جاڑے کی سرد راتیں تھیں، سورج ڈھلنے کے بعد شام سے لے کر صبح صادق تک، بغیر کھیس اور گرم کوٹ پہنے گھر سے باہر نکلنا محال تھا۔ میں بھی اپنا گندمی رنگ کا کوٹ پہن کر ہی رات کو بستر میں گھس کر ذرا جلدی ہی سو گیا تھا۔ اباجان کسی کام سے شہر گئے ہوئے تھے، دیر رات ابا گھر لوٹ کر آ گئے تھے۔ لیکن مجھے ان کے آنے کا علم صبح ہی ہوا۔ ان کی عادت یہ تھی کہ صبح کی اذان سے چند منٹ قبل یا اذان کے فوری بعد اٹھ جایا کرتے۔
معمول کے مطابق آج بھی ابا جان بوقت اذان نماز فجر کے لیے نیند سے بیدار ہو کر گرم گرم بستر کو خیرآباد کہتے ہوئے ٹھنڈے پانی کے بہتے چشمے کی طرف تشریف لے گئے، تاکہ وضو مکمل کر کے نماز فجر ادا کی جا سکے ،میں یوں تو سو رہا تھا لیکن دراصل جاگ رہا تھا۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد پھر سے کھانسنے اور ساتھ ساتھ دھیمی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں میرے کانوں پر دستک دینے لگیں، اور میری بند آنکھیں یہ منظر دیکھنے لگیں کہ ابا نماز ادا کر رہے ہیں۔ بعد نماز انہوں نے یہ پیغام گھر کے تمام افراد تک پہچانے کی کامیاب کوشش کی۔
" جاگنا نہیں ہے کیا ؟ نماز نہیں پڑھوگے؟ پوری رات سونے کے باوجود بھی نیند پوری نہیں
ہوئی کیا؟ شاباش جلدی اٹھو اور نماز پڑھو، جس گھر میں صبح دیر تک سویا جائے اس میں
نحوست آ جاتی ہے"
اعلان ختم ہونے کے فوراً بعد، گھر کے دیگر تمام افراد ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نماز فجر کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ یہ بات تو سچ ہے ہر گھر میں چند مجھ جیسے خوددار اور بہادر لوگ بھی موجود ہوتے ہیں، جن کی زبان سے زیادہ دماغ چلتا ہے۔ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد ابا نے ریڈیو آن کیا، اور ان کی عادت تھی کہ وہ پروگرام حی علی الفلاح سنتے تھے، سنتا تو میں بھی تھا ،لیکن میں لیٹ کر سنتا تھا، اور ابا جاگ کر۔ روزانہ پروگرام سننے کا مجھے یہ فائدہ ہو گیا تھا کہ اس پروگرام کے کتنے مراحل ہیں، اور پروگرام کب ختم ہوتا ہے۔ یعنی مولانا منیب الرحمٰن کی دعا کے بعد پروگرام اختتام پذیر ہو جاتا تھا جوں ہی پروگرام میں درود شریف کا ورد ہوتا:
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ
تو میں تیاری میں لگ جاتا کہ میری نیند کے آخری لمحات گزرے رہے ہیں۔ اب مجھے ہر حال میں بستر سے اٹھنا ہے۔ میں اس کشمکش میں ہی ہوتا تھا اور ریڈیو پر یہ اعلان ہوجاتا کہ ان دعائیہ کلمات کے بعد پروگرام حی علی الفلاح کا وقت ختم ہوتا ہے۔ جوں ہی میں یہ ابتدائی دعائیہ کلمات سنتا تو تسلیم کر لیتا پروگرام حی علی الفلاح کے وقت کے اختتام کے ساتھ ساتھ میرے سونے کا وقت بھی اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے۔ لہذا اس سے پہلے کے ریڈیو بند ہو اور باہر رسوئی سے اعلان عام ہوجائے کہ کون کون ابھی تک سو رہا ہے۔ اور نہار منہ میری عزت افزائی ہو جائے میں نے گرم کمبل اس کے اوپر لحاف اور اس کے اوپر آدھا درجن کچھ چھوٹی بڑی رنگ برنگی چادروں کو چارپائی سے نیچے کا راستہ دکھایا اور خود گھر کے دوسرے دروازے کا رخ کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی کے بہتے چشمے کی طرف روانہ ہوا، اور ایک دم تازہ دم ہو کر باہر سے گھر کی دوسری جانب سے ابا حضور کے سامنے پیش ہوا۔ اور سلام کیا ابا نے وعلیکم سلام کہتے ہوئے میری جانب دیکھا اور کچھ اونچی آواز میں پوچھا: "ابھی جاگا "
میں نے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے جواب دیا۔ "نہیں پہلے کا جاگا ہوا ہوں "لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی دیر پہلے۔ خیر میری عزت آج بھی بال بال بچ گئی اور پھر میں نے اپنی دونوں آنکھوں کی مدد سے چولہے کی طرف دیکھا ،توقعات کے مطابق نمکین چائے اور چولہے میں روٹیاں سک رہی تھیں۔ میں دوزانو بجانب چولہا بیٹھ گیا۔ اتنے میں ابا کا حکم صادر ہوا:
" چائے پی لو اور اسکول وقت پر پہنچنے کی کوشش کرو"
یہ بات سنتے ہی میں نے اپنی آنکھوں کو چائے کے پتیلے سے پھیرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا ،تا کہ موسم کا جائزہ لیا جا سکے بدقسمتی سے موسم خراب ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آیا۔ یوں بھی تاریخ گواہ رہی ہے کہ پوری رات برسات و برفباری ہونے کے باوجود وقت رخصتی اسکول برسات رک جاتی اور موسم نہایت ہی خوشگوار ہوجاتا، اور اسکول سے چھٹی کے پورے پورے امکانات مٹی میں مل جاتے۔ اس طرح ایک بار پھر میں نے ہمت باندھی اور اسکول جانے کی تیاری پورے ڈھائی منٹ میں کرلی ،دائیں پاؤں کا جوتا انگوٹھے کے ٹھیک سامنے سے پھٹا ہوا تھا۔ جوں ہی میں نے سفر کا آغاز کیا تو کچھ قدم چلنے کے بعد ہی جوتے میں پانی داخل ہونا شروع ہوگیا۔ اور اس طرح پاؤں اور جوتے کی اندرونی کشمکش جاری ہوگئی۔
میں نے ان دونوں کے ذاتی مسلے میں دخل نہ دیتے ہوئے ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنا شروع کیا ،اوقات سے زیادہ رفتار میں چلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسکول سے کچھ دوری پر ہمارا اچانک ایک پیدل حادثہ پیش آگیا ، جس مٹی کے ٹبے سے میرے ذاتی پنکھوں نے اڑان بھری ، وہاں رات برسات ہونے کی وجہ سے کچھ رن وے پوری طرح سے خشک نہیں ہوا تھا۔
چند منٹ ہوائی یاترا کے بعد جب میری لینڈنگ ہوئی تو میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ،ایک شخص جائے وقوعہ کے کچھ فاصلے پر کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف نظر آیا۔ میری نظر جوں ہی اس پر پڑی تو میں نے زور سے چلانا شروع کیا اس نے آواز لگا کر مجھ سے دیافت کیا " زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟"
میں نے انہیں جواب نہ دیتے ہوئے اپنی 14 انچ کی تختی ،اور تقریبا ً دس کلو وزن کے برابر کتابوں سے بھرے بستے کو تلاش کرنا شروع کیا ،جب دور دور تک نظر نہیں آیا تو میں نے اونچی آواز میں اور زور سے چلانا شروع کیا ،اس آواز کے پیچھے گِر کر چوٹ کھانے کے علاوہ، یہ دکھ بھی شامل حال تھا کہ میری تختی میرا بستہ اور کتابیں تقریبا ًآدھے ایکڑ کے رقبے میں بکھرے پڑے ہیں انہیں کون جمع کرے گا آگے بڑھ کر میں نے تمام اشیاء کو یکجا کیا اور اسکول روانہ ہوا ،استاد جی نے ہمارا بھرپور اور پرخلوص استقبال دو ڈنڈے رسید کر کے کیا۔ خیر ہمیں زیادہ درد محسوس نہیں ہوا کیونکہ ہم نے غالب کا یہ شعر دوہرا کے صبر کر لیا تھا کہ
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ہے
پورا دن اسکول میں صرف میرا ہی گزرا ،اور میری روح کبھی اسکول کے باہر اور کبھی اسکول کے سامنے کِھڑکی سے دکھنے والے اونچے سفید برف سے ڈھکے پہاڑوں پر بغیر کسی ٹکٹ کےسیر کرتے رہے۔ اسکول میں چھٹی ہونے کے فوراً بعد ہم دونوں یعنی میں اور میرا ہمزاد سلامتی کے ساتھ کورے کے کورے گھر واپس لوٹ آئے۔ گھر پہنچتے ہی پہلی ملاقات ابا جان سے ہوئی جو مجھ سے چند ہی منٹ قبل کھیت سے واپس لوٹے میرا ہی انتظار کر رہے تھے اور میرے لیے خوردونوش کی تمام اشیاء جو جمع کی تھیں مجھے پیش کر دیں۔ اباجان خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے اور میں نے بنا کسی تکلف کے دسترخوان کو باعزت بری کر دیا۔
اعجاز احمد۔ ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد (جموں پونچھ)
ای-میل: ahmedajaz0009[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں