ابراہیم جلیس - حسب و نسب اور خاندانی حالات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-17

ابراہیم جلیس - حسب و نسب اور خاندانی حالات

ibrahim-jalees

ابراہیم جلیس کا آبائی وطن عثمان آباد ہے، جو سابق ریاست حیدرآباد کا ایک ضلع تھا اور علاقہ مرہٹواڑہ میں واقع تھا۔ ہندوستان کی لسانی تقسیم کے بعد یہ ضلع ریاست مہاراشٹرا میں شامل ہو گیا۔


ابراہیم جلیس کے دادا جناب محمدحسین نسب کے اعتبار سے شیخ تھے۔ ان کی شادی حلیمہ بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان کے بطن سے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تولد ہوئے۔ لڑکوں کے نام محمد مشتاق حسین، محمد اسحق احمد ،احمد حسین، محمد غوث، مظفرحسین ہیں اور لڑکی کا نام راشدہ بی تھا جن کی شادی علاؤالدین پٹیل سے ہوئی تھی۔ ابراہیم جلیس احمد حسین صاحب کی تیسری اولاد ہیں۔
جلیس کے دادا ایک معمولی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور عثمان آباد کی تحصیل میں ایک خدمت پر کارگزار تھے۔ تحصیل میں کام کرنے کی وجہ سے انھوں نے علم کی اہمیت اور اس کی ضرورت کو سمجھ لیا تھا۔ خود کچھ نہ کر سکنے کے احساس کے باوجود ان کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر اعلی مراتب پر فائز ہو۔ اور اسی لیے انھوں نے اپنے دونوں لڑکوں کو شہر حیدرآباد روانہ کر دیا تاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔
ذرائع آمدنی قلیل تھے اور اتنا روپیہ نہ تھا کہ محد حسین اپنے بچوں کے لیے ایک معتد بہ رقم ہر ماہ روانہ کر سکیں لیکن محمد اسحق اور احمد حسین کے حوصلے بلند تھے۔ اور تعلیم حاصل کرنے کا شوق ان دونوں بھائیوں کے دل میں جاگزیں تھا۔
دونوں نے سخت محنت و مشقت کی اور اس طرح اپنی تعلیم جاری رکھی۔ محمد اسحق وکیل بن گئے اور اپنے آبائی وطن ہی میں پریکٹس کرنے لگے۔ احمد حسین تعلیم حاصل کرنے کے بعد محکمہ مال سے منسلک ہو گئے اور پیشکار کے عہدے سے ترقی کرتے کرتے تحصیل دار کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ اس زمانے میں تحصیل دار کا عہدہ بڑا جلیل القدر ہوا کرتا تھا۔ اسے اپنے علاقے پر مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ لیکن احمد حسین نے کبھی کوئی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کیا۔ وہ حریص نہ تھے۔ قناعت ان کا شعار تھا، اس لیے انھوں نے اپنے عہدہ سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ تنخواہ کے طور پر جو کچھ انہیں ملتا وہ اسی پر اکتفا کرتے اور اسی میں خوش رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے ہم پیشہ ساتھیوں نے لاکھوں کی دولت کمائی۔ لیکن احمد حسین اپنے مزاج کی وجہ سے اس شر سے محفوظ رہے۔
(شخصی انٹرویو، محبوب حسین جگر۔ 28/اپریل 1973ء)


1940ء میں احمد حسین نواب کلیانی کی جاگیر سے منسلک ہوئے اور ان کی جاگیر کے انتظامات سنبھالتے رہے۔ وہاں سے واپس آئے تو کچھ دن گلبرگہ میں رہے پھر کچھ دن حیدرآباد میں گزارا۔ پھر اس کے بعد گلبرگہ کی ساری جائیداد فروخت کر کے اپنے آبائی وطن عثمان آباد میں مقیم ہو گئے اور وہیں 10/مئی 1973ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 100 برس تھی۔


1930ء کے لگ بھگ احمد حسین صاحب کی پہلی بیوی نورالنساء یعنی ابراہیم جلیس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد احمد حسین صاحب نے دوسری شادی امیرالنساء سے کی۔ پہلی بیوی کے بطن سے محبوب حسین ، عابدحسین ، صندلی بیگم ، ابراہیم حسین اور یوسف حسین ہیں۔ اور دوسری بیوی سے اقبال حسین مجتبی حسین ،خورشید حسین ، اکرام حسین، محمود حسین اور سرتاج حسین ہیں۔ اقبال حسین کا 1970ء میں انتقال ہو گیا۔
صندلی بیگم کی شادی 1942ء میں ہوئی تھی لیکن شادی کے چار سال بعد یعنی 1946ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ دراصل ان کی شادی جس جگہ ہوئی تھی وہ ماحول ان کی طبعیت کو راس نہ آیا۔
(شخصی انٹرویو، محبوب حسین جگر۔ 28/اپریل 1973ء)وہ بیمار رہنے لگیں اور بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا۔ صندلی بیگم کا ذکر کرشن چندر نے اپنے رپورتاژ "پودے" میں کیا ہے۔
صندلی بیگم کی موت ایک ایسا سانحہ تھی جس نے خاندان کے سارے افراد کو متاثر کیا۔ محبوب حسین جگر بہن سے بے حد محبت کرتے تھے اور ابراہیم جلیس کے لیے تو وہ ماں کے برابر تھیں۔ کیونکہ والدہ کے انتقال کے بعد صندلی بیگم ہی نے ماں کی طرح ان کی پرورش کی تھی۔


جلیس کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اس زمانے میں عثمانیہ میں تعلیم حاصل کرنا باعث افتخار سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم کے بعد محبوب حسین جگر نے کچھ دن ملازمت کی اور ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ پھر وہ روزنامہ سیاست سے اس کے روز آغاز سے ہی وابستہ ہو گئے اور تادم حیات وہ اسی ادارہ میں جائنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ روز نامہ سیاست کے بلند صحافتی معیار اور اس کی اشاعت کی ساری ذمہ داری بھی انہی کے سر ہے اور جس میں جگر صاحب کی اعلی منتظمانہ اور صحافیانہ صلاحیتوں کا دخل ہے۔


جلیس کے دوسرے بڑے بھائی عابد حسین نے تعلیم کی تکمیل کے بعد کو آپریٹیو ڈپارٹمنٹ میں ملازمت شروع کی۔ لسانی تقسیم کے بعد وہ مہاراشٹرا کے حصے میں آئے جہاں ڈپٹی رجسٹرار کے عہدہ سے وظیفۂ حسن خدمت پر علحدہ ہو گئے۔ آج کل وہ بھی روزنامہ سیاست کے شعبۂ حسابات سے منسلک ہیں۔


یوسف حسین، جلیس کے چھوٹے بھائی پاکستان چلے گئے اور اپنے بھائی ابراہیم جلیس کے ساتھ رہنے لگے۔ فضل گلبرگوی کے مطابق ستمبر 1977ء میں ان کی شادی ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے محکمہ شہری دفاع میں بحیثیت افسر کارگزار ہیں۔
( فضل گلبرگوی، میرا جلیس مشمولہ سب رس ، یاد رفتگان نمبر جنوری80ء، ص:29)


احمدحسین کی دوسری بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد میں مجتبی حسین سب سے بڑے ہیں۔ ان کا شمار ملک کے نامور مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ دن "سیاست" سے وابستہ رہے پھر محکمہ اطلاعات میں ملازم ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی میں نیشنل کونسل آف ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل میں چلے گئے اور تاحال وہیں کارگزار ہیں۔


روزنامہ "حریت" کراچی میں لکھا گیا کہ:
ان کے (جلیس کے) بڑے بھائی مجتبی حسین اردو اکیڈیمی نئی دہلی کے سربراہ ہیں اور دوسرے بھائی محبوب حسین جگر روزنامہ سیاست حیدرآباد دکن کے ایڈیٹر ہیں۔
(روزنامہ حریت کراچی۔ 27/اکتوبر 1977ء)۔


اس بات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حلقے ہندوستان کے بارے میں جو اطلاعات رکھتے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ دیوار ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان کھڑی ہے۔ سیاست دانوں کی اٹھائی ہوئی اس آہنی دیوار کی دوسری طرف کیا ہو رہا ہے اور سچائی کو توڑ مروڑ کر کس طرح دونوں طرف پیش کیا جاتا ہے، اس کی یہ ایک ادنی مثال ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: ابراہیم جلیس : شخصیت اور فن
تصنیف : رحمت یوسف زئی۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی (سن اشاعت: 2019ء)

Aik shareef kutte ka khat, Short story by: Narendra Luther.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں