یکسانیت سے بھرے صبح و شام، تھکا دینی والی مصروفیات، ہجوم افکار، ٹنشن اور ڈپریشن سے گرزتی زندگی کو پرسکون اور فرحت بخش بنانے کے لیے سیاحت اور تفریحی مقامات کی سیر اپنے آپ میں’انرجی بوسٹر‘ کا کام کرتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ سیر و سیاحت ذہنی تناؤ، بے چینی اور ڈپریشن کو ختم کرنے کا بہترین علاج ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بوجھل ذہنوں اور بیمار جسموں میں ’ڈوپامین ‘او ر ’سیروٹین‘ نامی ہارمونس کی افزائش کو فروغ ملتا ہے جو "ہپی ہارمونس" کہلاتے ہیں۔موجودہ دور میں سیر و سیاحت اور علمی و تفریحی مقامات کا سفر تعلیمی سرگرمیوں میں شامل ہے۔
البروج انٹرنیشنل اسکول جو شہرِ بنگلور کا معروف تعلیمی ادارہ ہے، یہاں کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ سے علماء کرام اور حفاظِ قرآن کی بڑی ٹیم وابستہ ہے، دسمبر کے وسط میں سیر و سیاحت اور تعلیمی دورے کا منصوبہ طئے پایا، اس تعلیمی دورے کو یادگار، موثر اور مفید تر بنانے کے لیے ہماری نگاہِ انتخاب جنوبی ہند کا قدیم اور ہندوستان کا مایہ ناز ادارہ جامعہ دارالسلام پر جا ٹکی، جو عمرآباد کی حسین وادی میں موجود ہے۔
15/دسمبر، بروز جمعہ ساتویں تا دسویں جماعت کے طلباء تجربہ کار اساتذہ کرام کی قیادت میں رحلۃ تعلیمیۃ کے بینر تلے جمع ہوگئے، یہ قافلہ دوپہر ڈھائی بجے اسکول سے ریلوے اسٹیشن کی جانب گامزن ہوا، تقریباً بیس منٹ بعد ریلوے اسٹیشن نگاہوں کے سامنے ہے، برنداون ریل پہنچنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں، اس وقفے میں ذمہ دار اساتذہ اپنی اپنی ٹیم کے طلباء کو اکٹھا کرکے سفر کے متعلق ہدایات دے رہے ہیں اور اشیائے خورد و نوش کی تقسیم بھی ہورہی ہے۔ ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت پر پلیٹ فارم پر پہنچی، سب اس کی گود میں سوار ہوئے، اپنی محفوظ نشستوں پر بیٹھے کوئی پردۂ ذہن پر منزل کی حسین اور خوبصورت تصویر ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں، کوئی کھڑکی کے باہر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بقول امجد اسلام امجد :
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
میرے لیے یہ سارے نظارے، کھیت کھلیان، پہاڑی سلسلے، سبزہ زار میدان دیکھے بھالے ہیں۔ ریل پٹریوں پر دندناتی دوڑ رہی ہے اور میں دروازے پر بیٹھے پٹریوں کی رگڑ سے اٹھنے والی آوازوں میں گم ہوں، ان آوازوں سے مجھے کبھی نفرت ہوتی تھی مگر اب یہ مانوس لگنے لگی ہیں، ماضی کے وہ دن بے اختیار پردۂ ذہن پر تصویر کی صورت رقص کرنے لگے ہیں جب عمرآباد میں زندگی کےخوش گوار اور بے حد خوبصورت پَل مجھے جینا نصیب ہوا تھا، ریل کئی راستوں، پُلوں اور منزلوں سے گزرتی ہوتی ہوئی آمبور اسٹیشن پہنچتی ہے۔
اسٹیشن سے بس اسٹانڈ کے درمیان مختصر فاضلہ ہے، مگر بنگلور سے چنئی جانے والی قومی شاہراہ پر فلائی اوور کا تعمیراتی کام چل رہاہے ،جس بناپرسارے راستے مسدود ہیں ، بچوں کی اتنی بڑی تعدادکو اس پار لے جانے میں دشواری کا اندیشہ ہے، مجھے دور سے ایک بیریکیڈ کھلا ہوانظر آرہاہے ،یہ امید کی ایک کرن تھی مگر قریب جانے کے بعد معلوم ہورہاہےکہ اس پار بھی راہیں مسدود ہیں لیکن بفضل للہ دورسے ایک تنگ راستہ نظر آرہاہے جسے دیکھ کر سب کی خوشی دیدنی ہے،ہم آخر کار بس اسٹانڈپہنچتے ہیں ، یہاں ایک بالکل خالی بس ہے جوسواریوں کے انتظار میں کھڑی ہے،یہ بس عمرآباد سےپہلے ہی گڑھ آمبور سے دائیں جانب نریم پیٹ جانے والی ہے ،ہمیں دیکھ کر ڈرائیور خوشی سے پھولے نہیں سمارہاہے،کہتاہےکہ یہ بس عمرآباد نہیں جاتی ہے مگر میں آپ لوگوں کو عمرآباد تک لے جاؤں گا۔
" اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں"، ساری بس میں ہم ہی ہم ہیں۔
خیر! یہاں سے ہم عمرآباد کا قصد کرتے ہیں۔ لبِ سڑک کئی عبادت گاہیں، دوکانیں موجود ہیں مگر بین الاقوامی شہرت یافتہ نئی پرانی چمڑے کی فیکٹریاں قابلِ ذکر ہیں جس سے آمبور جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم اور گاڑیوں کے شور سے سفر کی صعوبت کا احساس تازہ ہورہا ہے مگر تقریباً تیس منٹ کے بعد آب و ہوا تبدیل ہوجاتی ہے، فضاؤں میں خنکی، برودت اور شادابی پھیل جاتی ہے، یہ اشارہ ہے کہ ہم عمرآباد میں ہیں، بس رکی بھی تو کہاں؟ شہرِ آرزو کا حسین تاج محل، دل کش و دل آگیں، پُرشکوہ قدیم عمارت کے سامنے جو جامعہ دارالسلام کی پہچان اور عمرآباد کا Icon ہے۔ میری گھڑی میں ساڑھے سات بجے کا وقت ہے، معہد القرآن کے معصوم بچے اسکول کے طلباء کی اتنی بڑی تعداد کو بس اترتے ہوئے دیکھ کر قدرے تعجب اور پُرکیف احساس کا مظاہرہ کررہے ہیں. ہم طلباء کو کلیہ ہاسٹل کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کیونکہ وہیں ہمارے قیام وطعام کا انتظام کیا گیا ہے۔
شام بھیگی بھیگی سی ہے، جامعہ کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے دور سے ہی مسجد سلطان کا بلند و بالا، عالیشان مینار ہر آنے والے کو دعوتِ دیدار دے رہا ہے، راستے کے دونوں جانب قطار اندر قطار درختوں کا خوبصورت منظر اور درختوں کے پتوں پر ہلکی ہلکی شبنم کی پھوار، اس حسن کو دوبالا کرتی ہوئی یہ برقی قمقموں سے نکلتی مدھم سی روشنی، یہ پرسکون فضاؤں کی خاموشیاں، یہ روحانی ماحول کی دل انگیزیاں، یہ رشک و سرور میں ڈوبی محفلیں اور یہ علم و ایمان کی پرنور مجلسیں، اس روح پرور ماحول کو دیکھ کر میرا انگ انگ عمرآباد کے لیے جذبۂ عقیدت و محبت سے سرشار ہے اور یہی کیفیت مادر علمی کی آغوش میں ـ’ عمری ‘اور عمرآباد سے وابستہ ہر شخص کی ہوتی ہے۔
اب ہم سیدھے قیام گاہ کی اور بڑھتے ہیں، اس رحلۃ تعلیمیۃ کے منتظم مولانا ایاز احمد عمری صاحب (استادِ جامعہ) بڑی بے تابی سے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ کلیہ ہاسٹل کے صدر دروازے پر مولاناسے ہماری ملاقات ہوتی ہے، آپ کے ہمراہ ہم سب قیام گاہ (ثانویہ مذاکرہ ہال) کا رخ کرتے ہیں، نمازِ عشاء کے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر حافظ جعفر پاشا عمری اور مولانا عبدالحسیب سلفی صاحبان (اساتذۂ البروج اسکول) بچوں کو کل کے پروگرام کی تفصیلات اور اس کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے جلد سونے اور علی الصبح بیدار ہونے کی تاکید کرتے ہے۔
(دوسرے دن)
صبح چار بجے مولانا عبدالحسیب سلفی صاحب ہمیں تہجد کے لیے جاگا تے ہیں، اس سے قبل نہ جانے ہم میں سے کون کون آہِ سحر گاہی کی سکون آمیزی اور لذت آشنائی سے آخری بار کب شاد کام ہوئے تھے، مگر آج کی صبح ہمارے لیے کچھ مختلف ہے، اس کا آغاز ہی قربِ الٰہی کی آرزو میں ڈوبے جذبوں، سحر خیزیوں اور اشک ریزیوں سے ہورہا ہے.بالِ جبریل کا شعر گوشۂ دل پر ابھر رہا ہے :
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِّ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
علامہ اقبال امتِ مسلمہ کے کھوئے ہوئے سوز و ساز اور متاعِ دین و ایمان کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو کبھی مسلمانوں کا خاصہ اور پہنچان تھی، اب اس کا حصول "بے آہِ سحر گاہی ممکن نہیں ہے۔
نمازِ فجر کے بعد ہم عمر لائبریری کا رخ کرتے ہیں، اس تذکیری اجلاس کے کنوینر استادِ جامعہ مولانا جعفر علی صدیقی عمری مدنی صاحب اسکول کے طلباء اور اساتذہ کا استقبال کرتے ہوئے جامعہ کا تعارف، اس کا پیغام اور اس تعلیمی دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ استقبالیہ نشست ایک کپ چائے کی لذت اور نشاط انگیزی کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔
اب سیر و تفریح کا وقت ہے، ہم طلباء کو جامعہ کے کیمپس میں موجود عمارتوں اور مختلف شعبوں کا تعارف کراتے ہوئے جامعہ کی قدیم عمارت کی طرف رواں دواں ہیں جو کبھی پورے دارالسلام کو سمیٹے ہوئے تھی مگر اب شعبۂ تحفیظ القرآن کے لیے مخصوص ہے۔یہاں مدیر معہد القرآن مولانا حافظ سراج الدین عمری صاحب کا طلباء سے قرآن مجید کی اہمیت و فضلیت پر خطاب ہوتا ہے، مولانا صاحب اسکول کے حفّاظ سے قرآن سنتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ہماری خواہش پر اپنے تین شاگردوں سے پڑھواتے ہیں، تینوں معصوم بچوں نے قرآن مجید کی تلاوت اتنی خوش اسلوبی اور خوش الحانی کے ساتھ کررہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہورہے ہیں۔سننے والوں کے کانوں میں کلامِ خداوندی کی حلاوت اور شیرینی گھل رہی ہے۔بچوں کے نام میرے ذہن میں نہیں ہیں مگر ایک طالب علم جو قرآن مجید کی چند آیتیں قرات کے اصول و قواعد کے ساتھ بہترین اسلوب و لہجے میں پڑھ رہے ہیں وہ مولانا عبدالعظیم عمری مدنی حفظہ اللّٰہ کے فرزند ارجمند ہیں۔
میری گھڑی میں سوا آٹھ بج رہے ہیں، اب ہمارے ناشتے کا وقت ہے، جامعہ کی کھچڑی اور لذیذ دال کا ذائقہ کون بھول سکتا ہے، اس کے ساتھ انگریزی ڈیش مزیدار میکرونی بھی ہے۔
ٹھیک نو بجے تذکیری اجلاس کا انعقاد ہونے والا ہے، اسکول کے طالب علم محمد معظم کی قرات سے پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔
خطابات کا آغاز مولانا ڈاکٹر مفتی کلیم اللہ عمری حفظہ اللّٰہ کے اظہارِ خیال سے ہوتا ہے، آپ "وقت کی قدر و قیمت " اور اس کی اہمیت کو اسلاف کرام کی زندگیوں کی مثال سے اُجال رہے ہیں۔
"والدین کی اطاعت "کے عنوان پر مولانا جعفر علی صدیقی عمری صاحب بڑے موثر انداز اور دل انگیز لہجے میں خطاب فرمارہے ہیں۔
مولانا عبدالصبور حماد عمری مدنی صاحب "موبائل فون کے آداب "بتاتے ہوئے اس کے فوائد اور نقصانات پر مفید ترین گفتگو کررہے ہیں۔
مولانا دکتور الیاس اعظمی عمری صاحب نے"ایک مسلمان کی پہچان " کیسی ہونی چاہیے؟ اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ایک اچھا مسلمان وہ ہے جو اللہ اور رسول کے احکام کو جانتا ہے اور پھر اسے مانتا ہے۔ اور کہتے ہیں: ہمارا دین ہم سے پراکٹیس چاہتا ہے۔
مدیر ماہنامہ راہ اعتدال، محمد رفیع کلوری عمری صاحب کا موضوع سخن ہے :" دورِ حاضر کے چیلنجز"۔ آپ نے تقریباً پانچ چیلنجز کا ذکر اوراس کے مناسب تدابیر بیان فرمائے، آپ کا خطاب اسکول کے طلباء کے ذہنی سطح کے مطابق ہے، موثر اور مفید ترین ہے۔
ناظم جامعہ مولانا دکتور عبداللہ جولم حفظہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ"ایمان اور علم ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا "اور طلبہ کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ "آپ یہاں سے دینی جذبہ لے کر جائیں"۔
مولانا حافظ ابراہیم عمری صاحب "تعمیرِ شخصیت اور کردار سازی" کے عنوان پر عالمانہ اور معلوماتی خطاب کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ" آپ کا مقصد جتنا اونچا ہوگا، اسی قدر آپ کو محنت بھی کرنی چاہیے۔
اب یہ اس اجلاس کا آخری خطاب ہے جو اسکول طلباء کے لیے ان کے مستقبل کے حوالے سے نقطۂ تحول( ٹریننگ پوائنٹ) ہونے والا ہے، عنوان ہے "ایس ایس ایل سی کے بعد کیا کریں؟ "اس حوالے سے مولانا محمد زکریا عمری صاحب نے بہت واضح طورپر عصری علوم کے مختلف میدانوں میں قدم رکھنے کے لیے جو کچھ مفید اقدام ہوسکتے ہیں، تفصیل سے بیان فرمارہے ہیں۔
یہ اجلاس ٹھیک سوا بارہ بجے البروج انٹرنیشنل اسکول کے مدیر معہد الاسلامی حافظ عبدالقیوم عمری صاحب کے ہدیۂ تشکر و امتنان کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے۔
اب جامعہ کے کیمپس سے نکل کر بیرونی علاقے کی سیر کرتے ہیں، حافظ جعفر پاشا عمری سالارِ قافلہ ہیں، یہ جامعہ ہسپتال ہے، صرف عمرآباد کے باشندوں کے لیے نہیں ہے، یہاں سے اطراف و اکناف کے ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں ابھی یہاں تعمیری و توسیعی کام چل رہا ہے، ہسپتال کے بالکل پیچھے دائیں جانب اقراء اسکول ہے اور اسی سڑک پر تھوڑی دوری پر دوسری اسکول ہے اور سڑک کے بائیں جانب گلی میں مدرسہ نسوان ہے جو برسوں سے نیک نامی اور کامیامی کے منزلیں طے کر رہا ہے۔ عمرآبادیہ چھوٹا سا گاؤں تعلیمی قلعوں اور دینی و علمی قندیلوں سے روشن ہے اور آگے بڑھیں گے تو جامعہ کا وسیع و عریض دامنِ کوہ تک پھیلا ہوا یہ کھیل کا میدان ہے، اور یہ دائیں جانب محمدیہ ہائی اسکول کی نئی عمارت ہے، اس کی قدیم اور تاریخی عمارت جامعہ کواٹرس کے سامنے ہے۔یہ عمرآباد کا بازار ہے، اس میں آپ کو ہر چیز مل جائے گی، یہاں کی چائے مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی طرح لب دوز اور دل سوز ہوتی ہے۔
ابھی ظہر کی آذان ہورہی ہے، نماز کے بعد ہم جامعہ کے پرتکلف دسترخوان سے سیراب ہوتے ہیں۔ہم (اساتذۂ البروج اسکول) عبدالقیوم عمری، جعفر پاشا عمری، عبدالحسیب سلفی، عارف احمد عمری اور راقم الحروف عبداللہ نادر عمری کلیہ درس گاہ کا رخ کرتے ہیں، دفترِ نظامت میں ناظم جامعہ دکتور عبداللہ جولم عمری حفظہ اللّٰہ اور مولانا حافظ ابراہیم عمری حفظہ اللّٰہ کے ساتھ ہماری نشست ہوتی ہے، ناظم جامعہ چائے سے ہماری ضیافت کرتے ہیں۔کلیہ ہال میں مولانا عبدالصبور حماد عمری ، مولانا عبدالوکیل عمری ،مولانامحمد سیفی عمری، مولانااسید احمد شاکر عمری،مولانادکتور الیاس اعظمی عمری، مولاناعبدالقیوم عمری،مولاناحافظ سراج الدین عمری اورمولانا حافظ اسلم عمری حفظھم اللہ سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔
ادھردیگر اساتذۂ اسکول عتیق الرحمٰن عمری، حافظ جنید احمد عبیدی اور عبدالرحمٰن محمدی بچوں کو سامانِ سفر تازہ کرنے کو کہہ رہے ہیں، یہ عمر آباد میں ہمارے قیام کی آخری گھڑیاں ہیں۔صرف ایک شب و روز کا یہ تعلیمی دورہ نہایت خوش گوار نتائج کی امید اور سیر و سیاحت کی بھر پور لطف اندوزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے، مولانا ایاز احمد عمری صاحب جو ابتدا سے آخر تک ہمارے ساتھ رہے، اب وداعی لمحوں میں مسکراتے ہوئے دعائیں دے رہے ہیں۔میں دیکھ رہاہوں کہ سب کے چہروں پر عمرآباد سے رخصتی کے آثار نمایاں ہیں اور لبوں پر دعائیں ہیں ۔
جبینِ دہر پہ فخرِ جہاں عمرآباد
زمین کی گود میں ایک آسماں عمرآباد
یہ اہلِ دانش و اربابِ فکروفن کی زمیں
نشانِ عظمتِ ہندوستاں عمرآباد
مضمون کی طوالت اگر آپ کی نفیس طبیعت پر گراں گزری ہو تو معذرت خواہ ہوں، جذبات نے قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
اور یہ سچ ہے کہ :
صحرا کو شہر ، دشت کو دریا نہیں لکھا
دیدہ لکھا ہے ہم نے، شنیدہ نہیں لکھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں