قربانی کا فلسفہ اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-05

قربانی کا فلسفہ اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب

philosophy-of-sacrifice

اللہ پاک نے اسلام کو دین فطرت بنایا۔ خالق کائنات کا ہر حکم اس کی مخلوقات کے لیے مفید اور حکمت سے بھرا ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ انسان کو اس کی کم عقلی یا ہٹ دھرمی اور عناد کے نتیجے میں بعض احکام اسلامی پر اعتراض محسوس ہو مگر ہر حکم مدبرِ عالم کی حسن تدبیر کا شاہکار ہے۔ اللہ پاک نے عیدالاضحی کی مناسبت سے امت محمدیہ کے لیے جانور کی قربانی کو پسند فرمایا اور اس کے پیغمبر نے اس کا تاکیدی حکم دیا لہذا ہر مستطیع مسلمان فیملی اپنی طرف سے ضرور قربانی کرتی ہے۔
قرآن و حدیث میں قربانی کرنے کی بے حد فضیلت آئی ہے۔قرآن کی سورۃ الحج کی آیت 34 میں ہے۔
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ.
ترجمہ: "اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے! "


اسی طرح سورۃ الکوثر کی آیت 2 ہے:
"فصل لربك وانحر"
" لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو۔"
اس کے علاوہ قربانی کی فضیلت پر بے شمار احادیث بھی آئی ہیں جن کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔
خیر جانور کی اس‌ قربانی پر بہت سے لوگوں کے بہت سارے اعتراضات بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قربانی کی روح تو درکنار قربانی کے لفظ سے بھی حقیقی طور پر ناآشنا ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کا حکم اللہ نے اپنے کسی نجی فائدے کے لیے دیا ہے حالانکہ سورہ حج آیت نمبر 37 میں اللہ تعالیٰ کا صاف اعلان ہے:
لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔
یعنی اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے ، نہ ان کا خون ، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔ اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں ، تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں ، انہیں خوشخبری سنا دو۔


دراصل قربانی پر ہونے والے اعتراضات محض قربانی کو نہیں بلکہ مکمل اسلام کو نشانہ بنا کر کیے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے کچھ باتیں یہاں پیش کردی جائیں۔
آئیے سب سے پہلے ہم قربانی کے اہم مقاصد اور حکمتوں کو جانتے ہیں۔ جن کی روشنی میں خود بخود اعتراضات کی بنیاد مسمار ہوکر رہ جائے گی۔


قربانی کا فلسفہ اور حکمتیں:

1- یہ تقوی اور خشیت الہی کے حصول کا ذریعہ ہے (سورہ حج 37)
2- جو مویشی اللہ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں یہ اس کا شکرانہ ہے۔ (سورہ حج 34)
3- یہ شعائر اسلام میں سے ہے اور اللہ تعالٰی کے ذکر کا سبب ہے۔ (سورہ حج 36)
3- حج و عمرہ میں جس طرح انسان اپنے قول و عمل اور دل کو اللہ کے تابع رکھتا ہے اسی طرح قربانی کر کے یہ ثبوت فراہم کرنا ہے کہ اللہ کے لیے وہ خود اپنی جان بھی نچھاور کرسکتا ہے۔
4- قربانی دراصل انسان پر اللہ کی بے پایاں نعمتوں اور انسانی جان و مال کا شکرانہ ہے۔
5- یہ بزرگ ترین پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانیوں کو یاد کرنے کا مناسب موقع ہے۔
6- یہ ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی ایک کوشش ہے۔ جس میں بندہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جان کو بھی رب کے حکم کے سامنے قربان کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔
7- قربانی اپنی ذات، اہل خانہ، پڑوسی، دوست احباب، رشتہ دار اور غرباء و مساکین اور مہمانوں کو سخاوت کے ساتھ میزبانی کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
8- قربانی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق ، صبر ، ایثار، عزیمت اور استقامت کی راہ دکھاتی ہے۔
9- قربانی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے۔
10- جس طرح روزے کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کی بھوک میں امراء بھی ان کے برابر ہو جائیں اسی طرح قربانی کا ایک اہم فلسفہ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کھانے میں امراء کی طرح تازہ اور وافر مقدار میں گوشت کھا سکیں۔
11- قربانی ہمیں اُخوت اور بھائی چارگی کا پیغام دیتی ہے، قربانی ایک دوست کو دوسرے دوست سے، ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے۔
12- قربانی انسان کو کبر و غرور سے دور کرتی ہے اور تواضع و انکساری پیدا کرتی ہے۔
13- قربانی دراصل مال میں زیادتی کا سبب ہے کیوں کہ جو مال اللہ کی راہ میں دیا جائے، وہ کم نہیں ہوتا، بلکہ اِس میں برکت ہوتی ہے اور وہ بڑھتا ہے اور پاک ہوتا ہے۔
14- قربانی بین الاقوامی مسلم‌ اتحاد کا ذریعہ ہے اس‌ لیے کہ پوری دنیا میں لوگ انہیں مخصوص دنوں میں قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔
15- قربانی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے مال کی محبت کم ہوتی ہے۔ سخاوت کرنے کی عادت بھی بنتی ہے۔ اس سے بُخل، حِرص، ایک دوسرے کا حق مارنے وغیرہ جیسی عادتیں ختم ہوتیں اور ایثار و خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
16- سال میں کم از کم ایک بار گوشت کھانے سے جسم کی بہت سی ایسی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں جو صرف گوشت سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔
17- مختلف انڈسٹریز اور بطور خاص غرباء کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ملکی اور عالمی معیشت کو تحریک ملتی ہے۔
18- قربانی مصیبتوں اور آزمائشوں میں ڈٹے رہنا سکھاتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی ان تمام قربانیوں اور امتحانوں کو ذہن میں تازہ کرتی ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے کیا۔ گویا قربانی کی نیت یہ ہوئی کہ ”اے اللہ، میں ان تمام قربانیوں کے لئے تیار ہوں جو ابراہیم نے دی تھیں۔ میں اس کے لئے حرام کمائی تو کیا، گھر، ملک، بیوی تو کیا اگر اولاد کو بھی ذبح کرنا پڑے تو تیرے حکم کے آگے کر دوں گا۔
19- جانور کی قربانی کی ایک اہم حکمت انسانی جان کا تحفظ ہے۔ مولانا ابوالمرجان فیضی لکھتے ہیں : پہلے معبود کے نام پر انسانی جان کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی. جیسا کہ بعض وحشی قبائل میں آج بھی رائج ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل سے انسانی قربانی کو جانوروں کی قربانی سے بدل دیا گیا. یہ ساری انسانیت کے لئے فائدے کی چیز ہے۔ ورنہ آج بھی معبود کے نام پر نہ جانے کتنے انسان قتل کئے جاتے ہیں۔"
20- اسلام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دولت صرف امیروں کے درمیان گردش نہ کرنے لگے، زکوٰۃ کے سلسلے میں قرآن مجید کے اندر اس کا واضح حکم موجود ہے۔ قربانی بھی اس مقصد کی تکمیل کیلئے ایک ذریعہ ہے۔
21- قربانی ہمیں جانوروں سے محبت کرنا سکھاتی ہے کیوں کہ اسی بہانے بیشتر مسلمان جانوروں کو خود پالنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔
22- قربانی کے ذریعے جانوروں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اور ان کو ادھر ادھر بے چارہ چھوڑنے کے بجائے لوگ پالتے ہیں اور ان کو یوں ہی بے یار و مددگار تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا بلکہ احسان کے ساتھ اللہ کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی Hanover University کے پروفیسر Schultz اور ان کے رفیق کار ڈاکٹر Hazem نے عملی تجربے سے ثابت کیا کہ اسلامی طریقہ ذبح انتہائی رحمدلانہ اور سب سے اچھا ہے، کیونکہ اس میں جانور کو کم سے کم تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے برعکس "کیپٹِوبولٹ اسٹننگ" (Captive Bolt Stunning) سے جانور کو بہت زیادہ اذیت پہنچتی ہے۔
23- قربانی کے جانوروں کی جو شرائط شریعتِ مطہرہ نے مقرر فرمائی ہیں، ان کے مطابق قربانی کرنے سے حاصل ہونے والا گوشت صحت کے لئے انتہائی مفید ہوتا ہے۔
24- قربانی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قربانی کے ذریعے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوتی ہے، اگر قربانی میں جانور ذبح نہ ہوں اور تمام جانور موجود ہوں تو گوبر اور لید میں اضافہ ہوگا، جس سے فضائی ماحول بھی متاثر ہوگا۔
25- قربانی سے تعلیم کو بھی فروغ ملتا ہے اس لیے کہ عموما لوگ قربانی کے چمڑوں کو تعلیم گاہوں کو ہدیہ کرتے ہیں۔
الغرض قربانی کے ان گنت فوائد ہیں۔ قربانی انسان کی روحانی ، جسمانی ، اعتقادی اور مالی ہر قسم کی صحت کے لیے مفید ہے۔ اس سے ایڈ (Aid) اور ٹریڈ (Trade) یعنی مفاد و معاش دونوں حاصل ہوتا ہے۔


قربانی پر ہونے والے عمومی اعتراضات :

1- پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قربانی فضول خرچی ہے۔
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ فضول خرچی اس خرچ کو کہتے ہیں جو بغیر ضرورت ہو۔ جب کہ یہاں سب سے اہم ضرورت ہے وہ ہے اللہ کا حکم اور اللہ کے لیے قربانی۔ انسان اپنے لیے سب کچھ کرے اور انسان کی ہر ایک سانس جس خالق کی عطا کردہ ہے اس کے لیے ایک چھوٹی سی قربانی بھی پیش نہ کرسکے!! خود قرآن نے فضول خرچی سے منع کیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا. (بنی اسرائیل 26)
یعنی رشتہ داروں کو ان کا حق دو ، اور مسکین اور مسافر کو ( ان کا حق ) اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔


2- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کی ڈیمانڈ بڑھنے سے سپلائی بھی بڑھتی ہے اور اس طرف لوگوں کا دھیان بھی زیادہ رہتا ہے۔ اور جس کی ڈیمانڈ ختم ہوجاتی ہے اس چیز کی سپلائی بھی دھیرے دھیرے آٹومیٹک ختم ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ کہ جن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ان جانوروں کی نسل بھی بڑھ رہی ہے۔ ہر عیدالاضحی پر کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں مگر اگلی عیدالاضحی پر دوبارہ کروڑوں جانور تیار رہتے ہیں۔
مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت: "وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیٍٔ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ" کی تفسیر میں لکھتے ہیں:


" اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں۔ کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے۔ انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں۔ بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں۔ کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الٰہیہ کے منافی نہیں۔ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیا صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے، کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب نے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔"
(بحوالہ: معارف القرآن، سورۃ السبأ:39، جلد 7،ص:303)


3- قربانی کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جائے، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا، کوئی بھوکا نہیں رہے گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
تو سب سے پہلے ہم‌ ان انسانیت نوازوں اور رفاہی کام کے دلدادہ احباب کو اسلام کی دعوت دینا چاہیں گے اس لیے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانیت کا ہرقسم کا ضروری خیال رکھتا ہے۔‌جان و مال، عزت و آبرو، عقل و نسل اور ایمان کی سلامتی کا ضامن ہے۔ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکاۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام وضع کیا ہوا ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور یتیموں کی کفالت اور خیرخواہی کا قرآن نے بار بار تاکیدی حکم دیا ہے۔ ان اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ معاشرے میں موجود خرافات اور رسوم و رواج پر ایک نظر ڈالیں اور اصلاح فرمائیں۔ نیو ائیر نائٹ پر جو اربوں کھربوں روپئے کے اخراجات ہوتے ہیں وہ دنیا کے کئی چھوٹے ممالک کے پورے سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی، تمباکو خوری، شراب نوشی، ڈرگز، جوا، کرکٹ، فلم بینی، رقص و موسیقی، فحش پروگرام، انٹرنیٹ، ویڈیو گیمز، آتش بازی، بیوٹی پارلر وغیرہ پر بے تحاشا خرچ کرتی ہے۔ یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ ، تفریحِ طبع اور دیگر دعوتوں پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ محض نمود و نمائش کے لیے قیمتی لباس زیبِ تن کیا جاتا ہے۔ روزانہ بہت سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ ان تمام کاموں پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے اور ایسا ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے، بسنت اور مختلف قسم کے ڈے نائٹ سیلیبریشنز کی فضول خرچیوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے‌۔ خود قربانی کے خلاف فیس بک پر لکھنے والوں کو اپنا لیپ ٹاپ اور آئی فون نہیں خریدنا چاہیے تھا اس لیے کہ اسی رقم میں کسی غریب فیملی کا کئی ماہ کا راشن ہوجاتا۔ ہمارا صرف یہی کہنا ہے کہ جس رب نے امتِ مسلمہ کے لیے قربانی کو لازم قرار دیا ہے اسی رب نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکوۃ بھی فرض کی ہے اور اس کے علاوہ دیگر صدقات اور اطعام و انفاق کی بھی ترغیب دلائی ہے۔


4- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ کروڑوں جانوروں کو قربان کرنے سے معیشت پر بوجھ پڑتا ہے اور کھربوں روپئے ضائع ہوتے ہیں۔
حالانکہ یہ اعتراض بہت سطحی قسم کا ہے۔‌ادنی سی معاشی بصیرت رکھنے والا بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ عیدالاضحی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ حرکت میں آتا ہے، فارمنگ انڈسٹری، کیٹل انڈسٹری اور لیدر انڈسٹری سے لے کر کاسمیٹک انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری تک نہ جانے کتنی انڈسٹریاں اس سے متحرک ہوتی ہیں۔ قربانی کا سب سے زیادہ فائدہ غریب عوام کو ہوتا ہے۔ قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ‌قربانی کو اگر خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھی ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی (activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے۔ اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے، مزید یہ کہ ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے۔


5- قربانی پر بطور خاص اور اسلام پر عام طور پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جانوروں کو قربانی کے نام پر قتل کرنا درندگی ہے۔ یہ حد درجہ بے رحمی اور بے مروتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔
حالانکہ یہ اعتراض اپنے آپ میں ایک حماقت ہے۔‌ ذرا غور کریں کہ کیا اس جیوہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے؟ آپ جب پانی یا دودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اْتارتے ہیں تو سینکڑوں جراثیم ہیں جو مر جاتے ہیں ، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں ، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں ؟ یہی کہ جو نقصان دہ جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں ، ان کا خاتمہ کردیں۔ جانور کا قتل یا "جیو ہتیا" کے broad concept کے ساتھ تو آپ پانی تک نہیں پی سکتے اور نہ دواؤں کا استعمال آپ کے لیے روا ہوسکتا ہے۔ پھر آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے۔ سوامی دیانندجی نے "آواگمن" میں روح کے منتقل ہونے کے تین قالب قرار دئے ہیں : انسان، حیوان اور نباتات۔ یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے تو اگر ’جیوہتیا‘ سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا۔ گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں جو مکمل طور پر جیوہتیا سے بچ کر جینا چاہتے ہوں۔
کیا اللہ کی دنیا میں جانور ایک دوسرے کا شکار نہیں کرتے؟ دنیا کی ساری چیزیں اللہ نے انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں کیا جانوروں پہ ہل جوتنا بوجھ ڈالنا بے رحمی نہیں ہے؟ اگر کسی جان کو مارنا بے رحمی ہے تو ہم مکھی اور مچھر بھی نہیں مار سکتے ، جراثیم بھی نہیں مار سکتے ،ایلوپیتھک علاج بھی نہیں کرسکتے۔
دھارمک پستکوں کو دیکھیں تو ویدوں میں 250 جانوروں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں 50 کو بَلی دینے اور کھانے کے لیے درست پایا گیا۔ بازار میں الگ الگ طرح کا گوشت فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں مثلاً گوگاتک (مویشی)، اربیکا (بھیڑ)، شوکاریکا (خنزیر)، ناگریکا (ہرن)، شاکنتیکا (پرندہ)۔ گھڑیال اور کچھوے (گِدّابُدّکا) کے گوشت کی الگ دکانیں ہوتی تھیں۔ رِگ وید میں گھوڑا، بھینس، بھیڑ اور بکرے کو بَلی دینے لائق جانوروں کے طور پر بتایا گیا۔ رِگ وید کے 162ویں شلوک میں حکمرانوں کے ذریعہ دی جانے والی گھوڑے کی بَلی یعنی قربانی کی تفصیل دی گئی ہے۔ ویدوں میں الگ الگ دیوتاؤں کی الگ الگ جانوروں کے گوشت میں دلچسپی تھی۔ اَگنی کو بیل اور بانجھ گائے اچھی لگتی تھی، رودر کو لال گائے، وِشنو کو ناٹے بیل، اندر کو ماتھے پر نشان اور لٹکتے سینگ والے بیل پسند تھے جب کہ پُشان کو کالی گائے پسند تھی۔ بعد میں مرتب برہمن گرنتھ میں بتایا گیا کہ خاص مہمانوں کے لیے موٹے بیل یا بکروں کی بَلی دینا ضروری ہے۔ تیتریہ اُپنیشد میں رِشی اگستیہ کے ذریعہ سینکڑوں بیلوں کی بَلی دینے کی تعریف کی گئی ہے۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی مذاہب میں قربانی اور جانوروں کے ذبح کا تصور ہے‌۔


اس‌ پوری بات سے یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ جس دلیل سے ہم گوشت نہیں کھا سکتے اس دلیل سے ہم سبزی بھی نہیں کھا سکتے ،کیونکہ زندگی ہر چیز میں ہوتی ہے۔رام جی کا خود ہرن شکار کرنا ،اسکا گوشت استعمال کرنا رامائن سے ثابت ہے۔
اگر ہم گوشت اور سبزی کی حقیقت الگ الگ بھی مان لیں تو وہ ملک جہاں کھیتی نہیں ہو سکتی صرف گھاس ہوتی وہاں لوگ کیا کھائیں؟ جو ملک سمندر کے کنارے ہیں جہاں کھانے کو صرف مچھلی ملتی ہے جیسے جاپان وہاں لوگ کیا کھائیں؟
شمالی امریکہ میں بسنے والی قوم اسکیمو کے لوگ کیا کھائیں؟
جہاں.باغات نہ کھیت صرف سیل اور وہیل کھاتے ہیں ،یا بارہ سنگھے کا شکارپ کرتے ہیں ، دنیا بھر میں.جتنا گوشت کھایا جاتا ہے اگر وہ نہ کھایا جائےاور جانوروں کو ہم بطور خواراک استعمال نہ کریں ہلاک نہ کریں تو دوسرے فوڈ آئٹمز کی کمی پڑ جائے گی ،قیمتیں بڑھ جائیں گی بے کار مویشی ملکوں کے لیے مصیبت بن جائیں گے ، کارڈ لیور آئل اور ریشم جیسی چیزیں ناپید ہوجائیں گی۔ (ملخصاً از الحاد ڈاٹ کام)


6- ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ گوشت کھانے سے انسان میں درندگی آتی ہے۔ اور انسان کے اندر حیوانیت پیدا ہوتی ہے۔
اس کا صاف سیدھا جواب یہ ہے کہ ازل سے ہی گوشت خوری انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ گوتم بدھ اور حضرت عیسی مسیح جن کو عدم تشدد اور رحم دِلی کا سب سے بڑا داعی تصور کیا جاتا ہے، لیکن کیا یہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں ؟ یہ سبھی گوشت خور تھے۔ گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے بلکہ آخری وقت میں بھی گوشت کھاکر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر کوئی تشدد، ظلم و ستم اور بے رحمی کا نمائندہ ہوگا؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ پیور نان ویج تھا۔ کرشن ، رام اور شیو سے لیے کر ساورکر تک سبھی نان ویج تھے۔ ساورکر نے تو گاندھی جی کو نان ویج نہ کھانے پر کہا کہ آپ بنا گوشت کھائے آزادی کی لڑائی کیسے لڑیں گے۔


ہندو دھرم کی کتاب "منو سمرتی" کے باب نمبر 5 کے شلوک نمبر 30 میں ہے:"جو شخص(ان جانوروں کا) گوشت کھائے جن کا گوشت کھانا چاہیے تو وہ کوئی بُرا کام نہیں کرتا چاہے وہ ایسا روزانہ کرے کیونکہ خدا نے کچھ چیزیں کھائے جانے کے لیے پیدا کی ہیں اور کچھ کو ان چیزوں کو کھانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ "
منوسمرتی‌ چیپٹر پانچ، شلوک 35 میں ہے: ” شاستر کی ودھی سے جو مانس شدھ ہوتا ہے اسکو جو نہیں کھاتا پرلوک میں اکیس جنم تک جانور ہوتا ہے! “
سائنسی طور پر یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت، بہادری ، جوش و خروش ، بے باکی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے۔ دراصل گوشت نائٹروجن‘ چربی‘ نمکیات اور پانی کا مجموعہ ہوتا ہے‘ ہمارے جسم کے رگ و ریشے زیادہ تر نائٹروجنی مرکبات سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارا جسم مشقت‘ ورزش اور مختلف حرکات سے جب تحلیل ہونا شروع ہوجاتا ہے تو اس کمی کو صرف نائٹروجنی غذا سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ نائٹروجنی غذا ہی سے ہمارے جسم کی نشوونما ہوتی ہے۔ ماہرین غذا کا کہنا ہے کہ پروٹین نباتاتی غذاؤں کی نسبت گوشت میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔


خلاصہ یہ کہ قرآن اور حدیث سمیت دیگر مذاھب کی کتابوں میں بھی گوشت خوری کو ممنوع نہیں کہا گیا ہے بلکہ گوشت خوری کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے۔ اور یہی چیز سائنسی، عقلی اور فطری طور پر صحیح بھی ہے۔ اور انسانی جسم کا میکنزم بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ اسلام نے واضح طور پر درندوں اور خبیث جانوروں کے گوشت سے منع کیا ہے تاکہ مسلمانوں میں درندگی اور خباثت نہ ہو۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

***
کاشف شکیل (ممبئی)

Email: mohammadkashif558[@]gmail.com


The philosophy of sacrifice and Answers to its objections. - Essay: Kashif Shakeel

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ۔۔۔
    بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
    بہت سارے مواد اور بہت ساری چیزوں کو اس میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔
    اس تحریر سے کافی لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں