سلمیٰ صنم کے افسانے - تبصرۂ کتاب از شاہ عمران حسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-17

سلمیٰ صنم کے افسانے - تبصرۂ کتاب از شاہ عمران حسن

qataar-mein-khade-chahre-short-stories-salma-sanam

سلمیٰ صنم کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ وہ کہانی کہنے کے ہنر سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ وہ زبان و بیان کے اُتار چڑھاؤ اس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتی ہیں کہ قاری ان کی تحریروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سلمیٰ صنم کے افسانوں میں علامت بھی ہے اور استعارہ بھی، ان میں اصلاح کا پہلو بھی نظر آتا ہے تو سماجی مسائل کی المناکی کا بیان اور درد بھی دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ برس کے نصف آخر(ستمبر2022) میں سلمیٰ صنم نے اپنا افسانوی مجموعہ'قطار میں کھڑے چہرے'ارسال کیا تھا۔عدیم الفرصتی کے سبب پڑھنے میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور جب پڑھا توحیرت و خوشی کی انتہا نہ رہی ہے کہ کیوں کہ ان کی تحریروں نے میرا وقت برباد نہیں کیا۔
ان کے چند افسانوں پر گفتگو کرنے سے قبل میں یہ عرض کرتا چلوں کہ سلمیٰ صنم گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل اردو ادب کی نثری میدان میں خدمت کر رہی ہیں، اگرچہ وہ سائنس کی معلمہ ہیں مگر انھیں اردو ادب سے دل و جان سے زیادہ لگاؤ ہے، اگر لگاؤ نہ ہوتاتو شاید وہ پڑھنے لائق تحریر قارئین کو نہ دے پاتیں۔


سلمیٰ صنم کا تعلق ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے ہے۔ ان کااصل نام 'سیدہ سلمی بانو' ہے تاہم ان کا قلمی نام سلمی صنم ہے۔ان کی پیدائش ضلع منگلور کے ساحلی علاقے پنمبور میں ہوئی۔
سلمیٰ صنم کے والد کا نام سید اکبر اور والدہ کا نام حلیمہ بی ہے۔ان کے آباو اجداد کا تعلق بغداد سے ہے۔ ان کے آباو اجداد 'سادات نسل' سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شمار علما میں ہوتا تھا۔ایسا کہا جاتا ہے کہ پندرھویں صدی عیسوی میں وہ ریاست کرناٹک کے عادل شاہی دور حکومت میں بغداد سے ہجرت کرکے بیجاپور میں آباد ہوئے اور شاہی دربار سے وابستہ ہوگئے۔ سلطنت خداداد کا جب قیام عمل میں آیا تو وہ ٹیپو سلطان کی دعوت پر گنج عام ( سری رنگا پٹن،منڈیا) چلے گئے اور ٹیپو سلطان کے دربار سے منسلک ہو کر کام کرنے لگے۔ علم کے شیدائی ہونے کے سبب ان کی ٹیپو سلطان کے دربار میں بڑی قدر منزلت تھی۔


سلمیٰ صنم کی پرورش و پرداخت ان کے ننھیال ( بنگلورو ) میں ہوئی؛ جہاں انھوں نے اسلامیہ مدرسہ نسواں گرلز ہائی اسکول سے دسویں جماعت پاس کیا۔ اس کے بعد مہارانی سائنس کالج (Maharani's Science College for Women,Bangalore) سے بی ایس سی اور بنگلور یونیورسٹی گیان بھارتی کیمپس سے علم حیوانیات (Zoology) ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
سلمیٰ صنم کی ادب سے دلچسپی کالج کے دنوں سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ انھوں نے باضابطہ لکھنا سنہ 1990 کے پہلے ماہ سے ہی شروع کیا۔ان کا پہلا افسانہ بعنوان 'روشنی' 5فروری1990ء کو مشہور زمانہ اخبارروزنامہ' سالار' میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کا قلم مسلسل رواں دواں ہے !۔
اگرچہ اپنی دیگر مصروفیات کے سبب وہ بہت زیادہ نہیں لکھ سکیں ، تاہم اپنے پہلے افسانے کی اشاعت کے تقریباً 14سالوں کے بعد سنہ 2004 سے وہ باضابطہ لکھنے لگیں اور بہت کم وقتوں اپنی منفردادبی کاوشوں سے قارئین کی سماعتوں پر چھا گئیں۔
ان کے افسانے برصغیرہند کے مقتدر رسائل و اخبارات میں مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ لندن، نیویارک، اسپین، اور نیپال سے نکلنے والے اردو رسائل میں بھی ان کی تخلیقات گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی ہیں۔


سلمیٰ صنم کودیگر افسانہ نگاروں کے مقابلے میں ایک مزید یہ اعزازیہ ملا کہ ان کے افسانوں کے انگریزی سمیت پنجابی اور ہندی میں تراجم شائع ہوئے۔
سلمیٰ صنم کی درج ذیل کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں:
طور پر گیا ہواشخص (افسانوی مجموعہ)ناشر:کرناٹک اردو اکادمی،سال اشاعت:2007ء
پت جھڑ کے لوگ(افسانوی مجموعہ)ناشر:کرناٹک اردو اکادمی،سال اشاعت:2012ء
پانچویں سمت (افسانوی مجموعہ)،ناشر:عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،سال اشاعت:2016
قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں (افسانوی مجموعہ)،ناشر:عرشیہ پبلی کیشنز دہلی،سال اشاعت:2018
قطار میں کھڑے چہرے (پاکستانی ایڈیشن) ، ناشر: دستاویز مطبوعات لاہور(پاکستان)،سال اشاعت:2019


مذکورہ شائع شدہ کتب کے علاوہ سلمیٰ صنم کی جو کتب زیر طبع ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں:
تڑپتا پتھر ( افسانچوں کا مجموعہ )،سخن ساز ( جدید شعراء اور ادباء کا تعارف) اور ہے یہ کیسا سفر؟ ( سفرنامہ حج) وغیرہ۔


ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کی کتابوں اور افسانوں پر کرناٹک اردو اکادمی،اتر پردیش اردو اکادمی ،بہار اردو اکادمی وغیرہ کی جانب سے رقم انعامات میں دی گئیں۔ وہیں ان کی خدمت میں خادم ریختہ ایوارڈبرائے ادبی خدمات منجاب عالمی ایوان ادب( یو اے ای)، الصدا بنگلور ایوارڈ، ضیاء جعفر ایوارڈ، بشیر شاہ میموریل ایوارڈ(اردو اکادمی کشمیر) وغیرہ ایوارڈ پیش کئے گئے۔
سلمی صنم کے افسانہ ' آرگن بازار' کا انگریزی ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر انگریزی میں مریم وقار احمد مقالہ لکھا ہے۔ اس کی نگراں ڈاکٹر اینی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

Dr Annie Kuriachan,HOD,Department Of English ,Women's Christian College(Chennai ,Tamil Nadu)


سلمی صنم کے افسانوی مجموعے 'پت جھڑ کے لوگ ' پر لاہور یونیورسٹی کی طالبہ حرا عثمان نے ایک تجزیاتی مقالہ ڈاکٹر نورین رزاق،لاہور کالج برائے خواتین لاہور یونیورسٹی کی نگرانی میں لکھا ہے۔اس کے علاوہ سلمیٰ صنم پر ایم فل کے لیے تحقیقی مقالہ بعنوان' شخصیت اور فن: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ'لکھا جا رہا ہے۔یہ کام بھی پاکستان میں ہو رہا ہے۔اس کی مقالہ نگار صبا مشتاق ہیں اورنگراں ڈاکٹر سید بابرعلی زیدی ہیں۔ یونیورسٹی آف نارووال(پاکستان )۔


ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں اہلِ قلم و اہلِ علم نے گراں قدر آرا کا اظہار کیا ہے، مثلاًپروفیسر قمر رئیس (نئی دہلی)نے کہا تھا کہ سلمیٰ صنم کہانی کے آرٹ پر قدرت رکھتی ہیں۔ مجھے لگا کہ آپ نہ صرف تخلیقی جوہر رکھتی ہیں بلکہ انسانی رشتوں اور گردو پیش کے مسائل پر بھی تھیکی نظر رکھتی ہیں۔
جب کہ مشہور قلم کاررشید امجد ( پاکستان) نے اپنی ایک تحریر میں ان کی قلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ سلمیٰ صنم کی کہانیوں میں جو دلچسپی اور تاثر ہے وہ ان کے موضوعات کے تنوع سے ہم آہنگ ہو کر بطور کہانی نویس ان کی پہچان کراتا ہے۔ان کا بے باکانہ لہجہ اس میں انفرادیت کا رنگ بھرتا تجزیہ اور اشیاء کی تہ تک پہنچنے کا رویہ ان کی کہانیوں میں معنوی دبازت پیدا کرتا ہے۔ فنی طور پر انہوں نے جدید افسانے کی معنوی اظہار اور اسلوب کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نسبتاً سادہ لہجہ اختیار کیا ہے۔اس حوالے سے وہ جدید اردو افسانے کو اکیسویں صدی میں آگیلے جانے کے سفر کی ایک اہم راہ رو ہیں۔


سلمیٰ صنم بیک وقت معلمہ بھی ہیں اور مصنفہ بھی ہیں، وہ ماں بھی ہیں اور بیوی بھی ہیں،جہاں وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہی ہیں وہیں وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی پیش پیش ہیں۔ان سب کے باوجود وہ اردو ادب کی بھی خدمت کر رہیں۔ ان کی زندگی اور شخصیت کو دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ایک خاتون ہی ایک ساتھ اتنی ساری ذمہ داریاں اد ا کرسکتی ہے،حالاں کہ یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے تاہم ان کی زندگی دیگرخواتین کی مثالی حیثیت رکھتی ہے کہ چاہت اور ہمت کے بعد ایک خاتون بہت کچھ کر سکتی ہے۔


میرے پاس ان کا افسانوی مجموعہ ' قطار میں کھڑے چہرے' ہے۔اس میں 20 افسانے ہیں۔ اس کی اشاعت سنہ 2018ء میں عمل میں آئی جو کہ 146 صفحات مشتمل ہے۔ اس کے چند افسانوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ کتاب میں موجود افسانہ 'آرگن بازار' دل دہلادینے والا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ انسانیت اس حدتک بھی گرسکتی ہے،اسی درد و کرب کو وہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک دور وہ ہوگا جب آرگن بازار قائم ہوں گے ، جہاں انسانی اعضاکی خرید و فروخت ہوگی۔(صفحہ :19)


تھکی ہوئی ناری ایک ورکنگ وومن کی کہانی ہے، معاشرے نے ورکنگ وومن کی ذمہ داری دوہری کر رکھی ہے، اسے باہر کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوتی ہے اوروہ گھر کے اندربھی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتی۔اس کا برا اثر اس کی اپنی ذات پر بھی پڑتا ہے تاہم اس کہانی کے ذریعہ افسانہ نگار نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ ورکنگ وومن کی اہمیت و افادیت بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ معاشرے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔


یوں تو فسادات پر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے تاہم سلمیٰ صنم کاافسانہ 'دوسرے مذہب کا آدمی' ایک نئے پیرائے میں لکھا گیا افسانہ ہے، جہاں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انانیت اور اجنبیت کے اس ماحول میں انسانیت زندہ ہے۔


ان کا ایک افسانہ 'تتلی' ہے ، یہ اگرچہ مختصر افسانہ ہے، جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موبائل اورٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم ایک ایسی مصنوعی دنیا میں پہنچ گئے ہیں جہاں حقیقی زندگی سے ہمارا رابطہ منقطع ہوگیا اور ہم قدرت کے نظاروں سے سرور لینے کے بجائے اپنے خول میں بند ہوتے جا رہے ہیں کہ حتیٰ کہ ہمارے بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا ہے ہم چیزوں کو بھولنے لگے ہیں، مثلاً اس کہانی کی کردارایک بچی ہے، جس نے اپنی زندگی میں کبھی تتلی نہیں دیکھی تھی۔جب تتلی دیکھتی ہے تو اپنی ماں سے پوچھ بیٹھی ہے کہ ممی یہ کیا ہے؟
مٹھی میں بند چڑیا عورت کے جنسی استحصال کا درد بیان کرتی ہوئی ایک دردناک کہانی ہے،جس کو پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے کہ سماج میں ایسے بھی درندہ صفت لوگ ہیں، جو عورت کو محض جنس کا ذریعہ مانتے اور سمجھتے ہیں۔جب کہ عورت اس جہاں کی ایک خوبصورت اور محبوب ترین شے ہے، جس کے بغیر یہ کائنات رنگ ہوجائے گی۔ اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں


اس کتاب کی ایک عمدہ کہانی سورج کی موت ہے جس میں 'پدرم سلطان بود' کی نفسیات کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے دادا بادشاہ تھے کی نفسیات سے اُوپر اُٹھ کر سماج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں کہ اب لوگ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ خود کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟
بہرکیف افسانوی مجموعے کے تمام افسانے قابل مطالعہ ہیں، اس کے لیے سلمیٰ صنم یقینی طور پر مبارک باد کی مستحق ہیں، ہمیں امید کرنی چاہئے کہ وہ اردو ادب کو اور بھی اچھوتے افسانے مستقبل میں دیں گی۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!

***
شاہ عمران حسن، پلاٹ نمبر 22، اے بلاک، خسرہ نمبر 824، مکی مسجد کالونی، نالہ روڈ، سریتا وِہار، نئی دہلی - 110076

E-mail: sihasan83[@]gmail.com
Mobile: +91-9810862382

شاہ عمران حسن

Qataar mein khade chahre, short stories by Salma Sanam. Reviewer: Shah Imran Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں