حج سے لوٹنے کے بعد - نقطہ نظر از سرفراز عالم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-18

حج سے لوٹنے کے بعد - نقطہ نظر از سرفراز عالم

after-the-hajj

لگ بھگ دو سال کے وقفے کے بعد اس سال حج کا موسم ختم ہوا۔ دنیا بھر کے تمام محترم حجاج کرام کو میری طرف سے لاکھوں کروڑوں مبارکباد۔
ماشاءاللہ اب تو ہرسال حجاج کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے یعنی مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اسلام میں بےشک حج پانچواں رکن ہے۔ ہر مالدارپر حج فرض ہے۔ زیادہ مالدار لوگ تو کم و بیش اب ہر سال نفل ،حج اور سال بھر عمرہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حج کو قبول فرمائے آمین۔


اسلام کے پانچ ارکان میں حج پانچواں رکن ہے۔ توحید،نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج۔ میری سمجھ میں توحید وحدانیت کا اعلان اور اقرار ہے، نماز اللہ کی عبدیت کا اظہار ہے، زکوٰۃ سال بھر کی حلال کمائی کا صدقہ ہے، روزہ جسم کی صفائی اور سال بھر کے گناہوں کا کفارہ اوراستطاعت ہونے پر حج مکمّل ذات کا تزکیہ ہے۔ اس طرح توحید اور نماز کے بعد زکوٰۃ اور روزہ ہر سال اللہ کی طرف سے مومنوں کو ملا ہوا وہ بونس ہے جس سے بار بار پاکی اختیار کرنے کا موقع نصیب ہوتا ہے، پھر شفاف ہو جانے کے بعد یعنی مال کی پاکیزگی کے بعد حج کے لئے جاتے ہیں۔ تب جاکر ایک مکمل مومن کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی کے متعلق حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حج کے بعد انسان نومولود بچے کی طرح پاک ہو جاتا ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔
(بخاری و مسلم)


اس حدیث میں دی گئی خوشخبری کے مطابق ہر حاجی کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کیا حج سے لوٹنے کے بعد بقیہ زندگی میں وہ اس کا پیکر نظر آتا ہے؟ غور کیجئے ایک معصوم بچہ جھوٹ ، چوری، رشوت، سود خوری، فریب، تعصّب، مسلک و مذہب کے بھیدبھاؤ سے پاک ہوتا ہے اسلئے ساری دنیا اُسے پیار کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج عمرہ اور حج سے لوٹنے والوں میں ہم وہ کیفیت پاتے ہیں جس کی بنا پر ساری دنیا ان سے پیار کرے؟ہر حاجی کو بار بار یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کتنوں کو تو حج کے بعد بھی ڈاڑھی رکھنے کی توفیق نہیں ہوتی ہے..کتنوں کی زندگی میں ذرہ برابر بھی کوئی بدلاؤ نہیں آتا ہے۔ کتنوں کی زندگی میں خرابیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جن کی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ نیت کی پاکیزگی اور حلال مال حج کے دو سب سے قیمتی اجزاء ہیں جس کاپاس و لحاظ اکثرلوگ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ دکھاوے کی بات تو تب اور بڑھ جاتی ہے جب لوگ حج سے لوٹنے کے بعد جلسہ اور وعظ بیان کی محفلیں سجا کر نام و نمود بٹورنا چاہتے ہیں۔


اور آگے بڑھیں تو اکثر حاجی حج کو جانے سے پہلے جس سے چاہتے ہیں معافی مانگتے ہیں اور جس سے معافی مانگنا چاہئے اس سے بچ بچا کر نکل جاتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ ہر حاجی کو چاہیے کہ ذرا رک کر سوچیں اور ہر طرح کے گناہوں سے پاک ہو کر ہی حج کا سفر کریں ورنہ ایسی حالت میں لوٹنے کے بعد مزید گناہ میں ملوث ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جس طرح سے غیر مسلم گنگا اسنان کو ہر پاپ سے مکتی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ شاید حج کو گنگا اسنان کی طرح سمجھتے ہیں۔ گناہ کر لینے کے بعد حج کر لیا سارے گناہ معاف ہو گئے۔ حاجیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ملے گی جو کئی بار حج کرنے کے بعد بھی اپنی اولاد کی شادی میں موٹی رقم اور دہیج کا سامان وصول رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت لوگ ایسے بھی ہیں جو حج کرنے کے بعد ماشاءاللہ اپنی زندگی مثالی بنا لیتے ہیں۔ حج تو حقوق اللہ ہے اس میں ہوئی کوتاہیوں کو اللہ معاف کر دینے پر پوری طرح قادر ہے لیکن اگر حقوق العباد میں کوتاہی رہ گئی تو اللہ ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ حج کر لینے کے بعد کیا گناہ کبیرہ بھی معاف ہو جاتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے ہم سب کے لیے۔ اگر ایسا ہے تو بڑے بڑے کبیرہ گناہ کر کے حج کرلیں، اور معصوم بچے کی طرح پاک و شفاف ہو جائیں۔ کیا اسلام ہمیں ایسا اصول سکھاتا ہے۔ تو پھر قرآن کا اعلان کہ ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہوگا،کیا مطلب رکھتا ہے۔ بحرحال ہر اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ میری ان بدگمانیوں کو ضائع کر دے۔


ہمارا مقصد ان تقاضوں کو یاد دلانا ہے جن کو ادا کئے بغیر حج کا ثواب تو مل جائیگا لیکن مکّہ اور مدینہ کا انقلاب انگیز پیغام دنیا کو ہرگز نہیں پہنچے گا بلکہ غیرقوموں کو یہ پیغام ملے گا کہ جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ دیوستھانوں یا واٹیکن چرچ وغیرہ جاتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی مکہ اور مدینہ کا ایک مقدّس سفر کرکے آتے ہیں۔اس لئے کہ جس طرح دوسروں کے اپنے مذہبی مقامات سے لوٹنے کے بعد ان کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آتا، مسلمان کی زندگی میں بھی کوئی انقلاب نہیں آتا۔


یہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ حج و عمرہ کرنے والوں اور دعائیں کرنے والوں میں ہر سال اضافہ کے باوجود کیوں کوئی دعا قبول نہیں ہورہی ہے؟ کیوں یہ امّت مسلسل ذلّت و رسوائی کے گڑھے میں گرتی جارہی ہے؟ حج سے قبل بھی اور حج کے بعد بھی گڑگڑاکر دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ہم ذلیل وخوار ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ ہمارے سفر کا نقطۂ آغاز ہی غلط ہے۔ جب تک آمدنی مکمل حلال نہیں ہوگی تب تک حج کیا کوئی عبادت قبول ہی نہیں ہوگی۔ اس سال لوٹ کر آنے والے حاجیوں سے گفتگو کا موقع ملا تو ان کا تاثر حیران کن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حج کے دوران ڈسپلین کی بے حد کمی پائ گئی۔ اب حساس ذہن رکھنے والے لوگ مکتہ المکرمہ اور مدینہ منورہ سے وہ روحانی تاثر لے کر نہیں آتے جو مطلوب ہیں۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ ہر انسان اپنے گھر میں بنتا ہے اور حج سے لوٹنے کے بعد گھر میں ہی مزید بنتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر ایسا انہوں نے کیوں کہا؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرف حرام مال کی فراوانی سے دل و جگر اب وہ کیفیت نہیں محسوس کر پاتا ہے وہیں دوسری وجہ کہ ان دونوں مقدس مقامات کی درو دیوار کو مصنوعیت کی چادر سے ڈھک کر ایک محل کا روپ دے دیا گیا ہے۔ ورنہ یہ وہ مقامات ہیں جس کی مٹی بھی اثر رکھتی ہے۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا کہ دوران حج اب اپنے اوپر کیفیت طاری نہیں ہوتی ہے بلکہ طاری کرنی پڑتی ہے۔ کچھ دوراندیش اور بے حد حساس لوگوں نے تو موجودہ دور کے حج کو ایک اسلامی پکنک سے تشبیہ دیا ہے۔ عمومی طور سے لوگوں نے بد انتظامی کی شکایت کی۔ واللہ اعلم۔


ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ ہرگز نفل حج یا عمرہ نہ کریں۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اگر صرف ایک حج و عمرہ کم کرلیں اور وہ پیسہ امّت کے ان افراد کے حوالے کردیں جو اس شکست خوردہ بلکہ ذلّت پذیر قوم کو تعلیم، دعوت و تبلیغ، اصلاح ِ معاشرہ، میڈیا اور ٹکنالوجی کے ذریعے اوپر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں،تو ان شاءاللہ قوم کی تقدیر بدل جائیگی۔ ایسے مالدار لوگ جو ایک سے زیادہ بار حج کرتے ہیں کیا ان کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ اپنی ملت میں ہی ہزاروں لوگ اپنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی پریشان ہیں؟ ان کی مدد کیا مالداروں پر لازم نہیں ہے؟ اللہ نے مالداروں کے مال میں غریبوں کا حصہ رکھا جس کو ادا نہیں کرنےکا وہ حساب لے گا۔ ایسے حاجی کیا اکیلے جنت میں چلے جائیں گے؟


جن گھروں میں جہیز کا حرام مال جمع ہو، جس گھر میں سود اور رشوت کا مال جمع ہو۔جب تک کہ شدید مجبوری نہ ہو سود پر گھر گاڑی اور دوسری اشیاء جمع کی گئی ہوں۔ جس کمائی کے لئے جھوٹ بولنا جائز کر لیا گیا ہو۔ جن گھروں میں ایسی ایسی نئی تقریبات ایجاد کر لی گئی ہوں جن کو نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پسند کیا نہ صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے۔ایسے گھروں کے افراد جب حج پر حج اور عمرہ پر عمرہ کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ بیت اللہ کا تقدّس پامال ہوتا ہے بلکہ اسلام کی عظیم عبادتیں دنیا والوں کے لئے باعث. تمسخر بن جاتی ہے۔


قبولیتِ حج کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کرے۔ اپنی زندگی کے ہر ایک پل کو اللہ کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں میں ڈھال لے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔ ہر وقت اپنے دل کو عبادات میں لگائے رکھے، اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھے، ہر وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہو، قومی، علاقائی اور خاندانی رسومات پراسلامی طریقے کو ترجیح دے۔ اپنی ذاتی میں اگر گناہ ہو جائے تو فوراً ان سے توبہ کرے۔ غریب، رشتہ دار ، مفلس، نادار، مساکین اور یتیموں اور مستحقین لوگوں کی حتی الامکان مدد کرے۔ مظلوموں کی داد رسی کرے۔ شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہو اور غیر اسلامی کاموں اور لایعنی باتوں سے خود کو بچانے کی فکر کرے۔ الغرض اس آیت کی عملی تفسیر بن جائے کہ :
"اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔"

***
سرفراز عالم۔ رابطہ: 8825189373
sarfarazalam1965[@]gmail.com

After the hajj... Views: Sarfaraz Alam.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں