مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ "راستے خاموش ہیں" کا ایک معروضی جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-02

مکرم نیاز کا افسانوی مجموعہ "راستے خاموش ہیں" کا ایک معروضی جائزہ

raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz

اردو ادب کی تاریخ کی سبزہ زاری صدیوں پہ محیط ہے۔ اس عرصے کے دوران بیشمار ہی نابغۂ روزگار ہستیوں نے اردو ادب کے اثاثے میں گراں قدر اضافہ کیا ہے جو کہ ہمارے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس زبان میں ہر صنف پر لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد رہی ہے جنھوں نے ادب کی بے پایاں خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا۔ فی الوقت بھی اردو ادب ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے جنھوں نے اپنی علمی و فکری صلاحیتوں سے لوگوں کے فکر و ذہن کو بدلنے و متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ صرف علمی میدان میں برسر پیکار ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ تکنیکی صلاحیتوں کے سہارے بھی اردو کو اوج کمال تک پہنچانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ کیوں کہ زمانے کی تبدیلی نے اس پہلو کو لازمی کر دیا ہے کہ اسے بدلتے زمانے کے ذرائع اور وسائل سے آراستہ کیا جائے۔ ایسے دور میں جب کہ لفظ صفحات سے ہوتے ہوئے اسکرین کی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں، اردو ادب نے بھی اس تبدیلی کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا ہے۔
اور آج کے اردو قلمکاروں میں بہترے ایسے ہیں جو دونوں ہی سطح پہ اردو ادب کی بلندی کو مستحکم بنانے میں کوشاں ہیں۔ انھیں میں سے ایک شخصیت سید مکرم نیاز صاحب کی بھی ہے جن کے قلم کی روانی اور خیالات کا تسلسل اور جدت پسند زاویوں کی فکر انگیزی کی اپنی ایک پہچان ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعے افسانوں کی صنف میں تمثیلی کردار کی تشکیل کر کے معاشرتی اقدار اور شکستہ حال روایات اور اپنے نظریات و خیالات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اندر ایک کسک ہے جو ان کے افکار اور لفظوں کو مہمیز دیتی ہے شاید وہ کرشن چندر کے اس قول کے تحت ہے کہ "کرب چاہے کسی قسم کا ہو ، زندگی سے نکل جائے تو فن مر جاتا ہے"۔ اسی لیے وہ اپنے کرب و کسک کو ہمیشہ ڑندہ رکھتے ہیں۔ مکرم نیاز صاحب نے کبھی بھی خود کو کسی مخصوص خیال کا پابند بنانے سے گریز کیا۔ انھوں نے وسعت خیالی اور تجدیدی ذہنیت کو ہمیشہ اپنائے رکھا۔ اور صحت مند اسلوب پر اپنی افسانہ نگاری کے ہنر کو آزمایا اور بوجھل حقیقتوں کو سادگی سے پیش کرنے کے فن کو لمحہ بہ لمحہ نکھارا ہے۔


مکرم نیاز کی تکنیکی دلچسپی اور صلاحیت نے بیشمار نوجوان قلمکاروں کو ابھرنے کا موقع دیا ہے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے وہ تعمیر نیوز ویب سائٹ کے تحت اردو ادب کی نشو و نما میں قابل ذکر کردار ادا کر رہے ہیں۔ پروفیشن کے اعتبار سے اگرچہ وہ ایک انجینئر ہیں۔ لیکن ان کا ادبی ذوق ایسا ہے جس پر سوال اٹھانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کو یہ ادبی ذوق اور اعلی اسلوب ان کے والد کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے۔ انھوں نے اس وراثت کی آبرو کو کبھی بھی ضرب نہیں پہنچنے دی۔ قلم کے ذریعے اردو ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف جہات میں انھوں نے اپنے آپ کو سدا مصروف عمل رکھا ہے۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ لکھا ابھی حال ہی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ "راستے خاموش ہیں" اشاعت کے مرحلے سے گزر کر منظر عام پر آیا ہے جس کو ادبی پلیٹ فارم پر تسلی بخش پزیرائی ملی ہے۔
یہ کتاب اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے اس کتاب کا سرورق اس کے عنوان کی طرح کافی متجسس کن اور دیدہ زیب ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی خاموش راستے مجھ سے مخاطب ہیں اور کچھ کہنے کی لَے میں ہیں اور میں لب گویا لئے محویت کے عالم میں خاموشی سے بس انھیں تکے جا رہی ہوں اور اسے سننے کی تگ و دو کر رہی ہوں۔ پھر اگلا صفحہ کھولا تو مکرم نیاز صاحب کا مختصر تعارف سامنے تھا انھوں نے جس طرح اپنے والدین کے تئیں عقیدت کا اظہار کیا اسے پڑھ کر اچھا لگا۔ اس کتاب کو انھوں نے اپنی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی تین خواتین کے نام منسوب کیا ہے، جس سے خواتین کے تئیں ان کے جذبات و احساسات کا پتہ چلتا ہے یوں جیسے ایک کامیاب مرد کے پیچھے عورت کے ہونے کی انھوں نے تصدیق کی ہے۔ ان کے خیالات دقیانوسی اور اوہام پرستی سے پرے ہیں اور ان کی یہ سوچ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔
خیر یہ تو ہے ابتدائی صفحوں کی سرگزشت اب ذکر آتا ہے نفس کتاب کا۔ سب سے پہلے مکرم صاحب نے پیش لفظ کے تحت "جو کہا نہیں وہ سنا کرو" کے ذیل میں مونولاگ کی طرح اپنے تاثرات و جذبات کو لکھنیکی ایک کامیاب کوشش کی ہے جو کہ میری دانست کے مطابق ایک اچھا پیش لفظ ہے۔ انھوں نے اس میں اپنے آپ کو مخاطب کر کے اس طرح لکھا ہے کہ جیسے وہ اپنے اندر کے ساز کے تاروں کو خود ہی چھیڑ کر خود ہی سن رہے ہوں۔ ایک وجد کی کیفیت ہے جس میں شعور کی پرتیں کھل رہی ہیں۔ نادیدہ احساس اپنے ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہوں گذرے ہوئے لمحات کی نمایاں یادیں حافظے کے در پہ دستک دے رہی ہوں۔ اور حال و مستقبل کے زائچے پہ لکیریں کھنچ رہی ہوں۔ ایک جگہ ان کا اپنا آپ ان سے مخاطب ہو کر ان سے کہہ رہا ہے وہ جب اس کو حسیات کی نظر سے دیکھ کر کمال حیرت سے کہتے ہیں کہ:
تم؟
تو وہ کہتا ہے ہاں، میں یہ بتانے آیا ہوں کہ وہ وقت آ چکا ہے کہ دنیا کے سامنے اپنا فن یا اپنے باطن کو ظاہر کر دیا جائے۔۔۔ کیا پتہ کل ہو نہ ہو۔۔۔؟
بیشک غار دل میں رہتے ہوئے جب فن اپنی نشوونما کی مدت پوری کرلے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اسے دنیا کے سامنے لایا جائے تاکہ وہ فن اپنے ہونے کا حق ادا کر سکے اور اپنے آپ کو ایک پہچان دے سکے۔


انھوں نے جس طرح سے اسے خود کلامی کے طور پر لکھا ہے کہیں نہ کہیں یہ قاری کے دروں احساسات کو بھی مہمیز دینے کی کوشش کرتا ہے اور اسی طرح سے اس کے بعد کے لفظوں میں سوالات اور تشریح و توضیح کا ایک تسلسل تھا اس کو پڑھتے پڑھتے جب نظر سے یہ سطر گذری جہاں انھوں نے یہ لکھا تھا:
" کسی افسانے کو جانچنے کے لئے ہمیں تین چیزوں پر نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔ پہلی چیز یہ کہ ہم افسانے میں قلمکار کے واردات اور افکار کو تلاش کرنے کی کوشش کریں اور افسانے کو اسی زاوی? نظر پر پرکھیں۔ دوسرے عام قاری کے ذہن، فہم و ادراک کو سامنے رکھ کر افسانہ کو جانچیں۔ تیسرے یہ کہ خود اپنے استعداد کو روبکار لا کر اپنے ڈھنگ سے افسانہ کو سمجھنے کی کوشش کریں اس طرح بہت ساری چیزوں میں جو چیز کھل کر سامنے آتی ہے وہ ہے مقصدیت افسانہ نام ہی بامقصد تخلیق کا ہے۔"
بیشک اس خیال سے میں بھی صد فیصد متفق ہوں کہ کسی افسانے کا اصل کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مقصدیت کی بنیاد پر لکھا گیا ہو دوسرے اس کا اسلوب ایسا ہو جو ہر طرح کے قاری کے لئے قابل فہم اور اس کے لئے زود اثر ہو تیسرے اس میں افسانہ نگار کے تجربات و نظریات کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہو اس کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گی اس میں صحتمند روایات کے ساتھ بدلتے وقت کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہو کیوں کہ ہر قاری کی ذہنی ساخت ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ایک افسانہ نگار کی حساسیت جتنی حقیقت پسندانہ ہوگی اتنی اس کی تحریریں متاثر کن ہوں گی۔ غیر حقیقی تحاریر میں خواہ کتنا ہی لفظوں کو آراستہ و پیراستہ کر کے پیش کیا جائے قاری کے دل و دماغ پر ایسی تحریریں کبھی زیادہ دیر تک اپنا اثر باقی نہیں رکھتیں۔ دیومالائی اساطیر سے فینٹسی create کر کے آج کے قارئین کو تھوڑی دیر کے لئے بہلایا تو جا سکتا ہے لیکن ان کی سوچوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔


جب انسان کی اندرونی نفسیات، جذبات اور کشمکش کی کیفیت اور داخلی محرکات کی ہیئت کو کسی افسانے میں بیان کیا جاتا ہے تو قاری غیر شعوری طور پر ہی اس سے انسیت محسوس کرنے لگتا ہے اور ہر افسانہ نگار کو ایسا فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پیمانے پر اگر مکرم نیاز صاحب کو پرکھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صفت ان کے اندر بھی پائی جاتی ہے انھوں نے حقیقت کی بساط پہ ہی اپنے کرداروں کی تخلیق کی ہے۔
اس خود کلامی میں انھوں نے وقار عظیم کا یہ قول بھی نقل کیا ہے جو کہ میرے لئے بھی کافی متاثر کن ہے:
"ہم فطرت انسانی کی بلند حقیقتوں ، جذبات اور احساسات کی نازک کشمکشوں خیالات اور تحریکات کے مختلف اضطراب اثر اور ہیجان پرور صداقتوں کو اپنے افسانہ کا بہترین موضوع بنا سکتے ہیں جب ہم نفسیات اور سائنٹیفک حقیقتوں کے پابند رہنے کے بعد بھی اخلاق کی حدود میں رہ سکتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان حدوں کو چھوڑ کر پستی کی طرف مائل یوں؟بیشک افسانہ میں حقیقت اور صداقت کا ہونا لازمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال رکھنا بھی بے ضروری ہے کہ حقیقت ، فن کی پابند رہے"
یہ اقتباس اتنا واضح اور سادہ اسلوب میں لکھا گیا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے کسی طرح کا کوئی تبصرہ کرنا چاہئے وقار عظیم صاحب نے بہت ہی مختصر لفظ میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو کہ عمدہ افسانوں کی تشریح کر سکتے ہیں۔


مکرم نیاز صاحب کے افسانوں میں اخلاقی روایات کی پاسداری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ کیوں کہ جب اخلاقیات کو پامال کرنے والے مناظر کو لفظوں کی صورت کشید کیا جانے لگے تو معاشرتی تہذیب کو زوال پزیر ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ ایک قلمکار کی یہ ذمیداری ہے کہ وہ معاشرتی اصلاح میں اپنا حق ادا کرے اور روبہ زوال ثقافتوں کو مزید پستی کی طرف مائل نہ ہونے دے۔
میں یہ بات بنا کسی مبالغہ آرائی کے کہہ سکتی ہوں کہ مکرم نیاز صاحب نے جس طرح مونولاگ کی صورت اس پیش لفظ کو لکھا ہے میرے خیال میں اس کو اگر کسی اور طرح لکھتے تو شاید یہ اتنا زود اثر نہیں ہوتا اسی گفت و شنید میں کہا جانے والا یہ جملہ:
"فقرہ شناس نہیں نکتہ شناس بنو فقرہ شناسی تو تمھارے ذخیرۂ الفاظ میں اضافے کا موجب بنے گی۔ نکتہ شناسی تمھیں حیات انسانی کے ان رموز سے بہرہ ور کرے گی جو زندگی کو آسان ، خوشگوار اور کامیاب بنائیں گے"
بیشک یہ بات، یہ نظریہ قابل غور ہے۔ زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے لفظوں کی الجھنوں سے آزاد رہنا ضروری ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات لفظوں کی شائستگی کا بھرم تو رہا جاتا ہے لیکن زندگی کے صحتمند اقدار بھول بھلیوں میں کہیں گم سے ہو کے رہ جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے ہدف کا علم ہو۔ اور اسے اپنے اندر سے آنے والی آوازوں کو سننا آتا ہو۔ حقیقت شناسی ہی دراصل نکتہ شناسی ہے۔ مکرم صاحب نے اپنی اس خودکلامی کو بہت اچھی طرح سے نبھایا ہے۔


اس کے ساتھ اور کئی معاصرین ادب کی آراء اور تبصروں کو انھوں نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے انھوں نے اس کتاب کے آخر میں اپنے قارئین اور ہمعصر افسانہ نگاروں کے تبصروں کو جو گاہے بگاہے ان کے افسانوں پر اسکرین پر کئے گئے تھے ان کو بھی شامل کیا ہے۔ ان میں ان لوگوں نے تنقیدی اور توصیفی دونوں طرح کے تبصرے کئے ہیں میری دانست کے مطابق یہ ایک اچھی پیش بندی ہے کہ انھوں نے اس میں ان کی ہر جرح و تنقید کو بنا کسی تقطیع کے شامل کیا ہے۔ ہمارے یہاں جب کہ لوگوں کے اندر تنقید سننے کا حوصلہ باقی نہیں رہا ایسے میں ان کی یہ کوشش واقعی قابل التفات ہے مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے پروین شاکر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو کچھ اس طرح ہے:
ستائشیں میرے احباب کی نوازش ہیں
مگر صلے تو مجھے اپنے نکتہ چیں سے ملے
مکرم نیاز صاحب نے بھی ادبی معاصرین اور قارئین کی تنقیدی آراء کو ایک صلے کی طرح قبول کیا ہے جو ان کے لئے غور و فکر کے راستے ہموار کرتی ہے اور معاشرتی تبدیلیوں اور مضبوط کلاسیکی رویوں کو اپنائے رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔


انہیں تبصروں میں سے ایک تبصرہ علامہ اعجاز فرخ صاحب کا ہے۔ انھوں نے مکرم نیاز صاحب کو خاموش راستوں کا مسافر کہہ کر مخاطب کیا ہے یہ انداز تخاطب کہیں نہ کہیں مکرم صاحب کی شخصیت کی عمدہ تصویر کشی کر رہا ہے انھوں نے بالکل سچ ہی کہا ہے "ادب دراصل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسان اپنا ہی عکس دیکھ رہا ہوتا ہے جس میں بڑی حد تک ہمہ گری ہے" بیشک اپنے بچپن سے لے کر تاحد شعور ایک قلمکار نے جس جس طرح کے مناظر کا مشاہدہ کیا ہوا ہوتا ہے وہ سب کچھ پس منظر کی صورت اس کی تحریروں میں چھپا ہوتا ہے، وہ ہر طرح کے احساسات کو اپنے قلم کی دسترس میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح کے کرداروں کو اس نے سب سے زیادہ قریب سے دیکھا ہوتا ہے اکثر وہ کردار اس کے لئے مرکزی خیال بن جاتے ہیں علامہ صاحب نے یونانی فلسفی ارسطو کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
" تصور و تخیل کے مقیاس سے تراشیدہ فن کا شاہکار اپنے جلو میں ایک صداقت رکھتا ہے، اس پرکار کا دائرہ فطرت انسان کے اطراف محیط ہوتا ہے۔ اس لئے یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر بھی ہوتا ہے۔ یہی اس کی آفاقیت کی وجہ ہے جو ہر دور میں قبولیت رکھتی ہے۔"


علامہ اعجاز صاحب کے علاوہ اور کئی ادیب ہیں جنہوں نے اپنے زریں خیالات میں مکرم صاحب کی افسانہ نگاری کے ہر زاویے پر روشنی ڈالی ہے۔ یوں تو وہ سب ہی اپنی جگہ بہترین ہیں لیکن میں صرف محمد حمید شاہد کی خیال ارائی پر کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے مکرم نیاز صاحب کی اس سوچ کو منکشف کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے افسانہ نگاری کو مہمیز دینے میں کارفرما رہی ہے۔ انھوں نے ان کے موضوعات کے انتخاب کو بھی سراہا ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: "مکرم نیاز کو فطرت سے گریز کرنا پسند ہے نہ ہی فطرت کا قیدی ہو کر سماجی تخلیق میں ناروا رخنے ڈالنا۔ سو اپنی فکر کے اس چراغ کی روشنی کو اپنے قاری تک پہنچانے کے لئے وہ ایسی کہانی لکھتے ہیں جس میں فطری بہاؤ قائم رہتا ہے"۔


بیشک ایسا ہی ہے جب مکرم نیاز کے افسانوں پر نگاہ پڑتی ہے پھر سطر بعد سطر پڑھنے پر کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ مجھے اس افسانوی مجموعے میں جو چیز سب سے زیادہ پسند آئی وہ تھا ان کا معتدل مزاج اور انھوں نے جس طرح سے اپنے قارئین کی تنقید بھری رایوں کو نہ صرف پڑھا بلکہ اسے اپنے تمام قارئین کے لئے جس طرح کتاب میں جگہ دی ہے یہ انھیں کا ظرف ہے ورنہ غالباً لوگ تنقید کو حذف کرنے میں لمحہ نہیں لگاتے اور تعریفوں کے پل کو بڑی شائستگی اور فخر کے ساتھ کتابی اوراق پہ یوں سجاتے ہیں جیسے کہ بس یہی ایک رائے ہے جو وجود رکھتی ہے باقی اس کے سوا کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں۔ بیشک ہر ماہر شہسوار میدان میں گر گر کر ہی شہسواری کا ہنر سیکھتا ہے اور پھر ہر بار ایک نئی ہمت و حوصلے کے ساتھ کھڑے ہو جانے پر ہی اس کے فن کو شناخت ملتی ہے۔ مکرم نیاز صاحب نے بھی اسی عزم و حوصلے کو روا رکھا ہے انھوں نے کبھی گر کر اٹھنے میں عار محسوس نہیں کی انھوں نے مرتضی ساحل تسلیمی، سہام مرزا ، پروفیسر بیگ احساس کے سایۂ التفات میں رہ کر جو کچھ بھی سیکھا اس کا وقار برقرار رکھنے کی انھوں نے ہمیشہ بھرپور کوشش کی ہے ان کا فن ان کی زیر تربیت رہ کر جس طرح پروان چڑھا ہے اس کی مثال ان کی یہ کتاب ہے۔


مذکورہ کتاب میں ان کے کل تیرہ (13) افسانے شامل ہیں جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے موقر جرائد و رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ سارے افسانے انھوں نے پچھلے ڈھائی عشرے کے درمیان لکھے ہیں انھوں نے اس عرصے میں بہت کم افسانے لکھے۔ شاید ان کا نظریہ یہ رہا ہو کہ وہ عجلت میں افسانوں کے معیار سے سمجھوتا نہیں کرنا چاہتے ہوں اور شاید اس وجہ سے بھی کہ وہ اس کے علاوہ اور دوسری ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے والد صاحب کے ادبی ورثہ کو آگے منتقل کرنے کی جو جدوجہد کی ہے وہ تمام قارئین اور اہل اردو کے لئے خوشی کی بات ہے۔


اب ذکر آتا ہے ان کے افسانوں کا اگر میں تمام ہی افسانوں پر تبصرہ لکھنے کی سوچوں تو شاید میری یہ کوشش قارئین کے تجسس کو کم کردے اور شاید میرے نظریے ان کے اپنے ذاتی نظریے کی تشکیل میں رکاوٹ بنیں جو کہ میرا مقصودِ نظر نہیں۔ کسی کتاب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ قاری ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کا مطالعہ کرے اور متجسس ہو کر اس کے اوراق پلٹتا جائے۔ ایک تجزیہ کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی مفصل تحریر کی، چند نکات کی بساط پر اس طرح تلخیص کرے کہ قاری کے ذوق اور طبیعت کی پیاس کو سوا کر دے اور وہ ان نادیدہ حقیقت اور مناظر کو خود دیکھنے کی آرزو کرنے لگے۔ اس لئے میں ان کے چند ہی افسانوں پہ تبصرے کو کافی سمجھتی ہوں جو میرے خیال میں مکرم نیاز کی طرز نگارش کو متعارف کروانے کے لئے کافی ہوگا۔
زیر تبصرہ کتاب کو راستے خاموش ہیں کا عنوان دیا گیا ہے، جو کہیں نہ کہیں قاری کی سوچوں میں سوال پیدا کرتا ہے کہ اس راستے کا مسافر کون ہے اور یہ مسافر کس طرح اس کی مسافت کو طئے کرتا ہے؟ یہ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اس میں شامل کئے گئے ان کے ایک افسانے کا عنوان بھی ہے۔


ہمارے یہاں لفظوں کی بازگشت کا ذکر تو جابجا ہوتا ہے۔ لیکن خاموشی انھیں ایک ایسی زبان معلوم ہوتی ہے جسے وہ غیر ضروری سمجھ کر اس سے بے اعتنائی کرتے ہیں حالاں کہ دانشوروں کا قول ہے کہ خاموشی اسرار کائنات اور خودی ، معرفت اور راز ہستی سے پردے ہٹا دیتی ہے، انسان کو خود سے متعارف کروا دیتی ہے اور مقصد حیات کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خاموشی انسان کی ہو یا کسی اور شئے کی وہ پراسرار ہوتی ہے ہر سماعت پر اس کا انکشاف نہیں ہوتا۔ مکرم نیاز صاحب نے انھیں خاموشیوں کو محسوس کر کے انھیں لفظوں کے ذریعے ہم تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اس افسانے "راستے خاموش ہیں" میں مکرم صاحب نے دیار غیر میں جا بسنے والوں کے ان نظریات کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے انھیں اپنے وطن سے بے رغبتی محسوس ہونے لگتی ہے، وہ وقت کی تبدیلیوں اور تعیش زندگی کے حصول میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ اپنی اصل پہچان کو ہی مجروح کرنے پر تل جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ ہمیشہ تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہر دیار غیر کو جانے والا اپنے وطن سے دوری کا انتخاب خود غرضی میں کرے، کچھ مجبوریوں کی بیڑیان ہوتی ہیں اور اپنوں کو آسانی اور خوشی دینے کا ایک خواب ہوتا ہے جسے وہ آنکھوں میں سجائے ہجرت کا کرب سہتے ہیں۔ اس افسانے کو پڑھتے ہوئے مکرم صاحب نے اگرچہ بہت سے پہلوؤں کو تشنہ چھوڑ دیا ہے لیکن شاید ان کا ابہام قاری سے شعور کا متقاضی ہے۔ جب راستے خاموش ہوں تو پھر حواس خمسہ کو یکسو ہو کر اس کی ان کہی کو سمجھنے کی تگ ودو کرنی پڑتی ہے اور جب ہم ہمہ تن متوجہ ہوتے ہیں فضاؤں میں بکھرے ہوئے ساز میں ایک ردھم پیدا ہو جاتا ہے جو ہمارے ذہنی اعصاب پر فکر و فن کے در وا کر دیتی ہے۔ اگرچہ اس افسانے کو پڑھتے ہوئے یہ بھی محسوس ہوا کہ کردار کہیں کہیں کھو سے گئے ہیں لیکن انھوں نے اس افسانے کے بنیادی خیال کو لڑکھڑانے نہیں دیا اور مکرم صاحب اپنا مافی الذہن کہنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور یہ ان کی ایک خوبی ہے کہ منزل کا تعین وہ آغاز سفر سے پہلے کر لیتے ہیں شاہراہوں اور پگڈنڈیوں دونوں پہ ہی وہ سفر کرنے کا لطف لیتے ہیں۔


انھیں افسانوں کی فہرست میں ایک افسانہ "آگہی" بھی شامل ہے میں پہلے اس عنوان کے انتخاب کو سراہنا چاہتی ہوں کہ یہ لفظ اگر اپنی ساری زندہ حقیقت کے ساتھ کسی انسان کے ذہن میں اتر جائے تو واقعی پھر اس کی زندگی اور سوچ کا سارا معیار بدل جاتا ہے۔ آگہی علم کی معراج ہے۔ اور ہر سیکھنے کا حاصل ہے۔ سیر باطن کا صلہ ہے اور انسانوں کو ملنے والا ایک اعلی شرف ہے۔ یہ تو رہی موضوع کی بات اب نظر اس کے تحت لکھے گئے افسانے پر ہے اس کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا کہ یہ بےشعوری کی دھند ہمارے چاروں طرف اس طرح موجود ہے کہ ہم نے اب اس دھند زدہ شئے کو ہی حقیقی ہیئت سمجھ لیا ہے ہمیں یہ جستجو ہی نہیں رہی کہ ہم سچائی کو تلاشیں اور اصل چہروں کو دیکھیں۔ ہم اپنی ذات کے خول میں بند وہ قیدی ہیں جسے رہائی سے کوئی غرض نہیں۔ اور جب انھیں لوگوں میں کوئی ایسا کردار جنم لیتا ہے جس نے حقیقت کا چہرہ دیکھا ہوتا ہے تو لوگ اسے اپنی بیحسی کا دفاع کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ تم ضرورت سے زیادہ حساس ہو۔ جب کہ حقیقت بہت سادہ ہے اور جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے ایسے میں اس کے شعور کا کرب اس کی اذیت کو بڑھا بھی دیتا ہے اور کبھی کم بھی کر دیتا ہے۔ جب آگہی اپنے در وا کرتی ہے تو پھر عمروں کا حساب بیمعنی ہو جاتا ہے پھر سفاک حقیقت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ جب وہ بچیاں اپنے باپ کی جدائی کو بہلاوؤں سے بہلنے کے بجائے اس کی حقیقت کو تسلیم کر لیتی ہیں، لگتا ہے کہ آگہی ایک عفریت ہے جو رفتہ رفتہ ہمیں جکڑے جا رہی ہے حالاں کہ آ گہی ہمیں بہت سارے فریب اور دھوکوں اور آزمائش سے بچا لیتی ہے جس کا ادراک ہمیں وقت گذرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ مکرم صاحب نے ان خیالات کو پرونے کے لئے جس طرح کے کردار کا سہارا لیا ہے خوب ہے۔ انھوں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے جب انسان کے شعور سے بے شعوری کے سارے حجاب ہٹا دئیے جاتے ہیں تو آگاہی اس کی تیسری آنکھ بن جاتی ہے جس سے وہ ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور ان دیکھی حقیقتوں کو تسلیم کر سکتا ہے۔


وقت کے ساتھ جہاں ہر صنف میں تبدیلی آئی ہے وہیں افسانوں کی صنف نے بھی وقت کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے جدید افسانوں میں مافوق الفطرت عناصر کو سمونے کے بجائے مشاہدات اور تجربات کو جس طرح اہمیت دی گئی ہے وہ قابل قدر ہے کیوں کہ بدلتے زمانے اور سائنسی ترقی نے اتنے کیا کیوں کیسے کس طرح کے سوالیہ نشان پیدا کر دئیے ہیں کہ انھیں مزید الجھایا نہیں جا سکتا، حقیقت کو سائنٹیفک طرز پہ قبول کرنے کا نظریہ اب فروغ پا چکا ہے اس لئے اس کے خلاف جانا احمقانہ کوشش ہوگی۔
مکرم نیاز کے سارے افسانے حقیقت سے قریب ہونے کا درجہ رکھتے ہیں اور یہی ان کے افسانوں کی پہچان ہے چوں کہ سارے ہی افسانوں پر تبصرہ کرنے کو کوشش کرنے سے میں نے احتیاط کی ہے اس لئے اب ایک آخری افسانے میں مکرم صاحب کی سوچوں اور ان کے فہم و فراست پر روشنی ڈالتے ہوئے اس تبصرے کا اختتام کرنا چاہتی ہوں جس کا عنوان ہے: 'گلاب کانٹنے اور کونپل'۔
اس میں انھوں نے کم کرداروں میں ہی جس طرح اپنی رجائیت پسند سوچ کی تصویر کشی کی ہے قابل قدر ہے۔ بیشک انسان ایک منظر اور یک طرفہ حقیقت کے سہارے زیادہ دیر تک اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ زندگی پھولوں کی سیج تو نہیں لیکن اسے کانٹوں کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے پھولوں کی تمنا کبھی نہیں چھوڑنی چاہئے۔ اپنی سوچوں کی ساخت میں اتنی لچک ضرور رکھنی چاہئے کہ جب حقیقت آ شکار ہو تو اس کے جھٹلانے کے بجائے اسے قبول کرنے کا حوصلہ باقی ہو۔ ہم اپنے جذبات میں کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں لیکن زمانہ ہمیں ہمیشہ اپنی ہی عینک سے دیکھتا ہے جس کے اپنے ہی مناظر ہوتے ہیں اور اپنے منفرد اصول و قواعد جس کے آگے ہم زیادہ دیر تک سینہ سپر نہیں رہ سکتے۔ زمانے میں تبدیلی لانے سے پہلے ہمیں اپنے نظریات کو مکمل طور سے شعور کی دسترس میں دینا ہوگا۔ ہر انسان کی زندگی میں یہ لمحہ ایک بار ضرور اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے ہم میں سے بعض لوگ حقیقت سے نظریں چرائے کانوں کو مقفل کئے اس کی کھٹ کھٹ کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس آواز پر تسلیم بجا لاتے ہیں۔ مکرم صاحب نے اپنی دانست میں افسانے کے مرکزی خیال کو امید سے جوڑ کر قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔


اس کے علاوہ باقی سارے افسانوں کے متعلق رائے قائم کرنا قارئین کی ذمے داری ہے۔ مجموعی طور پر ان کے تمام ہی افسانے عہد حاضر کی تہذیب و ثقافت کے دائرے میں لکھے گئے ہیں۔ انھوں نے زبان و بیان میں حتی المقدور سادگی کو برتا ہے اور اسلوب اور تکنیک کا بھی حسب ضرورت خیال رکھا ہے، یہ مکرم نیاز صاحب کی ایک عمدہ کاوش ہے۔ مجھے امید ہے کہ قارئین کے ذہنوں پر یہ اچھے اثرات مرتب کرے گی۔ اور یہ ادبی اثاثوں میں ایک قابل ذکر اضافہ کا موجب ہوگی۔ انھوں نے اپنے قلم کا حق ادا کرنے کی دیانت دارانہ کوشش کی ہے اور معاشرتی سوچوں کو مخاطب کرنے کے لئے انھوں نے جو کوشش کی ہے انشاء اللہ وہ اپنے مقصد کو ضرور حاصل کرے گی۔


شائع شدہ: ماہنامہ "قومی زبان" (اردو اکیڈیمی تلنگانہ کا سرکاری رسالہ)، اگست 2022ء
***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Raaste khamosh hain, a collection of short stories by Mukarram Niyaz. Reviewer: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں