ریٹائرڈ جسٹس عبدالنذیر کو گورنری اور بابری مسجد کی ملکیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-06

ریٹائرڈ جسٹس عبدالنذیر کو گورنری اور بابری مسجد کی ملکیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

retd-judge-governor-babri-masjid-judgement

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج عبدالنذیر آندھرا پردیش کے گورنر بن گئے !

میری حیرت اُن کے گورنر بننے پر نہیں ہے ، پہلے بھی ریٹائرڈ جج صاحبان گورنر بنائے گیے ہیں اور یقیناً آئندہ بھی گورنربنائے جائیں گےیا دوسرے سرکاری عہدے پائیں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے دو ساتھی ریٹائرڈ جج صاحبان کی سرکاری تقرریوں پر جو لَے دے ہوئی ، اُسے دیکھتے ہوئے بھی عبدالنذیر نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کی ، انہیں یہ احساس تک نہیں رہا کہ ان کا یہ عہدہ سنبھالنا ، انہیں اور ان کے ایک یا کئی فیصلوں کو مشکوک بنا دے گا ، اور ان پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں گی !
عبدالنذیر اُن پانچ جج صاحبان میں سے ، جنہوں نے شہید بابری مسجد کی ملکیت کو رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے سونپنے کا ' فیصلہ ' کیا تھا ، کوئی سرکاری عہدہ پانے والے تیسرے ریٹائرڈ جج ہیں۔ ان سے قبل ' فیصلہ ' سنانے والے سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی راجیہ سبھا کے رکن بنائے جا چکے ہیں۔ اور ریٹائرڈ جسٹس اشوک بھوشن ' نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبیونل ' کے چیرپرسن کی کرسی پا چکے ہیں۔ دو جج صاحبان مزید تھے ، سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڑے ، اور جسٹس چندر چوڈ۔ اولالذکر یعنی بوبڑے کسی سرکاری عہدے پر نہیں ہیں ، لیکن وہ ' مہاراشٹر نیشنل لا یونیورسٹی ، ممبئی ' اور ' مہاراشٹر نیشنل لا یونیورسٹی ، ناگپور ' ان دو معروف یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ، اور یہ عہدے کوئی کم اہم نہیں ہیں۔ رہے جسٹس چندر چوڑ تو وہ اِن دنوں چیف جسٹس آف انڈیا ہیں۔
جب گگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت بھینٹ کی گئی تھی ، تب ایک ہنگامہ مچ گیا تھا ، اور اب جب عبدالنذیر کو آندھرا کا گورنر بنایا گیا ہے ، تو پھر ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اپوزیشن بشمول کانگریس کا کہنا ہے کہ ، عدلیہ کی آزادی خطرہ میں ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے اپوزیشن کی نکتہ چینی کو مسترد کر دیا ہے ، اور وہی رٹا رٹایا جملہ دوہرایا ہے کہ پہلے بھی ریٹائرڈ ججوں کو اس طرح کے عہدے دیے گیے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ماضی کی حکومتوں نے کوئی غلطی کی ہے ، تو وہ غلطی بی جے پی کی حکومت بھی دوہرائے گی ، اور اس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔
حالانکہ یہ معاملہ پہلے کے معاملات سے قطعی مختلف ہے ، کیونکہ جن تین ججوں کو اعلیٰ سرکاری عہدے دیے گیے ہیں ، وہ ایک بہت ہی حساس مقدمہ کی شنوائی کر رہے تھے ، اور مرکز کی نریندر مودی کی سرکار ہرحال میں یہ چاہتی تھی کہ مقدمہ کا ' فیصلہ ' جو آئے وہ اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ مقدمہ بابری مسجد کی ملکیت کا تھا۔ ہمارے سامنے بی جے پی کے آنجہانی لیڈر ارون جیٹلی کا ایک بیان ہے ، وہ کہہ رہے ہیں کہ :
" یہ خواہش کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ ملے ریٹائرمینٹ سے قبل کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔"


اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ، اگر کسی جج کی یہ خواہش ہو کہ ، ریٹائرمینٹ کے بعد اسے کوئی سرکاری عہدہ ملے ، تو ریٹائر ہونے سے قبل وہ جن مقدمات کی شنوائی کر رہا ہے ، ان مقدمات کے فیصلوں پر اس کی خواہش کا اثر پڑتا ہے۔ رنجن گگوئی نے چیف جسٹس رہتے ہوئے کئی اہم مقدمات کی شنوائی کی ، فیصلے دیے ، لیکن ان کا ب سےاہم ' فیصلہ ' بابری مسجد کی ملکیت پر تھا۔ انہوں نے اور ان کی سربراہی والی بنچ نے ، جس میں مذکورہ چاروں جج صاحبان شامل تھے ، متفقہ طور پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپ دی۔ کسی ایک بھی جج نے اعتراض نہیں کیا۔ اس 'فیصلہ ' کے بعد گگوئی نے اپنے ساتھی جج صاحبان کو ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں عشائیہ دیا تھا ، اس وقت کی تصویر جو اخباروں میں شائع ہوئی ہے ، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سب کے سب ' اتفاقِ رائے سے دیے گیے فیصلے ' پر خوب خوش ہیں۔


آئیں ایک نظر ' فیصلہ ' پر ڈال لیں۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لیے سونپے جانے کا ' فیصلہ ' سناتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس نے زمین پر مسلمانوں کے ' حق ' کو قبول نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے یہ مانا تھا کہ بابری مسجد مغل شہنشاہ محمد ظہیرالدین بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کروائی تھی اور مسجد کی تعمیر کے لیے کسی مندر کو منہدم نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نےاپنے ' فیصلہ ' میں ایودھیا میں مسجدبنانے کے لیے مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین سونپنے کی ہدایت دی تھی ، اوریہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کے اندر مورتیوں کا رکھنا اور اس کا انہدام ، دونوں ہی قابل مذمت حرکتیں تھیں۔ گویا یہ کہ دو بڑے 'جھوٹ' جو 'سنگھیوں' نے اپنے پروپگنڈہ میں شامل کررکھے تھے اور جن کی بنیاد پر عام ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے تھے ، چیف جسٹس نے گمراہ کن مان لیا تھا۔ اس ' فیصلہ ' کا مطلب یہ تھا کہ رام للّا 1949ء میں ' پرکٹ ' نہیں ہوئے تھے بلکہ بابری مسجد میں ، جہاں اس روز بھی عشاء کی نماز ہوئی تھی ، جبراً رکھ دیئے گئے تھے ، اور یہ کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کے ڈھانچے پر بنوائی گئی تھی ، بلکہ اس وقت کے مغل فرمانروا بابر کے سپہ سالار میر باقی نے اسے 1528ء میں کسی مندر کو منہدم کیے بغیر تعمیر کروایا تھا۔
یہ سب ماننے کے باوجود انہوں نے بابری مسجد کی جگہ مسلمان فریق کو نہیں سونپی تھی بلکہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندو فریق کے حوالے کر دی تھی۔ اس وقت یہ سوال اٹھا تھا ، اور اب عبدالنذیر کو گورنری ملنےکے بعد ، یہ سوال پھر اٹھ رہا ہے کہ ، کیوں گگوئی اور ان کے ساتھی جج صاحبان نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے مسلم فریق کو نہیں سونپی تھی ؟


اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا ، اور اس مقدمہ کے مدعی ، ایودھیا کے مرحوم ہاشم انصاری کے صاحبزادے اقبال انصاری نے کہا تھا کہ:
"یہ مسئلہ سلجھ گیا یہ سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے اور اب عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ "
یقیناً یہ ' فیصلہ ' کل بھی افسوسناک تھا اور آج بھی افسوسناک ہے ، بے چین اور مضطرب کرنے والا ہے۔ اُس وقت ملک بھر کے مسلمان شدید کرب والم سے گذر رہے تھے اور آج بھی کرب سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ' فیصلہ ' کے لیے مسلم قیادت کو نہ اس وقت قصوروار قرار دیا جا سکتا تھا اور نہ ہی آج وہ قصوروار ہے۔ اگر عدالت میں پیش کیے گیے شواہد اور ثبوتوں کی بات کی جائے تو ، بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والوں پر ، یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ ، انہوں نے کسی طرح کی کوئی کسر چھوڑی تھی۔ بڑے بڑے وکلاء کی خدمات حاصل کیں۔ شواہد اور ثبوت جمع کیے۔ مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ سپریم کورٹ ان ثبوتوں کو رد نہیں کرسکے گا جو 70سال پرانے نہیں چار سوسال پرانے ہیں۔
زمین کی ملکیت ہی کا ثبوت چاہیئے تھا تو ثبوت آج کا نہیں بابر کے دور کا تھا۔ انگریزوں کے دور میں بھی بابری مسجدکی جگہ ، کبھی مندر نہیں تھا ، اور یہ حقیقت تو ابھی 70سال پہلے کی ہے 22-23 دسمبر 1949 ء کی درمیانی شب بابری مسجد کے اندر جبراً مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ ایودھیا کے مسلمان اس شب عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے تب رات کے اندھیرے میں ' سازشیوں ' نےاپنی چال چلی تھی۔ پولس تھانے میں اس قابلِ مذمت فعل کی ایف آئی آر بھی درج ہے اور ان افراد کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہیں جو اس قابلِ مذمت حرکت کے ذمے دار تھے۔ قدیم تاریخی ماخذ ، ہندوؤں کے گرنتھ تک ، رام مندر کے ذکر سے خالی ہیں۔ یہ سب 'حقائق' نظر انداز کردیئے گئے ،حالانکہ ان ' حقائق' کی بنیاد پر ( ان کی دستاویزات بھی موجود ہیں ) بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو ہی ملنی چاہئے تھی ، لیکن فیصلے کی بنیاد محکمہ آثار قدیمہ کی اس رپورٹ کو بنایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ مسجد کے نیچے ایک مندر تھا ، حالانکہ خود محکمہ ٔ آثار قدیمہ اپنی رپورٹ کو حتمی نہیں مانتا۔ مسجد کے باہری احاطے میں رام چبوترے پر اور 1949ء میں مسجد کے اندرجبراً رکھی گئی مورتیوں کی پوجا ارچنا کو فیصلے کی بنیاد بنایا گیا ، حالانکہ رام چبوترہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی درخواست بھی بہت پہلے ہی عدالت سے خارج ہوگئی تھی اور 1949ء میں مسجد میں مورتیوں کا جبراً رکھنا بھی ایک ثابت شدہ بات تھی !
مسلم فریقین کو سپریم کورٹ سے اپنے 'حق' میں نہ سہی ، پر ایک ایسے فیصلے کی امید تھی جو' متوازن' ہو ، کیونکہ چیف جسٹس نے ایودھیا معاملے کا فیصلہ سناتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ:
" فیصلہ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر ہوگا آستھا یاعقیدت کی بنیاد پر نہیں۔"


لیکن چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے 'رام' اور ہندؤں کی آستھا کی بات کی تھی۔ اس وقت یہ ' فیصلہ ' تنقید کی زد میں آیا تھا۔ مادھو گوڈبولے ، نرسمہاراؤ کی حکومت میں داخلہ سکریٹری تھے، ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے روز ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہ اسقدر دلبرداشتہ ہوئے تھے کہ انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ : "عدالت نے یہ مانا ہے کہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۴ء کی شب بابری مسجد کے اندر چوری چھپے رام للّا کی مورتی رکھنا غلط فعل تھا۔ اس نے یہ بھی مانا ہے کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بے حیائی سے بابری مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی تھا۔ یہ دونوں ہی کام صریح طو رپر سیکولرزم کو اندیکھا کرنے کے تھے بلکہ یہ مکمل طور پر سیکولرزم کی نفی تھے۔ لہٰذا کیا مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے ۵؍ ایکڑ زمین دینا ، جیسا کہ عدالت نے دیا ہے ، قطعی مناسب یا معقول ہرجانہ ہے ؟ مسلمانوں کو ، ان کی عبادت گاہ کی تباہی سے جو نفسیاتی چوٹ لگی ہے اس کا کیا ؟ عدالت کو ریاستی اور مرکزی سرکار سے اتنا تو کہنا ہی تھا کہ دوبارہ مسجد تعمیرکریں۔"


یہی نہیں انہوں نے ایودھیا قضیہ کے فیصلے پر پانچ ججوں کے اتفاقِ رائے پر بھی سوال اٹھائے تھے کہ یہ ' اتفاقِ رائے تشویش ناک ہے۔' اور کہا تھا ' کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے نے جو حد بندی کردی ہے وہی ہندوستان میں سیکولرزم کی آخری حد ہے ؟ ' سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ' فیصلہ ' کے تضادات کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں اجاگر کیا تھا ، انہوں نے لکھا تھا :
" ایودھیا کا فیصلہ کہتا ہے کہ یہ انہدام غیر قانونی تھا ، لیکن ساتھ ہی وہ اس کو پاک صاف بھی قرار دیتا ہے ، بہت خوب مائی لارڈس !"
سابق جج جسٹس گانگولی ، سوامی اگنی ویش اور کانگریس کے دگ وجئے سنگھ نیز بہت سے دانشوروں او ر صحافیوں کی بڑی تعداد نے ریٹائرڈ چیف جسٹس گگوئی کی قیادت والی پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو ' فیصلہ' تو مانا تھا پر ' انصاف' نہیں مانا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ' فیصلے ' کو کیوں ' انصاف ' میں تبدیل نہیں کیا گیا تھا ؟ اس سوال کا ایک جواب تو وہی ہے جو جیٹلی کی زبان سے نکلا تھا کہ " یہ خواہش کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ ملے ریٹائرمینٹ سے قبل کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔" اب عبدالنذیر کو آندھرا پردیش کی گورنری ملنے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا جیٹلی نے کوئی غلط بات کہی تھی ؟ حیققت تو یہ ہے کہ تینوں جج صاحبان کی اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں نے بابری مسجد کے ' فیصلہ ' کو پھر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے بلکہ اس پر سوالیہ نشان جو پہلے ہی سے لگا ہے ، اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔


Justice Abdul Nazeer, part of Ayodhya and demonitsation verdicts, appointed as Andhra Governor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں