجھی جانے والی فلمیں، یعنی جو مذہبی شناخت، شدت پسندی، یا یک رخی منفی کردار نگاری پر مباحثہ کھڑا کرتی ہوں، درج ذیل ہیں:
چھاوا (2025): ہندوستان میں مغل سلطنت کے چھٹے شہنشاہ اورنگزیب کی منفی شبیہہ کو پیش کرنے پر سیاسی و سماجی شخصیات کی جانب سے احتجاج برپا ہوا۔
پدماوت (2018): جہاں ملیشیا نے اس فلم پر پابندی لگائی کہ اس میں ایک مسلم حکمران کی منفی تصویر کشی کی گئی وہیں اندرون ملک ہندوتوا قوتوں (بطور خاص راجپوت طبقہ) نے راجپوت خاتون کی نامناسب عکاسی پر نہ صرف فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا بلکہ ہدایتکار اور فلم کی ہیروئین کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
دی کشمیر فائلز (2022): سب سے زیادہ متنازع، مسلمانوں کی مجموعی منفی تصویر کشی پر شدید عوامی و عالمی بحث۔
سمراٹ پرتھوی راج (2022): تاریخی جنگی بیانیہ، مسلم حکمرانوں کی یک رخی منفی تصویر کشی پر اعتراضات۔
تنہاجی: دی ان سنگ وارئیر (2020) : تاریخی فلم، مسلم کرداروں کی ابلیسیت پر تنقید۔
کبیر سنگھ (2019): براہِ راست مسلم مخالف نہیں، مگر بعض مکالمات و سماجی رویوں پر فرقہ وارانہ تعبیرات اس فلم کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔
اینمل (2023): مذہبی نہیں مگر مسلم نام/شناخت والے کرداروں کی منفی علامتی تعبیر پر بحث کی گئی۔
رئیس (2017): مسلمان مرکزی کردار، مگر جرائم اور اسمگلنگ کے تناظر میں اسٹریوٹائپ سازی پر تنقید کی گئی۔
انتیم - دی فائنل ٹروتھ (2021): مسلم شناخت کے ساتھ منفی مجرمانہ قوس پر محدود تنقید ہوئی۔
عددی و موضوعاتی تقابل: (جنوبی ہند)
دوسری طرف جنوبی ہند کے سینما میں۔۔۔ پاکستان مخالف بیانیہ تقریباً ناپید ہے۔ مسلم مخالف رجحان نہایت محدود اور بالواسطہ نوعیت کا ہے۔ زیادہ زور مقامی ثقافت، زمین، خاندان، سماجی کشمکش اور انسانی رشتوں پر دیا گیا ہے۔
پاکستان مخالف بیانیے سے منسلک سمجھی جانے والی فلمیں:
جنوبی ہند کی متذکرہ 55 فلموں میں سے کوئی بھی فلم براہِ راست یا مرکزی طور پر پاکستان مخالف بیانیے پر مبنی نہیں۔ چند فلموں میں غیر متعین دشمن یا فکشنل دہشت گرد گروپس یا بین الاقوامی ولن دکھائے گئے ہیں، لیکن پاکستان کا نام، شناخت یا ریاستی کردار موجود نہیں۔
جنوبی ہند کی مسلم مخالف بیانیے یا منفی مسلم نمائندگی سے منسلک سمجھی جانے والی فلموں کی فہرست بہت مختصر ہے اور وہ بھی بالواسطہ:
کانتارا (2022): مذہب نہیں، مگر قبائلی/دیہی شناخت کے تناظر میں بعض حلقوں نے فرقہ وارانہ تعبیر کی کوشش کی (وسیع تر اتفاق نہیں کیا جا سکتا)۔
کبالی (2016): مسلمان مرکزی کردار، مگر جرائم اور انڈرورلڈ پس منظر پر محدود تنقید۔
لوسیفر (2019): سیاسی طاقت اور مذہبی علامتوں کے استعمال پر کچھ حلقوں کی تشریحات، مگر فلم بذاتِ خود غیر فرقہ وارانہ۔
نتیجہ: ان میں سے کوئی بھی فلم مسلم مخالف ایجنڈا پر مبنی نہیں، صرف تشریحی مباحث بیان کیے گئے۔
بالی ووڈ بمقابلہ جنوبی ہند سینما:
ہندوستانی سینما کو اکثر ایک ہی زاویے سے دیکھا جاتا رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ مختلف علاقائی فلمی صنعتوں پر مشتمل ہے، جن کی کہانی سنانے کی روایات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بھارتی فلمیں پاکستان کے خلاف بیانیہ پیش کرتی ہیں، مگر یہ بات زیادہ تر ہندی (بالی ووڈ) فلموں تک محدود ہے۔ اب ذیل میں ایک غیر جانبدار اور تحقیقی جائزہ پیش ہے کہ جنوبی ہند سینما (تمل، تلگو، ملیالم، کنڑ) میں پاکستان کا براہِ راست ذکر کیوں نایاب ہے؟
جنوبی ہند فلموں میں پاکستان کا براہِ راست ذکر کیوں کم ہے؟
تقسیم کے صدمے سے تاریخی اور ثقافتی فاصلہ:
تقسیمِ ہند (1947) کے صدمے نے پنجاب، اترپردیش، دہلی، سندھ/گجرات، بنگال کو براہ راست متاثر کیا۔ جنوبی ہندوستان جغرافیائی اور سماجی طور پر بہت دور تھا۔ تقسیم کے وراثتی اجتماعی عناصر جیسے: تقسیم کا تشدد، پناہ گزینوں کی نقل مکانی، سرحدی صدمہ ۔۔۔ جنوبی ہند میں محسوس نہیں کیے گئے، لہٰذا جنوبی ہند کے فلم بینوں کو اس بیانیہ کی تحریک وراثت میں نہیں ملتی ہے۔
جنوبی ہند سنیما تاریخی طور پر حسب ذیل موضوعات پر توجہ مرکوز کرتا ہے: ذات، طبقہ، زبان کی شناخت، ریاست بمقابلہ مرکز، بدعنوانی، مقامی جبر وغیرہ۔ بطور مثال ۔۔۔ تمل سینما (دراوڑی سیاست)، ملیالم سینما (طبقہ جاتی تفریق، حقیقت پسندی)، کنڑ سینما (زمین، شناخت)، تلگو سینما (طاقت، جاگیرداری نظام)۔ جنوبی ہند سینما کے لیے، پاکستان ایک بیرونی "دیگر" ہے، جب کہ جنوبی ہند سینما اندرونی سماجی تنازعات کو ترجیح دیتا ہے۔
پانچ نکات کی شکل میں مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے:
1: علاقائی سماجی موضوعات پر توجہ
جنوبی ہند کی فلمیں زیادہ تر حسب ذیل موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں: سماجی ناانصافی، ذات پات اور طبقاتی فرق، مقامی سیاست، عوامی مسائل۔ یوں ان فلموں میں بیرونی ممالک یا عالمی سیاست مرکزی موضوع نہیں بنتے۔
2: تقسیمِ ہند کا براہِ راست اثر نہ ہونا
1947 کی تقسیم نے شمالی ہند کو شدید متاثر کیا، جبکہ جنوبی ہند (بااستثنائے سابق ریاست حیدرآباد دکن اور وہ بھی ایک مخصوص صورتحال کے باعث) اس تاریخی صدمے سے براہِ راست نہیں گزرا۔ اسی لیے پاکستان جنوبی ہند کے اجتماعی شعور میں وہ مقام نہیں رکھتا جو شمالی ہند میں نظر آتا ہے۔
3: اندرونی مسائل بمقابلہ بیرونی دشمن
جنوبی ہند فلموں میں تنازع زیادہ تر: نظام اور عوام، طاقت اور انصاف، ریاست اور فرد کے درمیان دکھایا جاتا ہے، نہ کہ کسی بیرونی ملک کے ساتھ جنگ یا دشمنی کے طور پر۔
4: تجارتی اور او۔ٹی۔ٹی حکمتِ عملی
آج کے دور میں فلم سازوں کی اکثریت اس بات کو بھی مدنظر رکھتی ہے کہ: فلم او۔ٹی۔ٹی پلیٹ فارمز پر بھی جاری ہو اور مقبولیت حاصل کرے، بین الاقوامی ناظرین متاثر نہ ہوں، غیر ضروری تنازعات سے بچا جائے، اس لیے جنوبی ہند سینما میں پاکستان جیسے حقیقی ممالک کا نام لینے کے بجائے فرضی یا غیر واضح دشمن دکھائے جاتے ہیں۔
5: بالی ووڈ کی موجودہ اجارہ داری
بھارت بمقابلہ پاکستان جاسوسی، جنگ اور سرحدی تنازعات پر مبنی فلمیں، عرصہ دراز سے بالی ووڈ کی پہچان بن چکی ہیں۔ لہذا جنوبی ہند سینما نے جان بوجھ کر اس میدان میں قدم نہیں رکھا ہے۔
کون سی جنوبی فلمیں واقعی بھارت پاکستان تعلقات سے جڑی ہیں؟
کچھ واضح مثالیں ۔۔۔
میجر (2022 ؛ تلگو): 26/11 ممبئی حملوں پر مبنی فلم، جس میں پاکستان سے جڑے دہشت گرد نیٹ ورک کا براہِ راست حوالہ موجود ہے۔
آپریشن ویلنٹائن (2024 ؛ تلگو/تمل): فضائی کارروائیوں اور جدید دور کے سرحدی تنازعات پر مبنی، پاکستان کا بالواسطہ مگر واضح اشارہ۔
ان کے سوا زیادہ تر فلمیں پاکستان سے متعلق نہیں ہیں۔
تقابلی جدول - بالی ووڈ اور جنوبی ہند سینما:
| پہلو | بالی ووڈ | جنوبی ہند سینما |
|---|---|---|
| پاکستان کا براہِ راست ذکر | عام | نہایت کم |
| جاسوسی و جنگی کہانیاں | زیادہ | محدود |
| دشمن کی شناخت | واضح | فرضی |
| تنازع کی نوعیت | بیرونی | سماجی / داخلی |
بالی ووڈ فلمیں، پاکستان اور مذہب اسلام : عام غلط فہمیاں
*غلط فہمی 1: فلم میں مسلم کردار کا دکھایا جانا = پاکستان مخالف فلم
** یہ تصور درست نہیں۔
*غلط فہمی 2: دہشت گردی پر مبنی کہانی = اسلاموفوبیا
** اکثر فلموں میں نہ مذہب کا نام لیا جاتا ہے، نہ ملک کا۔
*غلط فہمی 3: جنوبی ہند سینما پاکستان مخالف ہے۔
** گذشتہ پانچ سال کی بڑی فلموں میں سے صرف ایک آدھ مثال ہی ملے گی۔
یاد رہے کہ، جنوبی ہند سینما میں پاکستان کا کم ذکر کسی نظریاتی تعصب کا نتیجہ نہیں بلکہ ثقافتی، تاریخی اور تجارتی وجوہات کی بنا پر ہے۔ ہر فلمی بیانیے کو سیاسی زاویے سے دیکھنا درست تجزیہ نہیں۔
پاکستان مخالف بیانیہ: حقیقت کیا ہے؟
بالی ووڈ میں چند ایسی فلمیں ضرور ملتی ہیں جن کی کہانی براہِ راست یا بالواسطہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے گرد گھومتی ہے۔
تاہم ایسی فلمیں: تعداد میں نہایت کم ہیں، کسی ایک مخصوص صنف (جاسوسی یا جنگی فلم) تک محدود ہیں اور مجموعی فلمی پیداوار پر حاوی نہیں ہیں۔
دوسری طرف، جنوبی ہند کے سینما میں پاکستان کا بطور دشمن ریاست تقریباً کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہاں دشمن عموماً غیر متعین، خیالی یا داخلی نوعیت کا ہوتا ہے۔
مسلم مخالف بیانیہ: فلم یا تعبیر؟
اس مقام پر ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: ہر منفی تعبیر لازماً فلم ساز کی نیت کا اظہار نہیں ہوتی۔
بالی ووڈ میں بعض فلموں کو مسلم مخالف کہا گیا، مگر ان میں سے اکثر اعتراضات:
تاریخی واقعات کی پیش کش یا مخصوص کرداروں کی تعبیر پر مبنی تھے، نہ کہ مسلمانوں کے خلاف عمومی بیانیے پر۔
جنوبی ہند کے سینما میں مسلمان کردار اکثر طاقتور، پیچیدہ اور مرکزی حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں، اور مذہبی شناخت کو شاذ ہی تنازع کا مرکز بنایا گیا ہے۔
حتمی نتیجہ:
اعداد و شمار، فلمی مواد اور موضوعاتی تجزیے کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
یہ کہنا درست نہیں کہ: 2014ء کے بعد ہندوستانی سینما کی اکثریتی کامیاب فلمیں پاکستان یا مسلمانوں کے خلاف بیانیہ تشکیل دے رہی ہیں۔ ایسی فلمیں موجود ضرور ہیں، مگر:
وہ تعداد میں کم ہیں، وہ مکمل ہندوستانی فلمی صنعت پر غالب نہیں اور انہیں پورے سینما کی نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اختتامی نوٹ:
اس مضمون کا مقصد کسی ملک یا مذہب کے خلاف موقف اختیار کرنا نہیں بلکہ فلمی رجحانات کو حقائق کی روشنی میں دریافت کرنا ہے۔
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com
![]() |
| Syed Mukarram Niyaz سید مکرم نیاز |
Why South Indian Cinema Rarely Portrays Pakistan Directly?
A data-based comparative analysis of Bollywood and South Indian cinema (2015–2025), examining Pakistan-related narratives and Muslim representation beyond popular assumptions.
Review/Analysis: Mukarram Niyaz






کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں